11
0
Friday 1 Mar 2013 16:51

ہدف کی موت

ہدف کی موت
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@yahoo.com

بھیڑ چال میں ہدف یا تو قتل ہو جاتا ہے اور یا پھر کھو جاتا ہے۔ دوسروں کی دیکھا دیکھی کسی بھی کام کو شروع کرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک تو ہم خود بھی کوئی خاص پیش رفت نہیں کر پاتے اور دوسرا یہ کہ ہم اصلی ہدف کو بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص کسی پرندے کو شکار کرنے کے لئے فائر کرے اور دوسرے افراد اس کی دیکھا دیکھی فائر کرنا شروع کر دیں تو صاف ظاہر ہے کہ "شکار" یا تو گم ہو جائے گا اور یا پھر اس کا ایسا بھرکس نکل جائے گا کہ اصلاً قابلِ استفادہ نہیں رہے گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک زمانے میں ہم بھی بھیڑ چال کے شکار ہوئے تھے۔ ہم نے دوسروں کی دیکھا دیکھی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ہم نے "صرف اور صرف" پڑھائی کرنی ہے۔ پھر جب خوب پڑھ لکھ جائیں گے تو تب جا کر عملی زندگی میں قدم رکھیں گے۔
 
ہمارے اس فیصلے کے کچھ عرصے بعد برادر سید احمد اقبال رضوی نے ہم سے ہماری گوشہ نشینی کی وجہ پوچھی۔ ہم نے اپنا مدعا بیان کیا تو وہ کہنے لگے کہ اگر آپ کسی بھی مرجع یا مجتہد کے پاس چلے جائیں اور ان سے پوچھیں کہ کیا آپ نے مکمل طور پر علم حاصل کر لیا ہے تو وہ یقینی طور پر آپ کو یہی جواب دیں گے کہ نہیں ابھی تک تو میں بالکل تہی دست ہوں۔ میں نے پوچھا پھر کیا کریں؟ انہوں نے کہا کہ علم ہمیشہ عمل کے ذریعے ہی مفید ثابت ہوتا ہے۔ عمل کی دنیا میں بھیڑ چال اور دوسروں کی نقالی کے بجائے اپنی صلاحیتوں کے عین مطابق ممکنہ حد تک اپنے دینی فریضے کو انجام دینے کی کوشش کریں۔ یہ ایک مرد باعمل کی بات تھی سو دماغ سے ہوتی ہوئی دل میں اتر گئی۔

کچھ دنوں تک انہوں نے ہمارے شب و روز کو دیکھتے ہوئے ہمیں "ماہنامہ سحر کراچی" کے مدیر برادر ارشد سے ملوایا اور یوں ہمیں قلمی دنیا میں نظریاتی حصار میسّر ہوگیا۔ لکھتے تو ہم پہلے سے ہی تھے، لیکن مجلّہ سحر سے مرتبط رہنے کے دوران ہم نے محسوس کیا کہ "ہدف" نظریات کے سانچے میں ہی جگمگاتا ہے۔ یہ سفر جاری ہی تھا کہ برادر گلزار جعفری سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ہم سے معاونت کا عہد لے کر مجلّہ امید کی بنیاد ڈالی۔ ان کے ساتھ رہ کر مجھے یہ احساس ہوا کہ اگر فقط خدا پر امید رکھ کر ہدف کا پیچھا کیا جائے تو مشکلات کے بھنور میں ہدف کبھی بھی نہیں مرتا۔ ان کے بعد برادر نقی ہاشمی سے آشنا ہوئی، ان سے قربت کے زمانے میں مجلّہ امید نے بال و پر نکالے اور ادارہ امید میں تبدیل ہوگیا۔ جب تک ان کی قربت میں رہا، ان سے یہی سیکھا کہ دوستوں کو ضائع مت کرو۔ ہر دوست کے ذمے ہر کام مت لگاو۔ دوستوں کو بھیڑ چال کا شکار ہونے سے بچاو۔

ان کے بعد یا پھر اسی زمانے میں برادر مہدی کاظمی کی قربت نصیب ہوئی۔ ان میں ہم نے یہ خوبی ہمیشہ پائی کہ اگر آپ کی نیّت خالص ہے، مقام یا عہدے کی لالچ نہیں رکھتے اور آپ کے دل میں کسی کے خلاف بغض، نفرت یا تعصب نہیں ہے تو پھر بلاخوف اپنے ہدف کی طرف بڑھیں اور یقین کرلیں کہ خدا کی مدد آپ ہی کے ساتھ ہے۔ راقم الحروف کی تاریک زندگی کے تہہ در تہہ افلاک پر جابجا اس طرح کے بامقصد دوستوں کی کہکشائیں موجود ہیں، جو اکثر شبِ تنہائی میں، بنتی ہیں شمعِ زندگی اور ڈالتی ہیں روشنی، میرے دلِ صد چاک چاک پر۔ 

ان دوستوں میں سے ایک نام برادر نعیم نقوی کا بھی ہے۔ جو صرف کہنے میں ہمارے برادر ہیں لیکن بلامبالغہ علمی و عملی نیز اجتماعی، تنظیمی اور سیاسی تقویٰ کے اعتبار سے مجھ جیسے لوگ ان کی گردِ پا کو بھی نہیں پہنچتے۔ موصوف کو خداوند عالم نے جہاں اور بہت سارے اعزازات سے نوازا ہے، وہاں انہیں ایک اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ وہ "بعثت ٹرسٹ" رجوعہ سادات کے پہلے چئیرمین بھی منتخب ہوئے اور ابھی بھی جامعہ بعثت کے پلیٹ فارم سے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف عمل ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات چند سال پہلے نورالھدی اسلامک ریسرچ سنٹر "بارہ کہو" اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ قائد اعظم یونیورسٹی سے اینتھرو پالوجی میں ایم فل کر رہے تھے۔ آج کل حوزہ علمیہ قم میں درسِ خارج کے طالب علم ہیں۔

ہم جب بھی ان سے ملے، کبھی بھی جنریشن گیپ ہمارے درمیان حائل نہیں ہوا، آشنائی سے لے کر آج تک خدا کے فضل و کرم سے، اصلاح کے نام پر غیبت، مشورے کے نام پر تنقید، درس کے نام پر ڈانٹ ڈپٹ یا دوستی کے نام پر بداخلاقی و بدتمیزی جیسی کوئی شئے ہم نے ان میں نہیں پائی۔ گذشتہ دنوں بہت سالوں کے بعد ہم نے ان سے صرف ایک سوال پوچھنے کی خاطر خصوصی وقت مانگا۔ سوال صرف اور صرف یہ تھا کہ دہشت گردی چاہے اصلی مسئلہ ہو یا فرعی، بہرحال ایک مستقل مسئلہ ضرور ہے، آپ کے نزدیک اس کا حل کیا ہے؟ ہم یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہتے ہیں کہ ہماری کوشش ہے کہ یہ سوال ملت کے ہر دانشمند اور درد مند سے پوچھ کر اس کا جواب اربابِ حل و عقد تک پہنچایا جائے، لیکن اس دوران ہمیں بھیڑ چال کے شروع ہو جانے کا بھی شدید خطرہ ہے۔

انہوں نے ہمارا سوال سنا اور نپے تلے بیان کے ساتھ چار نکات میں اس کا حل بتا دیا۔ مقدمے میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے پہلے عوامی شعور کی سطح اتنی بلند کی جائے کہ لوگ اپنے معاشرے میں اسلامی تعلیمات و احکام کے اجرا کو ضروری سمجھیں۔ اس کے بعد انہوں نے مندرجہ ذیل نکات بیان کئے:
قصاص کا شعور بیدار کیا جائے
قصاص ایک قرآنی اصول ہے۔ قرآن کے مطابق "قصاص میں زندگی ہے۔" جب تک ہماری عدالتیں بےگناہوں کے قاتلوں سے قصاص نہیں لیتیں اور ہماری تنظیمیں اور عوام حکومتوں سے قصاص کا مطالبہ نہیں کرتے، اس وقت تک معصوم انسانون کی زندگیوں کو وحشیوں کی درندگی سے تحفظ فراہم نہیں کیا جاسکتا۔
 
شہید پرور معاشرے کی تشکیل
بہت سارے مقامات پر شہداء کے ورثا کو ایف آئی آر درج کرانے سے دھمکیوں کے ذریعے روکا جاتا ہے اور بہت سارے لوگ تھانے اور کچہریوں کے دھکوں سے ڈرتے ہوئے ایف آئی آر درج ہی نہیں کراتے۔ اسی طرح بہت سارے واقعات میں بےگناہ افراد کو بعض شرپسند عناصر کی سازشوں کے باعث خواہ مخواہ دہشت گردی کے مقدمات میں الجھایا جاتا ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا ان تنظیموں کی ذمہ داری ہے جو اپنے آپ کو ملّی تنظیمیں کہتی ہیں۔ یہ ملّی تنظیموں کی اوّلین ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہید کی ایف آئی آر درج کرائیں اور ہر بےگناہ اسیر کے مقدمے کی پیروی کریں۔ اسی طرح دینی مدارس کو چاہیے کہ وہ تحاریر و تقاریر نیز اجتماعات و محافل کے ذریعے ایک شہید پرور معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کریں۔ شہداء کے خاندانوں کی تعلیم و تربیّت نیز ان کے رفاہی امور کو اپنے ذمے بھی لیں اور عوام النّاس کو بھی اس ضمن میں ان کی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں۔

بڑھتے رہیں یونہی قدم
ہمیں چاہیے کہ کاموں کو الگ الگ انجام دینے کے بجائے ایک منصوبہ بندی کے ساتھ بتدریج انجام دیں۔ ہماری جہدِ مسلسل میں کسی بھی طور وقفہ نہیں آنا چاہیے۔ قرآنی تعلیمات کی روشنی میں "فاذا فرغت فانصب" جب ایک کام ختم ہوجائے تو اس کے بعد اس سے بھی ایک بڑے کام کا آغاز کریں۔ ہمیں چاہیے کہ شہداء کے جنازے پڑھانے، پریس کانفرنسوں اور بیانات کے بعد اپنے اپنے گھروں میں واپس جاکر اگلے دھماکے کا انتظار نہ کریں، بلکہ وہیں سے ایک شہید پرور تحریک کا آغاز کریں اور اس تحریک کو اس قدر سوجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھائیں کہ خود قاتل ذلیل و رسوا ہوکر اپنے اپنے بلوں میں گھسنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس مقصد کے لئے ہر لحظہ رہبرانِ خود بھی میدان میں رہیں اور ملت کو بھی میدان میں رکھیں۔

ظلم سے نفرت اور دشمن شناسی
عوام النّاس کے سامنے سرزمینِ پاکستان کی مظلومیت کو کھل کر اور بھرپور طریقے سے بیان کیا جائے۔ لوگوں کو شفاف انداز میں یہ بتایا جائے کہ پاکستان کی سرزمین پر یہود و ہنود اور آلِ سعود کے غلام بےگناہ انسانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ ان کے نزدیک نہ ہی تو انسانی جانوں کی کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی پاکستانی املاک کی۔ یہ جس طرح خودکش دھماکوں میں انسانوں کو خاک و خوں میں غلطاں کرتے ہیں، اسی طرح جلسے جلوسوں کے نام پر قومی و ملکی املاک کو بھی جلا کر خاکستر بنا دیتے ہیں۔ یہ کل بھی قیامِ پاکستان کے دشمن تھے اور آج بھی پاکستان توڑنے کی خاطر دوسرے ممالک کی گود میں بیٹھے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری طرف وہ لوگ جو دینِ اسلام اور پاکستان سے مخلص ہیں، وہ ہر خودکش دھماکے کے بعد سینکڑوں لاشیں اٹھاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود نہ کسی کے قتل کا فتویٰ دیتے ہیں اور نہ ہی اپنے جلوسوں کے دوران سرکاری و قومی املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اس کی واضح مثال شہداء کوئٹہ کے احتجاجی دھرنوں کی ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حقیقی مسلمان کون ہے، اسلام اور پاکستان کے ساتھ مخلص کون ہے اور غیروں کا ایجنٹ کون ہے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم حقائق لوگوں تک پہنچائیں، تاکہ لوگ اپنی صفوں میں گھسے ہوئے غیر ملکی ایجنٹوں کو پہچانیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ملت پاکستان کی مظلومیت کی ہر ممکنہ طریقے سے ترجمانی کریں۔ دشمنوں کی سازشوں اور پاکستانیوں کی مظلومیت، شہداء کے خاندانوں کی حالتِ زار نیز بیواوں کے بین ملت کے ہر فرد تک پہنچائیں، تاکہ ہر پاکستانی ظلم سے نفرت کرے اور اپنے حقیقی دشمنوں کو پہچانے۔

ان چار نکات کے ہمراہ ہمیں سوال کا جواب تو مل چکا تھا لیکن ایک اور اہم سوال ہمارے ذہن کی سطح پر ابھرا۔ ہم نے فوراً پوچھا کہ اس وقت ہمیں سب سے پہلا قدم کیا اٹھانا چاہیے؟ انہوں نے جو جواب دیا اس کا اگر ایک جملے میں خلاصہ کیا جائے تو وہ یہ بنتا ہے کہ اس وقت ہمیں "بھیڑ چال" سے بچنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اجتماعات کے انعقاد، پریس کانفرنسوں کی بھرمار، بیانات کی بوچھاڑ اور تصاویر و پوسٹرز کی چکر میں پھنس جائیں اور ایسے میں خدانخواستہ ہمارا ہدف موت کا شکار ہو جائے۔ 
قارئین گرامی! میرے خیال میں انہوں نے بالکل درست فرمایا ہے کہ ہمیں بھیڑ چال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ بھیڑچال میں ہدف یا تو قتل ہو جاتا ہے اور یا پھر کھو جاتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔؟ تبصرہ ضرور کریں۔۔۔
خبر کا کوڈ : 243335
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
ماشاءاللہ نذر حافی صاحب، ہماری طرف سے بھی اس ایک جملے کا اضافہ کر لیجئے۔ قیادتوں کے جنوں میں جن کےقدم لہو سے رنگے ہوئے ہیں یہ میرے بس میں نہیں ہے لوگو کہ انہیں عزّت ماب کہوں۔ کامران نقوی راولپنڈی
بہت اچھی رائے ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افسوس کہ اس پر عمل نہیں ھونا
مثل ھمیشہ
بالکل ٹھیک فرمایا کہ بھیڑچال سے بچنا چاہیئے لیکن متاسفانہ علماء کا طبقہ سب سے زیادہ اسی بھیڑچال میں نظر آتا ہے۔
United States
آپ کا آرٹیکل بہت پسند آیا۔ واقعاً ہمیں ہر لحظہ ھدف سامنے رکھنا چاہیے، اور بھیڑ چال سے بچیں ۔ بہت عمدہ بات ہے۔
سلام، نہایت ہی فکر انگیز تحریر ہے، آپ نے لکھا کہ اس وقت ہمیں "بھیڑ چال" سے بچنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اجتماعات کے انعقاد، پریس کانفرنسوں کی بھرمار، بیانات کی بوچھاڑ اور تصاویر و پوسٹرز کی چکر میں پھنس جائیں اور ایسے میں خدانخواستہ ہمارا ہدف موت کا شکار ہو جائے۔

دراصل ہماری ملت مظلوم اسی بھیڑچال کا شکار ہے۔ جسے ترک کرنا ہوگا۔

تشکر
متاسفانہ اب تو مضمون نویسی بهی بھیڑ چال بن گئی ہے، جس کی وجہ سے اچهی رائے دب جاتی ہے، یعنی ہدف یا تو قتل ہو جاتا ہے اور یا پھر کھو جاتا ہے۔
بالکل ٹھیک فرمایا کہ بھیڑ چال سے بچنا چاہیئے لیکن متاسفانہ علماء کا طبقہ سب سے زیادہ اسی بھیڑ چال میں نظر آتا ہے۔
No words to appreciate you on such a nice Column, You are proving yourself to be a neutral and so bold scholar.Allah bless on u
بالکل ٹھیک فرمایا بھیڑ چال سے بچنا چاہیئے لیکن افسوس کہ اس پر عمل نہیں ھوگا، اب تو کالم نویسی بهی بھیڑ چال بن گئی ہے، جس کی وجہ سے اچهی رائے دب جاتی ہے، آپ کا آرٹیکل بہت پسند آیا۔
بھیڑ چال سے نجات اور قصاص کا شعور بیدار کیا جائے...یه بهی کافی ہے اگر ہو جائے تو
Iran, Islamic Republic of
اس سے پہلے کہ کالموں کی بھیڑ چال شروع ہو جائے اور یہ قیمتی تجاویز دب جائیں، ان تجاویز پر عمل کروانے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو عوام کا قائد کہنے والے حضرات سے اس بارے میں پوچھا جائے کہ وہ ہر روز اپنے ملی میڈیا کا کس قدر مطالعہ کرتے ہیں اور اپنی ملت کے میڈیا کی طرف سے دی جانے والی آراء کا کس قدر احترام کرتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں نعیم نقوی صاحب کی تجاویز کو اتنے اچھے انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ اس کے بعد ہمارے قائدین پر حجت تمام ہوگئی ہے۔
اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے قائدین سے اس بارے میں پوچھیں کہ انہوں نے نقوی صاحب کی ان تجاویز کا مطالعہ کرنے کی زحمت کی ہے یا نہیں اور اس بارے میں عملی طور پر کیا قدم اٹھایا ہے۔ صفدر علی نقوی چنیوٹ
Europe
برادر کہا جاتا ہے کہ پہلے عمل پھر نصیحت، ہم بھی آپ کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، کیا آپ بھیڑ چال سے بچتے یا دوسروں کو بچاتے ہیں یا بس اچھی اچھی باتیں کرکے لوگوں کا دل لبھاتے ہیں؟
حجۃ الاسلام والمسلمین نعیم نقوی صاحب بہت بڑی قابل استفادہ شخصیت ہیں۔ ان کی تجاویز سچ مچ آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ عملی میدان میں گزارا ہے۔ ان کے خلوص کی قدر نہ کرنا یقیناً ناشکری ہے۔
ان کی فکر سے اس سے بھی کہیں زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
1۔ قصاص کا شعور بیدار کیا جائے اس سے کون عاقل انکار کرسکتا ہے،
2۔ شہید پرور معاشرے کی تشکیل اس سے بڑھ کر مفید تجویز کیا ہوسکتی ہے۔
3۔ بڑھتے رہیں یونہی قدم، الہی کاموں کا تسلسل اس سے زیادہ توجہ دلانے والی اور کونسی چیز ہے
4۔ ظلم سے نفرت اور دشمن شناسی یہ ہر دور میں وقت کی ضرورت ہے
اور خلاصہ یہ کہ بھیڑ چال سے نجات، یہ ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی ا فت ہے۔
ملت اور قائدین سب کو ان کی تجاویز سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ خدا انہیں حاسدوں اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
اس وقت بھیڑ چال کا دور دورہ ہے، انہوں نے بروقت اس مسئلے کو اٹھایا ہے
ہماری پیشکش