1
0
Sunday 10 Mar 2013 23:39

خارجیت کا تاریخی سفر(2)

خارجیت کا تاریخی سفر(2)
تحریر: سید اسد عباس تقوی

گذشتہ تحریر میں خوارج کے حوالے سے رسالت مآب (ص) کے فرامین اور اس گروہ کے اعمال کا احاطہ کیا گیا۔ ہم نے جانا کہ خوارج کی ایک اہم نشانی ان کا اپنے علاوہ دیگر اہل اسلام کو کافر قرار دینا اور اسی ادعا کی بناء پر نہتے انسانوں کا قتل ہے۔ خوارج تمیز نہیں کرتے تھے کہ ان کا مقتول بوڑھا ہے یا جوان، عورت ہے یا مرد، حتی کہ انہوں نے رحم مادر میں موجود بچوں کے قتل سے بھی گریز نہ کیا۔ افسوسناک امر یہ تھا کہ وہ، یہ سب کچھ دین کے نام پر انجام دیتے تھے۔ یہودی کے باغ سے بغیر اجازت کھجور کھانے اور اس غلطی کا اندازہ ہونے پر تھو تھو کرنے والے یہ ظاہری دین دار اور شوریدہ سر لوگ اس نوبت تک پہنچ گئے کہ راستے میں کھڑے ہر شخص سے تحکیم کے بارے میں سوال کرتے، اگر وہ شخص تحکیم سے اظہار بیزاری نہ کرتا تو اسے قتل کر دیتے۔ خوارج کے بارے جناب امیر کے برتاؤ کے ضمن میں ہم نے دیکھا کہ حضرت علی علیہ السلام نے اس گروہ کے لیے واپسی کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے۔ متعدد نمائندے بھیج کر اس گروہ کو حقائق باور کرانے کی کوشش کی۔ ان کی شدت پسندانہ حرکات اور روش کو پس انداز کیا جاتا رہا۔ 

جناب امیر علیہ السلام نے ایک مرتبہ اس گروہ کو مخاطب کرکے کہا کہ : "اگر تم اس خیال سے باز آنے والے نہیں ہو کہ میں نے غلطی کی اور گمراہ ہو گیا ہوں تو میری گمراہی کی وجہ سے امت محمد (ص) کے عام افراد کو کیوں گمراہ سمجھتے ہو اور میری غلطی کی پاداش انہیں کیوں دیتے ہو، میرے گناہوں کے سبب انہیں کافر کیوں کہتے ہو۔ تلواریں کندھوں پر اٹھائے ہر موقع و بے موقع جگہ پر وار کیے جا رہے ہو اور بے خطاؤں کو خطاکاروں کے ساتھ ملا دیتے ہو، حالانکہ تم جانتے ہو کہ رسول اللہ (ص) نے جب زانی کو سنگسار کیا تو اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی اور اس کے وارثوں کو ورثہ بھی دیا۔۔۔۔۔۔اس طرح رسول اللہ (ص) نے ان کے گناہوں کی سزا ان کو دی اور جو ان کے بارے میں اللہ کا حق تھا اسے جاری کیا مگر انہیں اسلام کے حق سے محروم نہیں کیا اور نہ اہل اسلام سے ان کے نام خارج کیے۔

لا حکم الا للہ، جس کا معنی خوارج یہ لیتے تھے کہ اللہ کے سوا کسی کو حق حکومت نہیں ہے، کی وضاحت کرتے ہوئے جناب امیر علیہ السلام نے فرمایا:
جملہ تو درست ہے مگر جو مطلب اخذ کیا جاتا ہے وہ غلط ہے۔ ہاں بے شک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے۔ مگر یہ لوگ تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت بھی اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی حالانکہ لوگوں کے لیے ایک حاکم ہونا ضروری ہے، خواہ وہ اچھا ہو یا برا ( اگر اچھا ہوگا تو )مومن اس حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا اور اگر ( برا ہو تو) کافر اس کے عہد میں لذتوں سے بہرہ ور ہو گا۔
جناب امیر علیہ السلام نے اسی خطبے میں حاکم اور حکومت کے فوائد نیز ذمہ داریوں کو بھی بیان فرمایا:
اس حاکم کی وجہ سے خراج اور مال و غنیمت جمع ہوتا ہے، دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نیک حاکم مرکر یا معزول ہو کر راحت پائے اور برے حاکم کے مرنے یا معزول ہونے سے دوسروں کو راحت پہنچے۔2 

عبداللہ ابن عباس، قیس بن سعد بن عبادہ اور ابو ایوب انصاری رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اس گروہ کے سربراہان سے ملاقاتیں نیز گفتگو جناب امیر علیہ السلام کی مصالحانہ کوششوں کا حصہ تھیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ، ان کی حاملہ زوجہ اور رحم مادر میں موجود بچے نیز سفیر امام علی علیہ السلام حارث بن مرہ العبدی کو قتل کر دیا۔ جب خوارج جرم کی تمام حدیں پار کر گئے، مصالحت کی ساری راہیں بند کر دیں اور عناد و تکبر سے حق کی طرف لوٹنے سے انکار کر دیا تو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اپنی فوج کو تیار کیا اور نہروان کے مقام پر خوارج کے مدمقابل آ گئے۔ میدان جنگ میں بھی جناب امیر (ع) نے واپسی کی راہ کو مسدود نہ کیا بلکہ ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو امان کا پرچم اٹھانے کا حکم دیا اور یہ اعلان کرنیکا حکم دیا کہ جو اس جھنڈے تلے آ جائے وہ امن یافتہ ہے ،علاوہ ازیں جو کوفہ اور مدائن چلا جائے وہ بھی مامون ہے۔ جنگ کا تفصیلی احوال تاریخ کی کتابوں میں رقم ہے۔ اس جنگ کے نتیجے میں خوارج کی ایک کثیر تعداد قتل ہوئی، باقی بچ جانے والے جو انگلیوں پر شمار کیے جا سکتے ہیں روپوش ہو گئے۔ 

کیا خارجیت ختم ہو گئی؟ 
جنگ نہروان میں خوارج کے قتل کے بعد امیر المومنین علیہ السلام سے کسی نے سوال کیا کہ کیا یہ گروہ ختم ہو گیا تو آپ نے جواب دیا کہ: "ہر گز نہیں ابھی تو وہ مردوں کے صلبوں اور عورتوں کے شکموں میں موجود ہیں"۔3 سوال یہ ہے کہ خوارج کی تاریخ کو آج بیان کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس گروہ کے نظریات اور افکار کو پرکھنے سے کیا حاصل ہو گا؟ خوارج کا کیا انجام ہوا یا ان سے امیرالمومنین (ع) نے کیا برتاؤ کیا کو جاننے سے آج ہمارے معاشرے میں کیا بہتری لائی جا سکتی ہے؟ استاد مرتضی مطہری اس مشکل کو حل کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: "خوارج کی ماہیت کے بارے میں گفتگو ہمارے معاشرے کے لیے سبق آموز ہے کیونکہ خوارج اگرچہ ختم ہو گئے لیکن خارجی فکر آج بھی موجود ہے اور ہمارے معاشرے میں حلول کیے ہوئے ہے"۔4 

اسلامی نظریاتی کونسل کے زیراہتمام شائع ہونے والی تحقیقی کتاب’’اسلام و انتہا پسندی‘‘ کے مدون ثاقب اکبر خوارج کے موضوع پر لکھے جانے والے اپنے تحقیقی مقالے میں بھی اسی نظریئے کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"اپنے علاوہ کرہ ارض کے تمام انسانوں کو کافر جاننا، پھر ہر کافر کو گردن زدنی قرار دینا، اپنے نظریات کی مخالف ہر حکومت کے خلاف خروج کرنا، اسے نقصان پہنچانے اور کمزور کرنے کے درپے رہنا ، ہر گناہ کبیرہ کو کفر جاننا اور گناہ کبیرہ کے مرتکب فرد کی جان و مال کو اپنے اوپر حلال قرار دینا خارجی فکر کی بنیادی علامتیں ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر دور میں ایسے تشدد پسند عناصر کو ان کی علامتوں سے پہچانا جائے ۔۔۔ان کا المیہ یہ ہے کہ انہوں نے خلوص سے اسلام کو نقصان پہنچایا"۔5 

خارجیت کی علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر ہم عالم اسلام نیز پاکستانی معاشرے کی جانب نظر دوڑائیں تو ہمیں اس فکر کے مظاہر جا بجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کفر کے فتوے، ان فتووں کو بنیاد بنا کر اندھا دھند قتال، درباروں، مساجد، امام بارگاہوں، بازاروں اور آبادیوں پر بمباری، خودکش دھماکے، اندھے قتل، عیسائی آبادیوں پر دھاوے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانا خارجیت کی جدید ترین شکل ہیں، جن سے آج امت مسلمہ بالعموم اور پاکستانی عوام بالخصوص نبرد آزما ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خارجیت اسلام سے ہی مخصوص نہیں یہ علامات جہاں کہیں بھی ظہور کریں خارجیت ہی کہلائیں گی۔ اراکان میں مسلمانوں کا قتل عام، گجرات میں مسلم آبادیوں پر ہندو بلوائیوں کے دھاوے، بابری مسجد کا انہدام، بوسنیا کے مسلمانوں کا قتال، سکھوں کا قتل عام اور اسی قسم کے دیگر واقعات جہاں شدت پسندی کا عنصر اس حد تک غالب ہو کہ قصور وار اور بےقصور میں تمیز ختم ہو جائے سبھی خارجیت ہے۔ 

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آج کی خارجیت نہروان کی خارجیت کے مقابلے میں سنگین تر ہے۔ آج کی خارجیت وسائل حرب و ضرب میں نہروان کے خارجیوں کی نسبت بہت ترقی یافتہ ہے، یہ خارجیت میڈیا کو استعمال کرتی ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اسے اسلام دشمن قوتوں کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس فکر کا مقابلہ امیر المومنین علی علیہ السلام کی قبل ازیں بیان کردہ منہج اختیار کیے بغیر ممکن نہیں۔ خود امیر المومنین علیہ السلام نے اس منہج پر افتخار کرتے ہوئے فرمایا: "اے لوگو! میں نے فتنے کی آنکھ پھوڑ دی جب اس کی تاریکیاں تہہ و بالا ہو رہی تھیں اور باؤلے کتوں کی مانند اس کی دیوانگی زوروں پر۔ میرے سوا کسی میں یہ جرات نہ تھی جو اس کی طرف بڑھتا"۔6 خداوند کریم عالم اسلام کی حکومتوں کو بالعموم اور حکومت پاکستان کو بالخصوص منہج امیر المومنین علی علیہ السلام اختیار کرنے کی توفیق اور حوصلہ عطا فرمائے تاکہ انسانی معاشرہ اس فتنہ سے محفوظ ہو سکے۔
 
حوالہ جات
1۔ نہج البلاغہ، سید رضی، خطبہ نمبر123
2۔ نہج البلاغہ ، سید رضی، خطبہ نمبر40
3۔ نہج البلاغہ، سید رضی، خطبہ نمبر 59
4۔ جاذبہ و دافعہ علی ، مرتضی مطہری باب 9ص128-130
5۔ اسلام اور انتہا پسندی، خوارج صدر اسلام میں انتہا پسندی کا ایک نمونہ ، باب 5ص95
6۔ نہج البلاغہ، سید رضی، خطبہ نمبر91
خبر کا کوڈ : 245614
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Very well an excellent piece of information.
ہماری پیشکش