0
Friday 5 Apr 2013 12:44

عالمِ اسلام کی حساس صورتِحال اور عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں (2)

عالمِ اسلام کی حساس صورتِحال اور عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں (2)
تحریر: سید راشد احد

یمن میں علی عبداللہ صالح کے جانے کے بعد امریکہ اور مغرب وہاں کچھ نئے انداز سے سازشوں کا جال بُن رہے ہیں اور یمنی عوام کو اپنے انقلابی مطالبات سے منحرف کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ امریکی پالیسی سے ہم آہنگ ہوتے ہوئے سعودی عرب یمن میں انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے اور وہاں سلفی گروہوں کے قوی نفوذ کو ممکن بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کیونکہ سعودیوں کو یہ خوف لاحق ہے کہ یمن کی لبرل شیعہ تحریک بحرین کی انقلابی تحریک کے ساتھ سعودی عرب کے استحکام کے لئے زبردست خطرہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ یمن کے کٹھ پتلی صدر منصور ہادی نے اقوامِ متحدہ کے زیرِ نگرانی قومی مصالحت پر مبنی مذاکرات کا حال ہی میں آغاز کیا ہے جس کا بظاہر مقصد یہ ہے کہ انتخابات کے لئے راہ ہموارکی جائے اور طویل بحران کے خاتمے کے لئے نیا آئین وضع کیا جائے۔

یہ مذاکرہ دارالحکومت صنعاء میں صدارتی محل میں انجام پایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں یمن کی سیاسی پارٹیوں کے پانچ سو ساٹھ مندوبین شامل ہوئے۔ بہرحال اس مذاکرہ کا جنوبی یمن کے نوجوانوں کی تحریک اور زیدی شیعہ گروہ حوثیوں نے بائیکاٹ کیا۔ یہ دراصل علی عبداللہ صالح کے حامیوں اور مخالفوں کے مابین تفاہم پیدا کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اس قومی مذاکرے کو سعودی عرب کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سعودی عرب یمن میں اخوان سے تعلق رکھنے والے وہابی انتہا پسندوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کررہا ہے اور حوثیوں نیز دیگر متعدل گروہوں جو سعودیوں کے حامی نہیں کو کمزور کرنے کے لئے اپنے سازشی منصوبوں سے کام لے رہا ہے۔ سعودی عرب کی خطے میں جاری سازشیں ایسی حالت میں ہیں کہ خود سعودی شاہی حکومت بری طرح مائل بہ زوال ہے۔

سعودی شاہی حکومت قرونِ وسطیٰ کے تاریک دور کی حکومت دکھائی دیتی ہے۔ اس ملک میں ہر طرح کی خرابی موجود ہے۔ جہالت، پسماندگی اور بدعنوانی اس ملک میں تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ مشرقی شیعہ علاقوں میں آلِ سعود کے خلاف تحریک زور و شور سے اور مسلسل جاری ہے۔ ان علاقوں میں کارکنوں کی رہائی اور آیت اللہ باقر نمر و دیگر علماء و رہنماؤں کی رہائی کے لئے عوام کے مطالبات میں شدت آتی جارہی ہے۔ احتجاجی تحریکوں کا دائرہ ریاض تک پھیل گیا ہے۔ سعودی جیلوں میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد قید ہے۔ اگر سعودی حکومت قیدیوں کو رہا بھی کردیتی ہے پھر بھی عوام اپنی تحریک سے دست بردار نہیں ہوں گے اس لئے کہ صورتحال اس کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جو بظاہر لوگوں کو نظر آتی ہے۔ وہاں آگ خاک تلے دبی ہوئی ہے اور یہ اس وقت بری طرح بھڑک اٹھے گی جب حالات اپنے اندر سے ایندھن اگلنے لگیں گے۔ البتہ عوام کے لئے حالات بہت حوصلہ افزا ہیں۔ یہ وقت تمام طبقات اور گروہوں سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ دین کے زیرِ سایہ ایسی سیاسی تحریک اٹھائیں جو مغرب اور اسرائیل کی غلام جابر اور بدعنوان شاہی حکومت کے خاتمے پر منتج ہو۔

سعودی عرب کی پالیسی ہی کے نتیجے میں اس وقت پاکستان قتل و غارت گری اور ہر نوع کی دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ پاکستان جیسے منظم فوجی و ایٹمی قوت کے حامل ملک کو سعودی نفوذ کے نتیجے میں شدید اقتصادی، سیاسی نیز امن و امان کے مسائل کا سامنا ہے۔ سعودیوں سے حددرجہ قربت نے اس ملک کو داخلی انتشار سے دوچار کردیا ہے اور یہ ملک سیاسی تنہائی کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ عوام اور سیاستدانوں کو یہ بات سمجھ میں آرہی ہے کہ سعودی عرب کی قربت نے اسے جس مشکل میں مبتلا کردیا ہے اس سے نجات پائے بغیر عوام چین و سکون سے ہرگز ہمکنار نہیں ہوسکتے۔ اس بات کا اعتراف میڈیا میں کھلے عام کئے جانے لگا ہے جو کہ انتہائی خوش آئند پیش رفت ہے۔ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کا عوامی، سیاسی، فوجی نیز صحافتی حلقوں میں بڑا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا ہے۔

پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے اور یہ ایران جیسے اپنے مخلص دوست سے ہمکاری کرکے اپنی معاشرت، اپنی سیاست، اپنی ثقافت اور اپنی اقتصاد کو حقیقی اسلامی خطوط پر استوار کرسکتا ہے اور اس طرح وہ ایک منصفانہ سیاسی نظام کے ذریعے جہاں اپنے عوام کو امن و خوشحالی سے ہمکنار کرسکتا ہے وہیں اپنی سیاسی و فوجی توانائی کو نقطۂ عروج عطا کرتے ہوئے اپنے عوام کو دنیا میں وقار و سربلندی سے سرفراز کرسکتا ہے۔ پاکستان اس وقت توانائی کے شدید بحران سے دوچار ہے جب کہ اس کے پاس جوہری قوت موجود ہے۔ ایران کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایران نے اپنے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے نتیجے میں پانچ سو سے زائد اہم شعبوں میں نت نئی ترقیوں کے مواقع حاصل کئے ہیں۔ دنیا کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ ایران نے اسٹیم سیل، نانوٹیکنالوجی، اسپیس ٹیکنالوجی نیز میڈیکل کے شعبوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ چنانچہ پاکستان ایران کا ہمسایہ ملک ہونے کے ناطے بہت جلد ایک پرامن اور ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

شام مغربی قوتوں کے لئے ایک زبردست خطرہ ہونے کی بنا پر ان کی دشمنانہ سرگرمیوں کا محور قرار پایا ہے۔ اس لئے کہ شام ایران کا ایک اسٹراٹیجک حلیف ہے۔ شام کے پڑوس میں واقع عراق بھی ایران کا اب دوست بن چکا ہے۔ شام سے متصل لبنان میں حزب اللہ جیسی مزاحمتی تنظیم بھی ایران کی انقلابی اسلامی فکر سے غذا اور قوت حاصل کرتی ہے حتیٰ کہ فلسطین کی مزاحمت کو بھی ایران، شام اور حزب اللہ کے تعاون کے سبب توانائی ملی ہے جس کی تازہ مثال غزہ پر حالیہ اسرائیلی جارحیت ہے کہ جو اسرائیل کو انتہائی مہنگی پڑی اور بہت جلد اسرائیل پسپا ہوکر جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا۔ شام میں بشارالاسد حکومت کے خاتمے کے لئے مغرب اس لئے بضد ہے کہ بشارالاسد نے اسرائیل کے تحفظ کے لئے مغرب کے ساتھ ہمکاری کرنے کی ہر ایک پیشکش کو سختی سے مسترد کردیا۔ پھر یہ کہ شام مسلسل حزب اللہ اور حماس جیسی مزاحمتی تحریکوں کی حمایت میں سرگرم اور پیش پیش رہا ہے جس کے سبب مغرب اور اسرائیل شام کے خلاف جوشِ انتقام میں جل رہے ہیں۔

مغرب کے لئے آخری چارۂ کار شام کی سپلائی لائن کو ختم کرنا ہے جو حزب اللہ اور فلسطینی مزاحمتی تحریک کی قوت کا سبب ہے۔ شام میں مغرب مخالف حکومت کے خاتمے سے خطے میں امریکہ نواز نام نہاد مسلم حکمرانوں کے بھی حوصلے بلند ہوں گے کہ جن پر اسلامی بیداری کی تحریکوں کے سبب ایک طرح کا شدید لرزہ طاری ہے۔ ایران کی فوجی قوت کے پیشِ نظر مغربی قوتیں براہِ راست اس سے فوجی تصادم نہیں چاہتی ہیں۔ علاوہ ازیں ایران دنیا میں اس وقت اپنی دانشمندانہ پالیسی کے سبب بہت ہی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ایران نے اس وقت دنیا میں انسانوں کی مشکلات کے حقیقی ذمہ داروں کو بے نقاب کردیا ہے۔ عالمی برادری ایران کی پالیسی کو عالمی مشکلات کے حل کے لئے سنجیدگی کی نظر سے دیکھنے لگی ہے۔ ایران نے یہ بات بھی دنیا کو باور کرادی ہے کہ فوجی اور اقتصادی قوت کی پشت پر اگر الٰہی فکر نہ ہو تو یہ قوتیں دنیا میں ظلم و فساد بپا کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ لہٰذا دنیا مغرب کی استعماری ریشہ دوانیوں کو اب اس تناظر میں دیکھنے لگی ہے۔ ایران نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ اپنی زبردست فوجی قوت کے باوجود خطے کے قدرتی ذخائر سے سبھوں کو استفادہ کا وہ موقع فراہم کرتا ہے۔

مغرب نے جس طریقے سے ایران پر عرصۂ دراز سے اقتصادی پابندیاں لگا رکھی ہیں تو ایسی صورتحال میں ایران خلیجِ فارس پر اپنی مکمل فوجی دسترس رکھنے کی بنا پر تیل کے نقل و حمل کو روک سکتا تھا لیکن اس نے اپنی تمام تر مشکلات کے باوجود یہ اقدام نہیں اٹھایا تاکہ دنیا کسی عالمی بحران کے رونما ہونے سے پہلے مغرب کی استعماری قوتوں کو اپنی اوقات میں رہنے کا مشورہ دے۔ گویا دنیا میں اس وقت ایران اور ایران دشمن قوتوں کے مابین جو کشمکش ہے وہ درحقیقت معنویت و مادیت کے مابین کشمکش ہے۔ مسلمان عوام کو اس حساس موقع پر انتہائی ہوشیاری کا ثبوت دینا چاہیے اور مغرب نواز عرب شاہی منافق آمریتوں کے ورغلانے میں ہرگز نہیں آنا چاہیے۔ حق و باطل کے اسناد (Credentials) کو پرکھنے کے لئے رہبرِ معظم آیت اللہ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کے دئیے ہوئے پیمانے سے استفادہ کرنا چاہیے کہ اگر کوئی تحریک یا جریان یا پالیسی صہیونی اسرائیل اور اس کے پشت پناہوں کے حق میں منتج ہوتی ہے تو لازماً وہ مسلمانوں اور اسلام کے لئے زہر ہے نہ کہ تریاق۔ یہی چیز کسی ملک اور اس کے حکمران پربھی صادق آتی ہے۔

الٰہی بصیرت پر مبنی اس پیمانے سے جن لوگوں نے استفادہ کیا انھوں نے ترکی کی اسرائیل دشمنی کے کھوکھلے دعوؤں کی حقیقت کو کماحقہ بھانپ لیا تھا اور سمجھ لیا تھا کہ فلوٹیلا پر اسرائیل کا حملہ محض ایک ڈرامہ ہے جس کا مقصد ترکی کو مسلمانوں کے درمیان اسرائیل دشمن ظاہر کرکے اسے مسلم دنیا کا لیڈر بنانا ہے تاکہ مسلمانوں کی امیدیں ایران سے ہٹ کر ترکی سے وابستہ ہوجائیں اور یوں مغربی قوتیں ترکی کو اسرائیل کے دفاع و تحفظ کے لئے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرسکیں۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ ترکی نے شام کے بشارالاسد حکومت کو گرانے کے لئے مغربی اور عرب قوتوں سے مل کر جو کردار ادا کیا اُس نے اس کی اسرائیل دشمنی کے لبادے کو چاک کرکے رکھ دیا اور اب ترکی کی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد تو ترکی کی منافقت ہر ایک پر اچھی طرح واضح ہوچکی ہے۔ مغرب اپنی نابودی کے قریب پہنچ چکا ہے اور اسلامی بیداری مسلمانوں کو کامیابی کی نوید دے رہی ہے۔ اس چیز کو علامہ اقبالؒ نے اپنی الٰہی فکر کے نتیجے میں بہت پہلے درک کرلیا تھا یہاں آپ کے صرف دو اشعار کا ذکر مسلمانوں کی موجودہ امید افزا صورتحال کو اجاگر کرنے کے لئے کافی ہوگا:

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جینوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

دنیا کی دگرگوں صورتحال سے یہ حقیقت روشن تر ہوتی جارہی ہے کہ امام خمینیؒ کا انقلاب جلد ہی امام زمانہؑ کے جہانی انقلاب سے متصل ہوجائے گا، انشاء اللہ۔
خبر کا کوڈ : 251690
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش