1
0
Monday 1 Apr 2013 16:48

عالمِ اسلام کی حساس صورتِحال اور عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں (1)

عالمِ اسلام کی حساس صورتِحال اور عالمی استکبار کی ریشہ دوانیاں (1)
تحریر: سید راشد احد

عالمی استکبار (World Arrogance) کا دنیا پر اپنے تسلط کی بقاء کے حوالے سے روز بروز اعتماد کم ہوتا جارہا ہے۔ عالمی استکبار سے مراد امریکہ کے زیرِ قیادت دنیا پر حاکم مغربی قوتیں اور مشرقِ وسطیٰ میں ان کا اسٹرٹیجک حلیف صہیونی اسرائیل ہے۔ اس وقت عالمِ اسلام میں مغربی استعمار کا جو غیر معمولی جارحانہ نفوذ ہے وہ اس کے اعتماد کے متزلزل ہونے کے سبب ہی ہے۔ سولہویں صدی میں مغربی تہذیب نشاۃ ثانیہ کے ساتھ دنیا کے نقشے پر بھرپور آب و تاب کے ساتھ ابھری اور اپنی محیرالعقول سائنسی ایجادات کے سبب آناً فاناً چھا گئی۔ لہٰذا مغرب کے غیر معمولی اعتماد اور قوت کی جو تاریخ ہے وہ تقریباً پانچ سو سال پرانی ہے۔ مغربی استعمار کا ظہور برطانیہ کی قیادت میں شروع ہوا تھا اور اس کا عروج امریکہ کی قیادت میں منتہی ہوا چاہتا ہے۔ اس پانچ سو سالہ دور میں دنیا کے دیگر علاقوں اور بالخصوص عالمِ اسلام میں بہت سارے گروہوں اور تحریکوں نے مغربی استعمار کو چیلنج پیش کرنے کی کوشش کی لیکن مغرب نے اپنی حکمتِ عملی سے انھیں ایسی شکست دی کہ یا تو وہ نابود ہوگئیں یا اگر باقی بھی رہیں تو ان میں جان باقی نہیں رہی بلکہ بہتیری تحریکیں شکست خوردگی کے شدید احساس کے زیرِ اثر آکر خود مغربی استعمار کو تقویت پہنچانے کا دانستہ و نادانستہ آلۂ کار بن گئیں۔

مغربی استعمار کو استکبار سے تعبیر دینے کی چند وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اس نے خدا کے مقابلے میں آکر تمام آسمانی قدروں کو پامال کرنے کی کوشش کی اور مادی قدروں کی انسانی معاشروں پر حاکمیت کو یقینی بنایا۔ اگرچہ مغربی استعمار سے پہلے یہ کام دنیا میں دوسرے خدا دشمن گروہ بھی کرتے رہے ہیں لیکن مغرب نے یہ کام بالکل مختلف انداز سے کیا۔ دنیا میں پہلے بھی دھڑلے سے برائیاں ہوتی تھیں لیکن برائیوں کو بہرحال برائیاں ہی سمجھا جاتا تھا۔ مغرب نے ایسے فلسفے کو فروغ دیا جو اچھائی اور برائی، حق و باطل کے حوالے سے رائج پیمانے کو درہم برہم کرکے رکھ دیا بلکہ بالکل الٹ کر رکھ دیا۔ بقول شاعر!

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

چنانچہ پہلے برے کام کرکے لوگوں کو پشیمانی اور ندامت کا احساس ہوتا تھا لیکن مغرب نے جو فلسفہ دیا اس کی روشنی میں بدی ہی نیکی قرار پائی اور ڈھٹائی اور افتخار سے لوگ اپنے اعمالِ بد پر نازاں رہنے لگے: بقول شاعر:
آج کے دور میں تہذیب اپنے حسُن پر ہے نازاں ایسے
اپنے پیروں کی خرابی کا نہ کرکے خیال
بیخودی میں کوئی طاؤس ہو رقصاں جیسے

مغرب کی اس روش کے نتیجے میں عجیب و غریب تحول دیکھنے میں آیا۔ مثلاً خاندانی نظام تباہی سے دوچار ہوا اور مادر پدر آزاد معاشرے کی حوصلہ افزائی ہوئی اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسانوں کے مابین ہم جنسیت پر مبنی ازدواجی بندھن کو مغرب کے حکومتی ایوانوں میں علی الاعلان قانون کے ذریعے مشروعیت (Legitimacy) فراہم کی جارہی ہے۔ مغرب کا یہ طرزِ عمل دراصل الٰہی قدروں سے جنگ کا آئینہ دار ہے اور مغرب کی یہ روش اس وقت سے ہے جب سے یہ تسخیرِ قوانینِ کائنات کے دعوے کے ساتھ منصہ شہود پر ابھرا۔ چنانچہ الٰہی قدروں سے دشمنی ہی کے نتیجے میں اس نے مذاہبِ آسمانی کی تحقیر کی، کمزور لوگوں یعنی مستضعفین پر ظلم کیا اور اپنے پست مادی مفادات کے لئے ان کا مسلسل استحصال کیا۔ اس کی اس ظالمانہ روش کو چیلنج کرنے کے لئے جو تحریکیں اٹھیں ان کے انجام کا ذکر اوپر ہوچکا ہے۔

پانچ سو سالہ اپنی طویل تاریخ میں مغرب نے اپنی انسانیت دشمن روش کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ مغرب کی اسی خدا دشمن اور انسان دشمن روش کو استکبار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ دنیا نے 1979ء میں ملکِ ایران میں امام خمینیؒ کی الٰہی قیادت میں ایک غیر معمولی انقلاب کا مشاہدہ کیا۔ اس انقلاب کی سب سے منفرد خصوصیت یہ تھی کہ یہ انقلاب دنیا پر مادی قدروں کی حاکمیت کو ختم کرکے الٰہی قدروں کی حاکمیت کو قائم کرنے پر مصر تھا اور اس معاملے میں مغرب کی ایک بھی سننے کا روادار نہیں تھا۔ اسلامی ایران کا آج بھی یہی موقف ہے جو مغربی استعمار کے لئے زبردست پریشانی کا باعث ہے۔

امریکہ کے زیرِ قیادت مغرب نے بہت کوشش کی کہ اس انقلاب کو ابتدا ہی میں اپنے سانچے میں ڈھال لے لیکن اسے اپنے اس ہدف میں بری طرح ناکامی ہوئی۔ مغرب نے اس انقلاب کو مٹانے کے لئے سفارتی حربو ں سے کام لیا، سازشوں کا سہارا لیا، وحشیانہ دہشت گردی کو وسیلہ بنایا یہاں تک کہ ننگی فوجی جارحیت سے بھی گریز نہیں کیا۔ امام خمینی ؒ اور ان کی انقلابی تحریک نے خدا پر توکل اور اپنی مزاحمت و استقامت کی روش کے نتیجے میں ہر مشکل مرحلے کو کامیابی سے عبور کیا۔ امام ؒ اور ان کے مخلص دوستوں کی الٰہی حکمتِ عملی کے نتیجے میں دشمنوں کو سوائے ذلت و پشیمانی کے کچھ ہاتھ نہ لگا۔ ایران میں اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے بعد امریکہ اور اس کی حلیف قوتیں مایوس ہوگئیں کہ امامؒ کے جیتے جی الٰہی انقلاب کا کچھ بھی نہیں بگاڑا جاسکتا چنانچہ وہ انقلاب کو سبوتاژ کرنے کے لئے امامؒ کے بعد کے ادوار کے لئے حکمتِ عملی وضع کرنے کی طرف متوجہ ہوئیں۔

لیکن خدا کے لطف و کرم سے امام خمینی ؒ کے بعد ایران کے انقلاب کو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی صورت میں ایک ایسا رہبرِ فرزانہ نصیب ہوا کہ استعمار کی تمام امیدوں پر پھر سے پانی پھر گیا۔ امام خمینیؒ کے دور میں استعمار نے انقلابِ اسلامی کے لئے جو مشکلیں کھڑی کی تھیں ان میں واقعۂ طبس، گروہِ منافقینِ خلق کی امامؒ و انقلاب دشمنی، بنی صدر کا پیدا کردہ بحران، پارلیمنٹ کا دھماکوں سے اڑایا جانا اور اس کے نتیجے میں انقلاب کے پہلے اور دوسرے سطح کے قائدین کا صفایا ہوجانا، صدر رجائی اور وزیرِاعظم جواد باہنر کا لقمۂ دہشتگردی بن جانا اور سب سے اہم عراق کی مسلط کردہ آٹھ سالہ جنگ خاص طور سے قابلِ ذکر ہیں۔ لیکن استعمار نے امامؒ کے دور میں انقلاب دشمنی میں جو موثر ترین چال چلی وہ انقلابِ اسلامی کو شیعوں کا انقلاب قرار دینا تھا۔ مغربی میڈیا نے بڑے شد و مد سے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ ایک شیعہ انقلاب ہے جو دراصل سنیوں کے خلاف ہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت مغرب نے عالمِ اسلام میں شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دینے کی بڑی گہری سازش کی۔

صدام حسین کی آٹھ سالہ جنگ کا ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ اس جنگ کو سنیوں اور شیعوں کے مابین جنگ ثابت کیا جائے اور یوں سنی اور شیعہ برادری میں ہمیشہ ہمیش کے لئے دوری اور اجنبیت پیدا کردی جائے۔ مغرب نے اس کام کے لئے صدام کو فرنٹ لائن پر رکھا اور عرب دنیا کے مطلق العنان حکمرانوں کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ عالمِ اسلام میں ایسے گروہوں کی سرپرستی فرمائیں جو شیعہ سنی کے درمیان دشمنی ایجاد کرنے میں کارگر ثابت ہوں۔ چنانچہ عرب کے شاہی حکمرانوں نے جس میں سعودی عرب کے شاہی خاندان آلِ سعود کا رول سب سے زیادہ گھناؤنا ہے صدام کی مالی مدد کے لئے اپنے خزانوں کے دہانے کھول دیئے۔ اس کے علاوہ جمہوریت، روشن فکری اور امن کے علمبردار امریکہ اور مغرب نے قرونِ وسطیٰ کی یادگار عرب شاہی حکومتوں کے تعاون سے عالمِ اسلام میں القاعدہ، طالبان، سپاہِ صحابہ اور جند اللہ جیسی دہشتگرد تنظیموں کو جنم دیا جنھوں نے سنی اسلام کے نام پر اسلام کی ایک وحشیانہ تصویر پیش کی۔ اسلام کی یہ دہشتگردانہ تعبیر مسلمانوں کے درمیان باہمی تفرقہ کو ہوا دینے اور انھیں اپنے مغربی دشمنوں کے مقابلے میں کمزور سے کمزور تر کرنے میں بڑی مددگار ثابت ہوئی۔

امریکہ اور مغرب نے شیعہ سنی اختلاف کو عالمِ اسلام پر اپنے تسلط، اسرائیل کے تحفظ نیز مسلمانوں کے قدرتی ذخائر پر قبضے کے لئے اپنے ہاتھ میں ایک موثر ہتھیار خیال کیا۔ مغرب نے سوؤیت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام ہراسی (Islamophobia) کا فلسفہ گھڑا اور اس کے ذریعے یورپی ممالک اور امریکہ کے اتحادی ممالک کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کی۔ ان سب گھناؤنے حربے کے باوجود مغرب اُس الٰہی انقلاب کو روز افزوں توانا اور مضبوط ہونے سے نہ روک سکا جو 1979ء میں امام خمینیؒ کی قیادت میں رونما ہوا تھا اور جو آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی قیادت میں پوری آب و تاب کے ساتھ رواں دواں ہے۔ امریکہ اور مغرب نے انقلاب کی ابتدا ہی سے ایران کے خلاف متعدد قسم کی اقتصادی پابندیاں عائد کیں لیکن ایران کی الٰہی قیادت نے ان تمام مشکلات کو مواقع میں تبدیل کیا اور سائنسی اور اقتصادی میدانوں میں غیر معمولی پیشرفت و ترقی کی۔ فوجی لحاظ سے ایران اپنی قدرت کے ایسے نقطے پر پہنچ چکا ہے کہ امریکہ سمیت دنیا کی کوئی جارح قوت اس پر حملے کی جرأت نہیں کرسکتی۔

اس کے علاوہ اسلامی ایران اپنے الٰہی تصورِ جہاں بینی کے نتیجے میں ایسی بصیرت اور قوت سے مالا مال ہے کہ خطے میں حتیٰ کہ دنیا میں کوئی بھی ڈیولپمنٹ ایران کی معاملات پر اثرانداز ہونے کی توانائی سے بے نیاز نہیں رہ سکتی۔ چنانچہ مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بعض اہم ممالک میں عوامی اسلامی بیداری کی جو تازہ تحریکیں ابھریں وہ ایران کے اسلامی انقلاب کی ہی مرہونِ منت ہیں۔ امریکہ ہنوز اس کوشش میں ہے کہ اسلامی بیداری کی ان تحریکوں کا رخ اپنے فائدے میں موڑ لے لیکن کامیابی کے امکانات تقریباً معدوم ہیں۔ جب یہ بیداری کی تحریکیں چل رہی تھیں تو امریکہ نے مصر میں اپنے دیرینہ نوکر حسنی مبارک کو بچانے کے لئے سو جتن کئے لیکن اس کی ایک نہ چلی اور بالآخر اس نا مبارک آمر کو تختِ حکومت سے بے دخل ہونا پڑا جس نے اپنی ناپاک پالیسی سے پورے خطے میں اسرائیلی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا تھا۔ بالخصوص فلسطین کی آزادی کی تحریک کے لئے سعودی عرب کی آلِ سعود کی طرح حسنی مبارک بھی انتہائی ضرر رساں ثابت ہوا۔

امریکہ اور مغرب در پردہ لیبیا کے ڈکٹیٹر معمر قذافی کی حمایت کرتے رہے اور اس ملک کی دولت کو ناجائز طریقے سے لوٹتے رہے۔ مغرب کی یہ مجرمانہ لوٹ مار اس لئے کامیابی سے جاری تھی کہ معمر قذافی جیسا سفاک ڈکٹیٹر ان کے جرم میں معاون و مددگار تھا اور خود اپنے عوام سے خیانت کا مرتکب ہو رہا تھا۔ امریکہ نے یورپی ممالک اور صہیونی اسرائیل کی ملی بھگت سے نیز قطر اور دیگر شاہی عرب حکومتوں کے تعاون سے معمر قذافی کے خلاف ایک ایسا scenario تیار کیا کہ جس کے تحت لیبیا میں القاعدہ کو نفوذ فراہم کرکے قذافی کے خلاف عوامی تحریک کو مغربی ایجنڈے سے ہم آہنگ کیا جاسکے نیز اس کو ایک عالمی مسئلہ بناکر اس تجربے کا اطلاق بعد میں شام پر مزید پیش رفتہ شکل میں کیا جاسکے۔ شام اس وقت مغرب، اسرائیل اور ان دونوں کی اسٹراٹیجک حلیف عرب شاہی آمریتوں کی سازشی اور دہشتگردانہ کارروائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ مغربی قوتیں تیونس میں رونما ہونے والے انقلاب کو ناکارہ بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں اور وہاں سیاسی بحران پیدا کرکے اسلامی قوتوں کو ایران سے دور کرنے کی فکر میں ہیں۔

بعینہٖ یہی صورتحال مصر کی ہے جہاں مغرب کی بھرپور کوشش ہے کہ انقلاب کے بعد کی صورتحال میں مصر کسی بھی طور ایران سے قریب نہ ہو پائے نیز مصر کی ریاستی قوت سے فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کو توانائی حاصل نہ ہوپائے۔ چنانچہ قطر اور ترکی کو تو حماس سے روابط کی اجازت دی لیکن مصر اور حماس کے روابط پر امریکہ اور مغربی قوتیں بہت زیادہ راضی نہیں ہیں البتہ مغربی قوتیں یہ چاہتی ہیں کہ قطر اور ترکی کی طرح مصر کی نئی حکومت بھی حماس کو دو ریاستی حل کو قبول کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے دباؤ ڈالے۔ مصر اس وقت جن گوناگوں مشکلات سے دوچار ہے اس کے لئے کوئی دوسرا راستہ نہیں رہ جاتا ہے کہ وہ خطے میں اپنی آزاد حیثیت کو منوانے، اپنی اقتصادی مشکلات کو دور کرنے، اپنے سیاسی نظام کو عوام دوست بنانے کے لئے اور اسلامی ثقافت و تہذیب کو اپنے ملک میں پھر سے جلا بخشنے کے لئے ایران سے انتہائی قربت کے ساتھ ہمکاری اور تعاون کرے بصورتِ دیگر امریکہ اور مغرب و اسرائیل نیز مصر کے پڑوس میں واقع ان قوتوں کے اسٹراٹیجک اتحادی یعنی شاہی عرب آمریتوں کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوکر مصر ایک بار پھر قصر ذلت میں جا گرے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 250625
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ماشاء اللہ بہت اچھی تحریر ہے
ہماری پیشکش