1
0
Friday 18 Jun 2010 13:21

مشرق وسطیٰ،اسرائیل اور مسلم دنیا

مشرق وسطیٰ،اسرائیل اور مسلم دنیا
 لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم
ویسے تو یہودیوں کی تاریخ کوئی 3 ہزار سال پرانی ہے،جس میں بکھرے ہوئے یہ لوگ دربدر پھرتے رہے،لیکن جدید تاریخ میں جب Zionist کی پہلی کانگریس نے جنم لیا،تو 1897ء میں فلسطین میں ایک یہودی بستی آباد کرنے کا مذموم فیصلہ کیا گیا،پھر پہلی جنگ عظیم میں جرمنوں کیخلاف برطانیہ کی مالی مدد کر کے یہودیوں نے انگریزوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کر لیں،جس کے نتیجے میں 1917ء میں Balfour Declaration جاری ہوا،جس میں برطانیہ نے فلسطین میں ایک اسرائیلی ریاست بنانے کی حمایت کر دی،اور مشرق وسطی میں ترکوں کو شکست دے کر دو ریاستوں کے قیام کا اعلان کیا،جس میں ایک کو فلسطین کہا گیا،جس کے اندر اسرائیل،دریائے اردن کا مغربی کنارہ،غزہ اور اردن شامل تھے اور دوسری ریاست کو Mesopotania کہا گیا،جو بغداد کے گرد و نواح میں Ottoman حکومت کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی،بعد میں اس بستی کا نام عراق رکھ دیا گیا۔ 
پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشن نے،جس کو Lenin نے ’’چوروں کا باورچی خانہ‘‘ کہا تھا،نہ صرف بیلفور ڈیکلیریشن کی حمایت کر دی،بلکہ فلسطین کے اندر یہودیوں کیلئے ایک الگ Jewish Agency بنانے کی منظوری بھی دیدی۔اسکے کل 244 نمائندے منتخب کیے گئے،جن میں سے نصف کا انتخاب Zionists نے کیا اور باقی کا دنیا میں موجود یہودیوں نے۔ساتھ ہی یہودیوں کی Hebrew یونیورسٹی بن گئی۔جب یہودیوں نے ساری دنیا سے اپنے مذہب کے لوگ اکٹھے کرنے شروع کر دیئے،تو پھر عربوں نے بغاوت کر دی Peel Commission نے فلسطین کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی بات کی تو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے یہ بات نہ مانی۔دوسری جنگ عظیم میں مبینہ طور پر ہٹلر نے تقریباً ساٹھ لاکھ یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈال کر ہلاک کر دیا جو باقی بچے وہ بھاگ کر فلسطین آ گئے۔ہٹلر نے کہا :
"I could have annihilated all the Jews in the world, but I left some of them so that you can know why I was killing them. Hitler"
یعنی میں باقی ماندہ یہودیوں کا بھی صفایا کر دیتا،لیکن کچھ یہودیوں کو میں نے اس لیے زندہ رہنے دیا،تاکہ آنے والی نسلیں خود تجربہ کر کے دیکھ لیں کہ ان کو مارنا کتنا ضروری تھا۔ 
دوسری جنگ عظیم کے بعد یہودی اپنے محسن برطانیہ کے بھی خلاف ہو گئے۔آخر کار سلامتی کونسل نے نومبر 1947ء میں فلسطین میں دو ریاستوں یعنی یہودی اور عرب کے قیام کی منظوری دیدی،اس طرح 14 مئی 1948ء کو جب انگریز فلسطین سے نکلے تو اسرائیل کے نام سے یہودی ریاست دنیا کے نقشے پر ایک ناسور بن کر ابھری، چونکہ جس دن سے یہ ریاست قائم ہوئی ہے،بالعموم پوری دنیا کا امن برباد ہو چکا ہے اور خصوصاً مشرق وسطیٰ اور فلسطینی عوام جنگ کے شعلوں میں جل رہے ہیں۔1948ء کی جنگ ہو یا 1956ء کا نہر سویز پر حملہ۔1967ءکی عربوں کیخلاف اسرائیلی جارحیت ہو یا صابرہ شتیلا کے نہتے مہاجرین کا قتل عام،اسرائیل اپنی ریاستی حدود کو بڑھاتا رہا اور نتیجتاً دریائے اردن کے مغربی کنارے،غزہ کی پٹی،شام کی گولان کی پہاڑیاں اور مصر کے صحرائے سینا سمیت بہت سے علاقے ہڑپ کر گیا۔
 1973ء میں مصر نے حملہ کر کے نہر سویز پر اسرائیل کی نام نہاد ناقابل تسخیر،Barlev لائن کو توڑ ڈالا اور کچھ کامیابیاں حاصل کیں، لیکن مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی عرب دنیا بدقسمتی سے اسرائیل کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکی۔مصر اور اردن نے اسرائیل سے الگ معاہدے کر لیے اور فلسطینی پستے رہے۔لگتا یوں ہے کہ اب اسرائیل کا زوال شروع ہو چکا ہے حالیہ سالوں میں اسرائیل کو مندرجہ ذیل موقعوں پرزبردست ہزیمت اٹھانا پڑی۔
٭2006ء میں لبنان میں حزب اللہ ملیشیا نے عرب اسرائیل تاریخ کی طویل ترین (33 دن) جنگ لڑی اور اسرائیلیوں پر 12000 راکٹ برسا کر دنیا کے جدید ترین اسلحہ سے لیس اسرائیلی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیئے۔جس کے نتیجے میں اسرائیل کے آرمی کے سربراہ اور وزیر دفاع کو مستعفی ہونا پڑا اور 16 لاکھ یہودیوں کو اندرون ملک نقل مکانی کرنا پڑی۔
٭2008/9 میں غزہ پر حملہ کر کے 16 سو فلسطینی بچوں اور عورتوں کو ہلاک کرنے کے بعد اسرائیل مہذب دنیا کی نظروں میں اور گر گیا اور اس کو بدترین عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
٭حال ہی میں دوبئی میں حماس کے ایک سینئر لیڈر محمود ہویدا کے موساد کے ہاتھوں قتل کو دنیا نے بین الاقوامی دہشت گردی کہا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ 80ء کی دہائی میں عراق کے ایٹمی سائنسدان یحی ٰ المشہد کو بھی موساد نے فرانس میں قتل کر دیا تھا۔ 
٭ حال ہی میں چند خفیہ ایٹمی دستاویزات سامنے آنے سے انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل نے 1970 میں سفید فام نسل پرست جنوبی افریقی حکومت کو 10 ایٹم بم اور میزائل فروخت کیلئے پیش کیے تھے جن میں سے،گارڈن ڈف کے مطابق ایک کا 22 ستمبر 1979ء کو انڈین اوشن میں دھماکہ کیا گیا،6 بم امریکہ بھیج دیے گئے اور باقی تین گم ہو گئے۔اس سے دنیا چونک اٹھی ہے۔
٭غزہ میں محصور فلسطینیوں کیلئے امداد لے کر جانیوالا ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ کھلے سمندر میں اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنا۔جس میں اکثر مسلمانوں سمیت 20 بے گناہ لوگ مارے گئے،اس سے اسرائیل مزید بدنام ہوا۔بحری قافلے پر حملہ کر کے اسرائیل نے بین الاقوامی قانون بھی توڑا ہے۔
قارئین اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے مضمرات کچھ یوں ہیں۔ ٭اسرائیل کی ساکھ مزید خراب ہو گئی ہے،اور اسرائیل کے اندر بھی امن پسند یہودی شہریوں نے اسکی مخالفت کی ہے،جس سے اسرائیلی حکومت ٹوٹ سکتی ہے۔
٭اسرائیل کے ترکی سے تعلقات خراب ہو گئے ہیں اور ترک وزیر اعظم مسلمانوں کے ہیرو بن کر ابھرے ہیں۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ 9/11 کے بعد بھی ترک پارلیمنٹ نے اربوں ڈالرز کے لالچ کو ٹھکرا کر اتحادی فوجوں کو عراق پر حملے کیلئے ترک سرزمین کے استعمال کی اجازت سے انکار کر دیا تھا۔
٭ 1947ء سے لے کر 2010ء تک اسرائیل کے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی پانچ اور سلامتی کونسل کی 229 قراردادیں منظور ہو چکی ہیں،جن میں 20 قراردادوں میں اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے،لیکن اسرائیل کو اس کی کوئی پروا نہیں۔
٭اسرائیل کی حالیہ جارحیت کا نتیجہ بھی یقینی طور پر عراق اور افغانستان میں پھنسے ہوئے امریکی اور اتحادی فوجیوں کے مزید باڈی بیگز کی صورت میں سامنے آئیگا اور ایران کیلئے بھی دنیا کی ہمدردیوں میں اضافہ ہو گا۔حال ہی میں اسرائیل نے ایران کی سرحد کے پاس اپنی ایسی آبدوز لگا دی ہیں،جو ایرن پر ایٹمی حملہ بھی کر سکتی ہیں،ساتھ ہی اسرائیل،اردن،شمالی سعودی عرب اور عراق کی ہوائی حدود استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک سے 2200 کلومیٹر دور ایران کے اندر ’’قم‘‘ اور ’’اصفہان‘‘ سمیت 4 ایٹمی تنصیبات پر حملے کیلئے تیاری بھی کر رہا ہے۔
قارئین ان حالات کا مقابلہ صرف مسلمانوں کے اتحاد سے ہی کیا جا سکتا ہے،جس کیلئے ہم تیار نہیں۔57 مسلم ممالک میں سے 31 کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔حماس اور الفتح میں شدید اختلافات ہیں،مصر حماس اور اردن الفتح سے نا خوش ہیں،سعودی عرب اور ایران بھی بدقسمتی سے ایک دوسرے پر مکمل اعتماد نہیں کر رہے۔عراق کے ایران پر حملے سے لاکھوں مسلمان مارے گئے، عراق نے اپنے برادر اسلامی ملک کویت اور شام میں لبنان پر یلغار کی تھی۔افغانستان،عراق اور پاکستان پر امریکہ اور مغربی طاقتوں کے قبضے اور ڈرون حملوں کیخلاف مسلم دنیا سے کوئی ایک بھی صدائے احتجاج بلند نہیں ہوئی۔پاکستان نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے پڑوسی مسلمان ملک افغانستان پر حملے ممکن بنائے اور افغانستان میں ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کو ایسی کمین گاہیں فراہم کیں، جہاں سے وہ پڑوسی مسلمان ملک پاکستان کے اندر پراکسی جنگ لڑ رہے ہیں،اس تکلیف دہ صورتحال کے باوجود میں سوچتا ہوں کہ مسلم دنیا میں ابھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں،جو مسلمانوں کے باہمی تنازعات ختم کرنے میں معاون ثابت ہو سکیں۔
پاکستان کو چاہیے کہ وہ بسم اللہ کر کے OIC کی کانفرنس طلب کرے ،جس کا ایجنڈا میں اپنے پہلے ایک کالم میں دے چکا ہوں۔فلسطین میں یہودی جارحیت کے آگے بند باندھنے کا راستہ بھی یہی ہے۔آج ہم اسرائیل سے ہاتھ ملانے کیلئے بے تاب ہیں،لیکن اہل بصیرت قائد اعظم محمد علی جناح جب زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے امریکہ سے ڈاکٹر منگوانے کی درخواست صرف اس شرط پر قبول کی کہ ڈاکٹر یہودی نہیں ہو گا۔اس لئے 9 ستمبر 1948ء کو امریکہ میں موجود پاکستانی سفیر مرزا ابوالحسن اصفہانی کو قائد اعظم کے سیکرٹری نے ٹیلیگرام میں یہی لکھا۔لیکن پھیپھڑوں کے ماہر ڈاکٹر Riggins کے پہنچنے سے ایک دن پہلے قائد اعظم اللہ کو پیارے ہو گئے۔قائد اعظم کو یقیناً اس بات کا علم تھا کہ Zionists نے اللہ کے بہت سے پیغمبر زہر دے کر مارے تھے اور ایک دفعہ تو نبی ص کی بھی ایک پتھر گرا کر جان لینے کی ناپاک سازش کی گئی تھی۔
قارئین آیئے آخر میں یہ دیکھیں کہ امریکہ کے فاؤنڈنگ فادر بینجمن فرینکلن نے 1789ء میں یہودی امیگریشن کے موضوع پر آئینی کنونشن کو خطاب کرتے ہوئے کیا کہا :
’’امریکہ کو بڑا خطرہ یہودیوں سے ہے یہودی جس سرزمین پر بسے ہیں،انہوں نے نہ صرف اخلاقی پستی کا ثبوت دیا،بلکہ مالی بدعنوانیوں کے بھی مرتکب ہوئے۔انہوں نے ریاست کے اندر یاست بنائی ہوئی ہے، اور جب انکی مخالفت کی جائے،تو یہ اقتصادی طور پر سلطنت کا گلہ گھونٹتے ہیں،جیسے انہوں نے پرتگال اور سپین سے کیا۔اگر ہم نے آئینی طور پر انہیں ملک سے نہ نکالا تو ایک سو سال سے بھی کم عرصے میں یہ ہمارے ملک پر چھا جائینگے،ہمارے اوپر حکومت کریں گے،اور ہمیں تباہ کر دینگے۔میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اگر آئین کے ذریعے یہودیوں سے ہمیشہ کیلئے چھٹکارہ حاصل نہ کیا تو آپکے بچے اور ان بچوں کے بچے بھی آپ کو قبروں میں بد دعائیں دیتے رہیں گے۔ یہودیوں کے خیالات امریکی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتے،یہودی اس سرزمین کیلئے خطرہ ہیں،اگر انہیں امریکہ میں داخلے کی اجازت مل گئی،تو یہ اداروں کو تباہ کر دینگے،انہیں آئینی تحفظ بالکل نہیں ملنا چاہیے۔‘‘
Authority: Written records of Charles Pickney of South Carolina , 
taken from proceedings of USA Constitutional Convention1789"روزنامہ نوائے وقت"
خبر کا کوڈ : 28619
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Canada
Ppl like you get all the brains. I just get to say thnkas for he answer.
ہماری پیشکش