0
Tuesday 22 Jun 2010 11:09

پاکستان،ایران اور افغانستان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت

پاکستان،ایران اور افغانستان کے محفوظ مستقبل کی ضمانت
 جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ
 پاکستان،ایران اور افغانستان اس وقت تاریخ کے ایک انتہائی اہم دور سے گذر رہے ہیں،کیونکہ انکے مستقبل کو غیر ملکی جارح قوتوں سے شدید نقصان پہنچا ہے اور انکے قومی تشخص،قومی اقدار سے وابستگی اور قومی وقار کو کمزور کرنے کی ناپاک کوششیں ہوتی رہی ہیں۔گذشتہ تیس سالوں میں تینوں اسلامی ممالک کی سازشی طاقتوں کیخلاف جدوجہد نے انکی قوت برداشت اور غیر ملکی جارح طاقتوں کی جانب سے لاحق خطرات کیخلاف قوت مزاحمت کی نئی راہیں استوار کی ہیں اور اب تینوں ممالک بے شمار قربانیوں کے بعد ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں،جو انکے روشن مستقبل کی نوید ہے۔یہاں ماضی قریب کے چند اہم واقعات کی مثالیں پیش کرنا چا ہوں گا،تاکہ میرا مدعا واضح ہو سکے۔
1979ء میں امریکہ کی شہ پر عراق نے اسلامی انقلاب کو شکست دینے کیلئے ایران پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کے حکمران جنرل ضیاء الحق نے بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے کیلئے کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا،جس میں مجھے چیف آف جنرل سٹاف کی خیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی۔اجلاس کی کاروائی تین گھنٹے پر محیط تھی،جس میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ: ’’ عراقی افواج بہت جلد ایرانی فوجوں کو شکست دینے کے بعد ایران میں داخل ہو کراسلامی انقلاب کو ختم کر دیں گی،لہٰذا پاکستان کو ایران میں اقوام متحدہ کی متعین کی جانیوالی امن فوج میں شامل ہونے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔‘‘ اب تک کی بحث میں میں خاموش ہی تھا،لیکن میں نے جناب صدر سے اپنی معروضات پیش کرنے کی اجازت چاہی اور کہا:
٭ ’’یہ جنگ محض دنوں یا ہفتوں میں ختم نہیں ہو گی بلکہ یہ ایک طویل جنگ ہو گی جو کئی سالوں تک جاری رہے گی اور بالآخر ایران فاتح کی حیثیت سے ابھرے گا اور اسلامی انقلاب مزید مستحکم ہو گا۔یہاں قدیم چینی کہاوت سچ ثابت ہو گی کہ: ’’انقلابیوں سے اس وقت تک نہ ٹکرائو جب تک تمہارا نظریہ انقلابیوں کے نظریے سے افضل نہ ہو۔‘‘ اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ نظریہ ء اسلام سے بہتر اور مضبوط کوئی اور نظریہ نہیں ہے۔
٭ ’’تاریخ شاہد ہے کہ ایرانی قوم ہمیشہ غیر ملکی جارحیت کیخلاف متحد ہو کر لڑی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ رضاشاہ کی فوجیں منتشر اور فوجی بیرکوں میں بند ہیں،لیکن اسکے باوجود وہ متحد ہو کر دشمن فوجوں کو شکست دیں گی اور اپنے وطن کا بھرپور طریقے سے دفاع کرینگی،جبکہ انکے ساتھ ساتھ اسلامی انقلابی گارڈ،اسلامی انقلاب کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہونگے۔
٭ ’’عراقی فوجوں کو بلاشبہ جدید فوجی ساز و سامان حاصل ہے،لیکن اسکی اعلیٰ عسکری قیادت میں جرمن جنرل سٹاف کی طرح سے فیصلہ کن جنگ لڑنے اور دشمن کے علاقے کے اندر گھس کر جنگ کرنے جیسی پیشہ ورانہ مہارت کا فقدان ہے۔جنوبی دلدلی علاقے اور شمال کے پہاڑی علاقے ،عراقی فوجوں کی راہ میں شدید رکاوٹ ثابت ہونگے،لہٰذا اس جنگ میں کسی کو بڑی کامیابی یا شدید نقصان نہیں ہو گا،بلکہ سست رفتار جنگی جھڑپوں میں دونوں فریقین کا بھاری جانی نقصان ہو گا۔
٭ ’’جنگ کے پہلے چند ہفتوں میں ہی عراقی فوجیں اپنے اصل ہدف،یعنی ’’ایرانیوں کو شکست دینے ‘‘میں ناکام ہو جائینگی جبکہ دوسری جانب ایرانی فوجیں جارح فوجوں کو شکست دینے کیلئے ہمت و پامردی سے لڑیں گی اور نتیجہ کے طور پر ایران فاتح ہو گا،لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ ہمیں ہر دو صورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسی مرتب کرنا چاہیئے یعنی اگر کم عرصے کی لڑائی میں عراقی فوجیں کامیاب ہوجاتی ہیں یا ایک طویل جنگ کا خاتمہ ایران کی فتح پر ہوتا ہے۔‘‘
جنرل ضیا ء نے میری گذارشات بڑے غور سے سنیں اور بولے: ’’میں آپکے خیالات سے متفق ہوں لہٰذا ہمیں دونوں قسم کے حالات کیلئے تیار رہنا ہو گا۔اس دوران ماحول پر خاموشی طاری رہی اور میٹنگ ختم ہو گئی۔آٹھ سال بعد ایرانی فوجوں نے شط العرب عبور کر کے بصرہ کی جانب پیش قدمی کی خاطر جزیرہ نما ’’فاو‘‘ کے مقام پر فوجیں اکٹھی کیں تو صدام نے،مہذب مغربی ممالک،کے دئیے ہوئے کیمیاوی ہتھیاروں سے حملہ کر دیا جس میں ایران کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور چونکہ اسکے پاس کیمیاوی ہتھیاروں کا کوئی توڑ نہیں تھا،لہٰذا ایران نے فائر بندی کا اعلان کر دیا۔
اس وقت سے ایران کسی نہ کسی دبائو کے زیر اثر رہا ہے اور اب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے عظیم ایرانی قوم کے اعصاب اور ملی غیرت کا امتحان لینے کیلئے چوتھی بار پابندیاں لگا دی ہیں۔ دوسری جانب ایران کو اشتعال دلانے کیلئے اسرائیل نے خطے میں ایٹمی آبدوز تعینات کر دی ہے۔ اسرائیل کی یہ اشتعال انگیزی اسی طرح ہے،جس طرح بھارت نے 1974ء اور 1998ء میں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو اشتعال دلایا تھا اور اسکے نتیجے میں پاکستان کے پاس سوائے ایٹمی دھماکے کرنے کے اور کوئی چارہ کار نہیں تھا۔اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ ایران کیا رد عمل ظاہر کرتا ہے؟
ستمبر 2001ء میں جنرل مشرف نے رچرڈ آرمٹیج کی دھمکی کے دبائو میں آکر تمام تر امریکی احکامات کو تسلیم کر تے ہوئے افغانستان کیخلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے کے پس منظر اور خدوخال سے آگاہ کرنے کیلئے جنرل مشرف نے سیاستدانوں،دانشوروں،میڈیا کے نمائندوں اور سفارتکاروں کو گروپوں کی شکل میں اپنے ہاں بات چیت کی دعوت دی۔ایک گروپ میں راقم بھی ۲۲ ستمبر 2001ء کو جنرل مشرف کی دعوت پر شامل ہوا۔ مسلسل چار گھنٹے تک زیادہ تر جنرل موصوف خود ہی بولتے رہے۔میں خاموش رہا۔آخر کار وہ خاموش ہوئے اور میری رائے طلب کی۔میں نے کہا:
٭ ’’اب چونکہ آپ نے فیصلہ کر ہی لیا ہے تو اس پر بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔افغانستان کیخلاف امریکہ کی بپا کردہ جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا ایک انتہائی اہم اور حساس معاملہ ہے،جس کا ہمارے پاس کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے،کیونکہ افغان عوام نے کبھی ہمارے مفادات کو گزند نہیں پہنچائی اور نہ ہی امریکہ کے ساتھ ہمارا کوئی دفاعی معاہدہ ہے۔ہمیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سلسلے میں ہم کہاں تک آگے جا سکتے ہیں اور ہمارے لئے اپنے قومی مفادات کے تحفظ کی خاطر آخری حد کیا ہونی چاہئے۔
٭ ’’چند ہفتوں کے اندر اندر جارح فوجیں افغانستان پر قبضہ کر لیں گی اور طالبان جلال آباد اور قندھار کی جانب پسپائی اختیار کریں گے،جہاں سے 1996ء میں انہوں نے اپنی کاروائی کا آغاز کیا تھاـ، اسکے ساتھ ہی وہ پاکستان میں موجود اپنے امدادی کیمپوں سے بھی رابطے میں آجائینگے۔نتیجتاً وہ پھر سے متحد ہونگے اور بزرگ افغان مجاہدین کے تعاون سے پاکستان اور دنیا بھر کے نئے اور پرانے مجاہدین سے باہم مل کر غیر ملکی جارح افواج کیخلاف مزاحمت میں اضافہ کرینگے۔
٭ ’’جوں جوں مزاحمت بڑھے گی جنگ کا دائرہ پھیلتا جائیگا اور بالآخر جنگ کا رخ پاکستان کی طرف ہو جائیگا جو کہ پاکستان کیلئے شدید مشکلات کا سبب بنے گا کیونکہ اسے بیک وقت دو محاذوں پر بر سر پیکار ہونا پڑیگا۔
٭ ’’بلاشبہ امریکہ اور اسکے اتحادی بہت جلد افغانستان پر کنٹرول حاصل کر لیں گے،لیکن آخر کار افغانستان امریکیوں کیلئے دوسرا ویتنام ثابت ہو گا۔وہ یہ جنگ کبھی بھی جیت نہ سکیں گے اور شکست ان کا مقدر بنے گی۔
٭ ’’آخری بات یہ ہے کہ افغانی،پاکستانی اور دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں مجاہدین نے افغانستان کی آزادی کی خاطر لڑی جانیوالی اس جنگ میں شہادت کا رتبہ پایا ہے۔افغانستان پر امریکہ کی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے سے ہم ان شہداء کے خون پر سمجھوتے کے مرتکب ہونگے،جو ایک ناقابل معافی گناہ ہو گا اور اللہ تعالی گناہ گاروں سے نمٹنا خوب جانتا ہے۔‘‘
میرے خیالات سن کر جنرل مشرف کا چہرہ زرد پڑ گیا اور انہوں نے منہ ہی منہ میں کچھ کہا جسے میں سمجھ نہیں سکا۔یوں میٹنگ ختم ہو گئی اور یہ ہماری آخری ملاقات ثابت ہوئی،اس کے بعد ہم کبھی نہیں ملے۔
افغانوں کی تحریک آزادی ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی ہے،جہاں قابض افواج عسکری اور نفسیاتی طور پر شکست کھا چکی ہیں اور اپنی افرادی قوت میں اضافہ کر رہے ہیں،تاکہ شکست کے آثار کو کم کیا جا سکے۔یہ بات باعث حیرت ہے کہ شکست خوردہ طاقتیں افغانستان میں قیام امن کی شرائط مرتب کر رہی ہیں،جبکہ یہ طالبان کا حق ہے جو اس مقابلے میں فاتح کی حیثیت رکھتے ہیں۔اب وقت آ گیا ہے کہ افغانستان کے معاملات سدھارنے کیلئے افغان عوام،انکی تہذیب و تمدن،قومی روایات،غیرت و وقار اور ان کے معاشرتی نظام کا احترام کیا جائے،جو کہ قیام امن کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔ قابض فوجوں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہئے کہ وہ افغانوں کے قبائلی طرز معاشرت کو سمجھنے میں یکسر ناکام رہے ہیں،لہٰذا انہیں چاہئے کہ تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئے افغانستان سے روسییوں کی پسپائی کا ورق الٹ کر دیکھیں تو ساری حقیقتیں ان پر عیاں ہو جائینگی،اسکے ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے کہ طالبان کیساتھ 1990ء اور 2001ء کی طرح کی سازشیں اب کامیاب نہ ہو سکیں گی،جب ان سے فتح کے ثمرات چھین لئے گئے تھے اور انہیں انکی مرضی کی حکومت سازی کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا تھا۔یاد رہے اگر کوئی اور حربہ استعمال کیا گیا تو افغانستان میں قیام امن کا خواب کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا،کیونکہ طالبان اتنی بھاری قربانیوں کے بل بوتے پر اس قدر طاقتور ہو چکے ہیں کہ اپنی آزادی کا حق چھین لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
دنیا اس بات کو سمجھتی ہے کہ قابض فوجوں کے خطرناک عزائم اور افغانستان کو سپلائی کے پیچیدہ راستوں کا استعمال عسکری لحاظ سے کتنا اہم ہے۔اسلام آباد کے نزدیک نیٹو کی سپلائی کے قافلے پر حملہ اور کرغزستان میں امریکی فوجی اڈے "مناس"سے روزانہ 45 ہزار لیٹر سے زائد تیل کی سپلائی روکنے کیلئے کرغزستان میں بد امنی کا مقصد افغانستان پر قابض فوجوں کو مات دینے کی کوشش ہے۔ان کاروائیوں میں کون ملوث ہے؟ یقیناً نہ تو افغانی طالبان ہیں اور نہ ہی امریکہ سے نفرت کرنیوالے پاکستانی،تو پھر یہ کون ہیں؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں ایک بڑا اہم فیصلہ کرنا ہے،بالکل ویسا ہی دانشمندانہ فیصلہ جیسا کہ برسوں قبل بوسنیا میں مداخلت کر کے یورپ میں جہادیوں کے پھیلائو کو روکنے کیلئے کیا گیا تھا،لیکن افسوس کہ افغانستان میں امریکی بذات خود مسئلے کا حصہ بن چکے ہیں،لیکن ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا اور اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکتا ہے۔جہاد ایک حقیقت ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس کا نظریہ اسلام سے گہرا تعلق ہے۔اللہ تعالی کا حکم بڑا واضح ہے کہ:
’’اہل ایمان کو مظلوم مردوں،عورتوں اور بچوں کی مدد کو پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا،جو ظلم و ستم کا شکار ہیں اور اللہ تعالی سے فریاد کر رہے ہیں کہ ان کیلئے کسی نجات دہندہ کو بھیجے۔‘‘
یہ نجات دہندے جو افغانستان،عراق،صومالیہ،چیچنیا،فلسطین اور کشمیر کے ظلم و بربریت کے شکار مظلوموں کی مدد کر ر ہے ہیں،اسی حکم کے تابع ہیں اور وہ اس وقت اپنے گھروں کو لوٹیں گے،جب ظلم و ستم کا یہ سلسلہ ختم ہو جائیگا۔ان سے کسی دوسرے نظرئیے یا تہذیب کو کوئی خطرہ نہیں ہے،لیکن اسکے باوجود دہشت گرد عناصر موجود ہیں،جن کا آزادی کی تحریکوں سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو پوری دنیا کیلئے مشترکہ خطرہ ہیں۔یہ سلسلہ اسی وقت رکے گا،جب غیر ملکی قبضے، جارحیت اور ناانصافی کا خاتمہ ہو جائیگا۔ 
پاکستان،ایران اور افغانستان (PIAA) اتحاد،کو جو سب سے اہم فیصلہ کرنا ہے وہ افغانستان کے متعلق ہے،کیونکہ قابض فوجوں کے پاس افغانستان سے نکلنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے،اور انکے نکلنے سے طاقت کا جو خلاء پیدا ہو گا اسے وہ بھارت جیسے کرائے کے ملک سے پر کرنے کی کوشش کرینگے۔ایسے اقدامات کو روکنا اس اتحاد کی مشترکہ ذمہ داری ہو گی،اور اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی یقین کرنا ہو گا کہ:
٭ افغانستان کے معاملات افغانیوں کے حوالے کئے جائیں اور انہیں اپنا ملک اپنے مفادات کے مطابق چلانے کی آزادی ہونی چاہیئے۔
٭ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے افغانیوں کی ہر ممکن امداد کی جانی چاہیئے،جو کہ پورے خطے کے امن و سلامتی کیلئے ضروری ہے۔
٭ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ساتھ روس سے بھی مطالبہ کیا جائے کہ وہ افغانستان کے جنگی نقصانات کی تلافی کریں۔
٭ افغانستان کی تعمیر نو کیلئے عالمی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں بھر پور شرکت کی جائے۔
اس وقت پاکستان کو سخت ترین حالات کا سامنا ہے،کیونکہ اسے افغانستان سے ملحقہ سرحد پر شورش کو کچلنے کے ساتھ ساتھ اندرونی محاذ پر بھی متعدد مسائل درپیش ہیں،جن میں عدلیہ اور انتظامیہ کے مابین جاری کشمکش اور جمہوری نظام کو صحیح ڈگر پر چلانا شامل ہیں۔قوم کو اپنی گمشدہ منزل پر پہنچانے کیلئے یہ انتہائی اہم اور دلچسپ لمحات ہیں۔امریکہ کی جانب سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کرنے کا دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے،کیونکہ وہ خود وہاں پر ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں اور اب صدر پاکستان کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے کہ انہوں نے زیر حراست طالبان راہنمائوں سے خفیہ ملاقات کی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ آئی ایس آئی پر بھی طالبان کو بھاری مدد فراہم کرنے کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔یہ صرف طالبان کے ہاتھوں اٹھائی گئی ہزیمت اور شرمندگی کو چھپانے کی کوشش ہے،جبکہ شکست کے آثار ان کے چہروں پر واضح دکھائی دے رہے ہیں۔جنرل پیٹریاس جنہیں عراق میں کامیابی کے سبب ہیرو کا مقام حاصل تھا وہ بھی افغانستان میں ناکام و نامراد ہو چکے ہیں۔اس امر کا اظہار ان کی گذشتہ منگل کو امریکی سینٹ کی کمیٹی برائے دفاع کو دی جانے والی بریفنگ سے ہوتا ہے،جہاں پر وہ بے بس اور ہلکان ہو کر گر پڑے۔گذشتہ ہفتے کابل میں منعقد ہونے والے امن جرگے نے بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت کا مشورہ دیا ہے،کیونکہ جنگ جاری رکھنے کی صورت میں فوجی شکست کو ٹالا نہیں جا سکتا۔بہترین راستہ یہی ہے کہ سویٹ روس کی پیروی کرتے ہوئے افغانستان سے فوجیں نکال لی جائیں۔اس سلسلے میں طالبان اور پاکستان محفوظ راستہ فراہم کر سکتے ہیں،جیسا کہ انہوں نے روسی فوجوں کو 1989ء میں دیا تھا۔ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ افغانستان کے معاملات افغان عوام پر چھوڑ دیئے جائیں،جو اپنے ملک کو چلانے کی مکمل طور پر اہلیت رکھتے ہیں۔افغانستان سے قابض فوجوں کے نکلنے سے جو خلا پیدا ہو گا اسے پر کرنے کیلئے بھارت یا کسی اور کرائے کے ملک کی خدمات حاصل نہ کی جائیں،کیونکہ یہ ایسی شدید غلطی ہو گی جس سے پورا خطہ انتشار کا شکار ہو جائے گا۔ 
2010ء ایک بڑا اہم سال ہے جس میں متعدد ایسے مواقع ہیں جو فوری اور موثر عمل کا تقاضا کرتے ہیں جس طرح آج سے بائیس برس قبل1988ء میں پاکستان،ایران اور افغانستان تینوں ممالک کے حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ ’’ پاکستان،ایران،افغانستان اتحاد‘‘ کا قیام عمل میں لایا جائے،تاکہ تینوں ممالک کی قومی سلامتی کو یقینی بناتے ہوئے بیرونی جارحیت کے خلاف موثر دفاع کیا جا سکے۔ اس اتحاد کی تجویز 1988ء میں پیش کی گئی تھی جسے "سٹریٹیجک پارٹنر شب"کی بنیاد پر قائم ہونا تھا،جس کا بنیادی مقصد قومی سلامتی کے مفادات کو محفوظ بنانے کیلئے’’تذویراتی گہرائی‘‘ کا حصول تھا۔وہ وقت اس اتحاد کے قیام کیلئے انتہائی موزوں تھا،کیونکہ پاکستان گیارہ سالہ آمریت کے اختتام پر جمہوریت کی طرف واپس آیا تھا؛عراق کی جانب سے تھونپی گئی آٹھ سالہ طویل جنگ کے بعد ایران فاتح کی حیثیت سے کامیاب ہوا تھا اور افغانستان نے آٹھ سالہ روسی فوجی تسلط سے نجات حاصل کی تھی۔آزادی اور جمہوریت کا سورج طلوع ہونے سے پاکستان،ایران،افغانستان اتحاد،کے قیام کی راہیں ہموار ہو چکی تھیں،لیکن افسوس ایسا ہو نہ سکا۔تذویراتی گہرائی کے اس نظریے کی مخالفت میں جہاں غیروں نے مزموم پراپیگنڈا مہم چلائی وہاں چند اپنے نام نہاد دانشور بھی پیچھے نہ رہے۔مضحکہ خیز مخالفانہ دلائل کا محور یہ تھا کہ پاکستان کو بھارت کی جانب سے کسی جارحیت سے بچنے اور پسپائی کی صورت میں افغانستان کے علاقوں میں ’’تذویراتی گہرائی‘‘ درکار ہے۔یہ نقطہ نظر بالکل لغو اور بے بنیاد تھا،کیونکہ پاکستان کی فوجی حکمت عملی میں اس قسم کی کسی پسپائی کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔ہماری افواج کے جنگی مقاصد بالکل واضح ہیں،یعنی ’’ پاکستانی سرحدوں کا دفاع یقینی بناتے ہوئے،پاکستانی مسلح افواج دشمن کو روکیں گی اور جنگ کو دشمن کے علاقے میں لے جائیں گی اور دشمن کے زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ کیا جاسکے، تاکہ حکومت مضبوط پوزیشن کے ساتھ قیام امن کی بات چیت کر سکے۔‘‘
افغانستاں پر قابض فوجوں نے جس سازش کے تحت جنگ کا رخ پاکستانی علاقے کی جانب موڑا تھا اس میں پاکستان نے کامیابی حاصل کر لی ہے۔شمال مغربی سرحدوں کی جانب سے دہشت گردی کی جو لہر اٹھی تھی اس پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے،لیکن اس کا مکمل خاتمہ اسی وقت ممکن ہو سکے گا جب قابض فوجیں افغانستان سے نکلیں گی کیونکہ غیر ملکی قبضہ ’’تمام برائیوں کی جڑہے۔‘‘ 
گذشتہ تیس سالوں سے افغان عوام اپنی آزادی اور خود مختاری کیلئے حالت جنگ میں ہیں اور اس دوران انہوں نے دنیا کی دو سپر پاورز کو شکست سے دوچار کیا ہے۔1990ء اور 2001ء میں دونوں مرتبہ فاتح ہونے کے باوجود ان سے دھوکہ کیا گیا اور افغانستان میں حکومت سازی کے عمل میں انہیں ان کے مسلمہ حق سے محروم رکھا گیا۔لیکن اب انہیں دھوکہ نہیں دیا جا سکے گا،کیونکہ فاتح ہونے کی حیثیت سے افغانستان میں قیام امن کی شرائط وہ خود طے کریں گے۔
ایرانی قوم 1979ء سے غیر ملکی جارحیت کا شکار ہے،یہ جارحیت فوجی نوعیت کی بھی ہے اور اقتصادی پابندیوں کی صورت میں بھی ہے،لیکن لائق تحسین ہے ایرانی قوم کا حوصلہ اور ہمت کہ ہر مرتبہ وہ دشمنوں کی ریشہ دوانیوں سے آبرو مندانہ طریقے سے عہدہ برآ ہوئی ہے۔یہ حقیقت کہ پاکستان اور ایران کے مابین گیس پائپ لائن بچھانے کا سمجھوتہ طے پا گیا ہے،ان طاقتوں کے مزموم ارادوں کے خلاف موثر رکاوٹ ہے،جو اس سمجھوتے کو سبو تاز کرنا چاہتی ہیں۔
’’پاکستان،ایران،افغانستان اتحاد‘‘ ہماری مشترکہ منزل ہے،جسے دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے ہم ابھی تک حاصل نہیں کر سکے ہیں۔اس کی بنیاد رکھنے کیلئے ہمیں تمام تر باہمی اختلافات اور شکوک و شبہات کو ختم کرنا ہو گا اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد پیدا کرنا ہو گا،تاکہ خطے میں جارحیت کو روکنے،اسے ختم کرنے اور قیام امن کے سلسلے میں ہمارے عزم کو تقویت حاصل ہو۔ بالخصوص افغانستان کی سلامتی کو بہت گہرے زخم لگے ہیں جس کی دو نسلوں نے اپنی جوانیاں اور مہذب زندگی گزارنے کی آرزوئیں وطن کی آزادی پر قربان کر دی ہیں اور انہوں نے صرف اور صرف جنگ کے لپکتے ہوئے شعلے،ہر طرف ناچتی ہوئی موت اور تباہی و بربادی ہی دیکھی ہے۔یہ ہمارا جرم ہے کہ ہم انہیں مہذب زندگی گزارنے کیلئے تحفظ فراہم نہ کر سکے۔اور اب ایک فتنہ جنم پانے کو ہے کیونکہ افغانستان میں اربوں ڈالر کے معدنی خزانوں کو ہڑپ کرنے کیلئے اب "عالمی لٹیرے"افغانستان کے افق پر منڈلانا شروع ہو جائیں گے۔لیکن یاد رہے کہ یہ دولت افغانوں کی ملکیت ہے اور انہیں کو حق حاصل ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ مل کر ملکی اثاثوں کو تحفظ مہیا کریں۔لہذا یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے آپ کو ہر قسم کی جارحیت،استحصال اور بیرونی تسلط کے مقابلے میں محفوظ بنائیں۔ وقت ،حالات اور حادثات کی کوکھ سے جنم پانے والے حقائق اس بات کے منتظر ہیں کہ یہ تین پڑوسی ممالک اپنی قومی سلامتی اورمحفوظ مستقبل کیلئے کیا فیصلہ کرتے ہیں!! 
خبر کا کوڈ : 28889
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش