0
Saturday 19 Jun 2010 10:23

پاکستان چین ایٹمی تعاون پر امریکی تحفظات،ہمیں امریکہ کے بجائے اب چین کا اتحادی بننا چاہئے

پاکستان چین ایٹمی تعاون پر امریکی تحفظات،ہمیں امریکہ کے بجائے اب چین کا اتحادی بننا چاہئے
 پاکستان نے پاک چین سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی تعاون کے بارے میں امریکی تحفظات کو بے بنیاد قرار دے کر مسترد کر دیا ہے،اس سلسلہ میں وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے گزشتہ روز اپنی پریس بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور چین کے مابین یہ تعاون بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہے، جس پر کسی کو تحفظات نہیں ہونے چاہئیں۔دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی واضح کیا ہے کہ پاکستان کے ساتھ سول نیوکلیئر تعاون پرامن مقاصد کیلئے ہے،جو عالمی قوانین کے مطابق ہے۔انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان کے ساتھ چین کے تعلقات انتہائی شاندار ہیں اور چین پاکستان کے ساتھ مضبوط اور دو طرفہ طور پر فائدہ مند تعاون برقرار رکھے ہوئے ہے۔چین کے نائب وزیراعظم کے حالیہ دورۂ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چین توانائی سمیت مختلف شعبوں میں باہمی طور پر مفید جذبے کے تحت پاکستان کے ساتھ کام کرنے پر تیار ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کے معاہدے اور اسے جدید ایٹمی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی فراہمی سے بھارت کے ہاتھوں پاکستان ہی نہیں،چین اور بھارت کے دیگر پڑوسیوں کی سلامتی کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا تھا،جبکہ امریکہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اسے علاقے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے اور اسکے ذریعے پاکستان کے علاوہ چین اور ایران کو بھی اپنے دبائو میں رکھنا چاہتا ہے۔اس خبث باطن کی بنیاد پر ہی امریکہ نے ہمارے ساتھ بھارت جیسا ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرنے سے صاف انکار کر دیا اور دہشت گردی کے خاتمہ کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن اتحادی کے کردار کو بھی یکسر فراموش کر دیا۔اس تناظر میں امریکی بھارتی مشترکہ عزائم کا توڑ کرنے کیلئے پاکستان اور چین کے مابین امریکہ بھارت جیسا ایٹمی تعاون وقت کی ضرورت تھی،جس کیلئے چین کی جانب سے متعدد مواقع پر پیشکش بھی کی جا چکی تھی،بالخصوص اس وقت جب بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل دیپک کپور نے امریکی شہ پر پاکستان اور چین دونوں کو گیدڑ بھبکی لگائی کہ بھارت جنگی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان دونوں ممالک کے دارالحکومتوں کو 96 گھنٹے کے اندر بیک وقت مفلوج کر سکتا ہے،پاکستان چین کا باہمی دفاعی تعاون اور بھی ضروری ہو گیا۔چنانچہ گزشتہ ماہ 25 مئی کو چین کے وزیر دفاع جنرل لیانگ کونگ کے دورۂ اسلام آباد کے موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی تعاون کے سمجھوتے پر دستخط ہو گئے،جس کے تحت پاکستان اور چین کی تینوں مسلح افواج کی مشترکہ جنگی مشقیں بھی طے پا گئیں اور سول نیوکلیئر تعاون کے فروغ پر بھی اتفاق ہو گیا۔اسی کے تسلسل میں چین کے نائب وزیراعظم ژانگ ڈی جانگ نے ڈیڑھ ہفتے قبل پاکستان کا دورہ کیا اور 9 جون کو اسلام آباد میں چین اور پاکستان کے مابین سٹریٹجک تعاون کے پانچ معاہدوں پر دستخط ہو گئے،جن میں فوجی تعاون کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ بھارت امریکہ،برطانیہ،روس،فرانس اور اسرائیل سمیت متعدد ممالک کیساتھ دفاعی اور ایٹمی تعاون کے اب تک 130 معاہدے کر چکا ہے،اسکی دفاعی صلاحیتوں اور جنگی سازوسامان میں ہمارے مقابلے میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے،جس کے بل بوتے پر وہ ہمیں محض دھمکیاں ہی نہیں دیتا،ہماری سالمیت کیخلاف سازشوں میں بھی مسلسل مصروف ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر ہماری سرزمین کے اندر حملہ آور ہونے کے اسکے عزائم کا بھی متعدد مواقع پر اظہار ہو چکا ہے۔امریکہ نے آج تک اسکی جنگی جنونی سرگرمیوں اور توسیع پسندانہ عزائم کا تو کوئی نوٹس نہیں لیا،نہ کبھی تشویش کا اظہار کیا،جبکہ پاکستان چین دفاعی تعاون کے معاہدوں پر امریکہ اور بھارت کے پیٹ میں بیک وقت مروڑ اٹھ رہے ہیں اور امریکہ کی جانب سے باور کرایا جا رہا ہے کہ وہ خطہ میں امن و امان کے حوالے سے پاکستان چین اسٹرٹیجک تعاون کے معاہدوں کا سنجیدگی کیساتھ جائزہ لے رہا ہے۔
اب جبکہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی چین کے دورے پر ہیں اور اس موقع پر دونوں ممالک کی جانب سے باہمی تعلقات کو مزید مستحکم بنانے کے عزائم کا اظہار کیا جا رہا ہے جبکہ چینی وزیر دفاع نے یہ اعلان بھی کر دیا ہے کہ ہم پاکستان کے ساتھ فوجی تعلقات کو نئے عروج پر لے جائیں گے،جس کے جواب میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ تعاون کو مستحکم بنانے کا سلسلہ جاری رہے گا،تو اس موقع پر امریکہ کی جانب سے پاکستان چین ایٹمی تعاون کے معاہدوں پر تحفظات کا اظہار کرنا کھسیانی بلی کے کھمبا نوچنے کے مترادف ہے،اس لئے ہمیں امریکی تشویش کو اسی طرح نظرانداز کر دینا چاہئے،جس طرح اس نے بھارت کے ساتھ ایٹمی تعاون کا معاہدہ کرنے کے بعد ہمارے ساتھ بھی اس نوعیت کے تعاون کے معاملہ کو حقارت کے ساتھ نظرانداز کیا تھا۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ عوامی جمہوریہ چین ہمارا بہترین ہمسایہ ہی نہیں،ہمارا قابل اعتماد دوست بھی ہے،جو آزمائش کے ہر مرحلہ میں دوستی کے معیار پر پورا اترا ہے،اس نے پاکستان کیلئے جو کہا،وہ کر کے بھی دکھایا،اس لئے پاک چین دوستی کے ہمالیہ سے بلند ہونے اور شہد سے میٹھا ہونے کی جو مثالیں دی جاتی ہیں،وہ غلط ہرگز نہیں۔چین نے ہر فیلڈ میں ہمیشہ ہمارے ساتھ بے لوث تعاون کیا ہے،یہ الگ بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کا اپنی مصلحتوں اور مجبوریوں کے تحت چین کے بے لوث تعاون کے باوجود ہمیشہ امریکہ کی جانب جھکائو رہا،حالانکہ امریکہ نے دوستی کا معیار مقرر کرتے وقت ہمیشہ بھارت کو ہم پر ترجیح دی ہے،وہ دفاعی تعاون کرتا ہے تو بھارت کے ساتھ،مشترکہ جنگی مشقیں کرتا ہے تو بھارت کے ساتھ،ایٹمی ٹیکنالوجی کا تبادلہ کرتا ہے تو بھارت کے ساتھ،اور تجارتی تعاون کو فروغ دیتا ہے تو بھارت کے ساتھ،جبکہ بھارت شروع دن سے ہماری سلامتی کے درپے ہے اور مشرقی پاکستان کو ہم سے کاٹنے کے بعد بھی وہ ہماری آزادی و خودمختاری کیخلاف اپنی سازشوں سے باز نہیں آیا۔
اس تناظر میں جبکہ امریکہ ہمارے دشمن اول کو علاقائی تھانیدار بنانا چاہتا ہے اور اسے جدید ایٹمی ٹیکنالوجی سمیت دفاعی حربی سامان سے لیس کر رہا ہے،ہمیں اس خطہ میں اس کا فرنٹ لائن اتحادی بنے رہنے کی کیا ضرورت ہے جبکہ ہماری سلامتی کیخلاف امریکہ اور بھارت کے عزائم بھی مشترکہ ہیں،امریکہ بھارت اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ کے توسیع پسندانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں رہے اور خود چین بھی امریکہ بھارت تعاون سے اپنے لئے خطرہ محسوس کر رہا ہے تو اس کا توڑ پاکستان چین دفاعی اور ایٹمی تعاون کو فروغ دے کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے باہمی ایٹمی تعاون ہماری ہی نہیں،چین کی بھی ضرورت ہے اس لئے پاکستان کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے اور پاکستان چین دوستی کو کاغذوں تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ اب یقین و عمل کے مراحل سے بھی گزار لینا چاہئے کیونکہ پاکستان چین دفاعی تعاون اس خطے کی ہی نہیں،عالمی امن کی بھی ضمانت بن سکتا ہے،جس سے امریکہ کا سپرپاور کا زعم بھی توڑا جا سکتا ہے اور بدمست ہاتھی بھارت کا نشہ بھی ہرن کیا جا سکتا ہے۔پاک چین دوستی زندہ باد ہی نہیں،شاد و آباد بھی ہے اور ہماری سلامتی اور چین کے دفاع کی ضامن بھی۔
 "روزنامہ جسارت"
خبر کا کوڈ : 28647
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش