0
Tuesday 4 Mar 2014 01:16

وحدت اسلامی میں حائل رکاوٹیں اور انکا سدباب (1)

وحدت اسلامی میں حائل رکاوٹیں اور انکا سدباب (1)
تحریر: ثاقب اکبر

امت مسلمہ کے زوال و انتشار اور تقسیم در تقسیم پر اگر ایک مومن کا دل غم زدہ نہ ہو تو پھر وہ مومن ہی کیا ہے، لیکن اس زوال و انتشار کی وجوہ کیا ہیں، ان کا کھوج لگائے بغیر اس غم کا مداوا ممکن نہیں۔ ہم نے ایک عمر اس موضوع پر غور و فکر، تبادلۂ خیال اور مطالعہ کیا ہے۔ زیر نظر سطور میں ہم اس مسئلے کے اپنی دانست میں بنیادی نکات عرض کریں گے اور اہل نظر سے خواہش کریں گے کہ وہ بھی اس پر اپنا نقطۂ نظر بیان کریں، تاکہ تبادلۂ خیال کا سلسلہ جاری رہ سکے۔

1۔ تمام انبیاء کی تعلیمات کے مشترکات الٰہی اور آسمانی دین کی بنیاد ہیں اور یہی آسمانی دین کی آفاقی تعلیمات ہیں جن میں ہرگز کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوسکتی۔ یہ کائنات اتفاقیہ نہیں بنی، اس کا کوئی مالک ہے جو قادر و علیم ہے، ہر تعریف کا حق دار ہے اور ہر عیب سے پاک ہے۔ انسان کی مادی زندگی کے خاتمے کے بعد زندگی کا تسلسل کسی اور شکل میں جاری رہے گا اور انسان اپنی نیتوں اور عملوں کا نتیجہ ضرور دیکھے گا۔ اللہ نے انسان کی ہدایت کے لیے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا اور خود اس کی تخلیق کو ایسی فطرت پر استوار کیا کہ جو داخلی طور پر انسان کو حق و باطل میں تمیز کی صلاحیت بخشتی ہے۔ سارے بندے خدا کے بندے ہیں اور انسانی معاشرے میں انسان کو اس طرح سے رہنا چاہیے کہ دوسروں کے لیے شر کا باعث نہ بنے بلکہ دوسروں کے لیے خیر کا سرچشمہ قرار پائے۔
 
الٰہی روح کا حامل ہونے کی وجہ سے انسان اشرف المخلوقات ہے اور اسے فاعل مختار بنا کر بھیجا گیا ہے، تاکہ جواب دہی کے مرحلے سے گزر سکے اور اعلٰی سے اعلٰی مقام کے حصول کا راستہ اس کے لیے کھلا رہے اور یہ اعلٰی مقام قربت الٰہی اور رضائے الٰہی کے سوا کچھ نہیں۔ کس اہل دین کو انکار ہوسکتا ہے کہ مندرجہ بالا سطور میں انبیاء کی تعلیمات کے جن مشترکہ نکات کا ذکر کیا گیا ہے وہی حقیقت دین ہیں۔ یہی دین کی اساس ہیں اور دین کا ہر معاملہ انہی نکات کی طرف پلٹ کر آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دین کی اس اساس سے صرفِ نظر کرنا ہی مسلمانوں کے لیے زوال و انتشار کی بنیاد ہے۔ اگر ہم دین کی آفاقی تعلیمات کو سامنے رکھیں تو پھر باقی چیزیں فروعی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔ ہر چیز اور ہر نظریے کو اگر ہم اس کا مناسب مقام دے سکیں تو پھر وحدت اسلامی کا ظہور مشکل نہیں رہے گا۔

2۔ وقت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے مختلف گروہوں اور ان گروہوں کے پیشواؤں نے بعض ثقافتی مظاہر اپنا لیے ہیں۔ وہ ان مظاہر ہی کو حقیقت دین سمجھ بیٹھے ہیں اور ان مظاہر کو اختیار نہ کرنے والوں کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ اس امر کی وضاحت کے لیے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف گروہ آنحضرتؐ کی میلاد کا دن مختلف انداز سے مناتے ہیں۔ ہر انداز اختیار کرنے والے کا اصرار یہ ہے کہ اسی کا طریقہ کار درست اور برحق ہے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ دوسروں کے طریقہ کار پر انگشت نمائی بھی کرتا ہے۔ یہی حال نبی کریمؐ کے نواسے امام حسینؑ کی یاد منانے کے طریقوں کا بھی ہے۔ اس سے بڑھ کر اب تو مختلف گروہوں کی مختلف طرح کی ٹوپیاں، مختلف رنگوں کے جبے اور قبے مختلف انداز کے عمامے اور مختلف طرح کی عبائیں اور قبائیں مختلف انداز کی پگڑیاں، مختلف طرح کی شلواریں، ٹوپیوں کے مختلف رنگ سب آہستہ آہستہ تقسیم در تقسیم کی شکل اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ آئیں تھوڑی دیر رک کر اس پر کچھ اظہار غم کرلیں۔ آئیں تفریق کی اس شکل پر کچھ آنسو بہا لیں۔ آئیں انسانی دانش و عقل کے زوال کے اس مرحلے پر کچھ ماتم کرلیں۔

3۔ تاریخ میں جو کچھ گزر چکا، وہ انسان کے لیے سبق آموز ہے۔ جب ایک قاری تاریخ کی کتاب پڑھ رہا ہوتا ہے تو وہ تاریخ کے کرداروں کے ساتھ اپنی ایک وابستگی محسوس کرنے لگتا ہے، جیسے فلم اور ڈراموں کے ہیروز کے ساتھ ناظرین کی وابستگی ہوجاتی ہے۔ ممکن ہے تاریخ کا مطالعہ کرتے کرتے ایک قاری یہ خواہش کرے کہ کاش ایسا نہ ہوتا، کاش یہ واقعہ یوں ہوا ہوتا، لیکن تاریخ تبدیل نہیں ہوسکتی۔ انسان کی خواہش کتنی ہی شدید کیوں نہ ہو تاریخ گزرے ہوئے زمانے کا نام ہے۔ آپ اپنے آج اور آنے والے کل کو تبدیل کرسکتے ہیں، ماضی سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں، لیکن ماضی کو بدل نہیں سکتے۔ افسوس مسلمانوں کے مختلف گروہ تاریخ کے مختلف موڑوں پر اور مختلف چوراہوں پر پڑاؤ ڈالے بیٹھے ہیں۔ انھیں تبدیل کرنے کی تمنا لیے صدیوں سے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ ہمیں یہ جاننا چاہیے کہ تاریخ کے کسی مرحلے یا واقعے پر ہم اپنی رائے تو رکھ سکتے ہیں، اس واقعے اور اس کے کرداروں کے بارے میں نظریہ تو قائم کرسکتے ہیں اور ان سے کسب عبرت بھی کرسکتے ہیں، لیکن اسے تبدیل کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
 
آنحضرتؐ کے بعد صدر اسلام میں خلافت کے مسئلے پر پیش آنے والے اختلاف کو ہم بطور مثال عرض کرسکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی مرتضٰی نے خلافت کے مسئلے پر خاندان رسولؐ کو نظرانداز کئے جانے اور حضرت ابو بکرؓ کے انتخاب پر اعتراض کیا تھا، لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انھوں نے تینوں خلفاء کے خلاف قیام نہیں کیا اور جب بھی انھوں نے کسی مشورے کے لیے پکارا یا کسی اجتماعی مسئلے میں مدد چاہی تو حضرت علی ؑ نے دریغ نہیں کیا۔ تاریخ صدیوں بعد بہت آگے بڑھ چکی ہے اور آج مسلمان جغرافیائی لحاظ سے ستاون مسلم ممالک میں تقسیم ہیں۔ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد غیر مسلم ممالک میں زندگی گزار رہی ہے۔ بڑی طاقتیں ان کے وسائل پر پنجے گاڑے ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر امت مسلمہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم تاریخ میں پیش آنے والے واقعات اور سانحات سے سبق سیکھ لیں اور اپنے آج اور آنے والے کل کو سنوارنے کے لیے اکٹھے ہو جائیں۔

4۔ ہمارے ہاں موجودہ اختلافات کی ایک وجہ دوسروں کے بارے میں درست آگاہی کا نہ ہونا ہے۔ عام طور پر کسی ایک مسلک کا خطیب یا مقرر دوسرے مسلک کے بارے میں جو کچھ بیان کرتا ہے، لوگ اسی کو اس مسلک کا نظریہ اور عقیدہ سمجھ لیتے ہیں اور اس کے لیے خود سے تحقیق کرنے یا جاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ عین ممکن ہے خطیب یا مقرر جو کچھ کہہ رہا ہو وہ بالکل غلط ہو یا جزوی طور پر غلط ہو۔ اس مسئلے کے حل کا ایک راستہ یہ ہے کہ اگر ہم کسی مسلک کا کسی خاص مسئلے میں عقیدہ جاننا چاہتے ہوں تو اسی مسلک کے ذمہ دار علماء سے رجوع کریں۔ خود ہمارے اردگرد بھی ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو اس مسلک سے تعلق رکھتے ہوں، ان سے بھی بات کی جاسکتی ہے۔ اس طریقے سے بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے گا۔ 

اس کی مثال ایک گروہ کا یہ کہنا ہے کہ شیعہ قرآن حکیم میں تحریف کے قائل ہیں۔ پاکستان میں شیعہ سنی مل جل کر رہتے ہیں، جس سنی کو اس مسئلے میں اپنے کسی خطیب کی بات سن کر شک پیدا ہو، وہ شیعوں کی مسجد میں جاسکتا ہے، شیعوں کی امام بارگاہ میں جاسکتا ہے، وہاں اس کو بڑی تعداد میں قرآن حکیم مل جائیں گے۔ وہ آسانی سے اٹھا کر دیکھ سکتا ہے کہ اس کے اور شیعوں کے قرآن میں کیا فرق ہے۔ وہ یہ جان لے گا کہ شیعہ اور سنی کے قرآن حکیم میں کوئی فرق نہیں اور پھر اس کو یہ بھی انداز ہوجائے گا کہ جس خطیب یا مقرر نے یہ بات کہی ہے اس کے مقاصد مثبت نہیں بلکہ منفی ہی ہوسکتے ہیں۔ شیعوں نے قرآن حکیم پر بہت سی تفاسیر لکھی ہیں۔ دنیا میں متعدد شیعہ اکثریت کے ممالک ہیں، جن میں شب و روز قرآن حکیم کے یہی نسخے شائع ہو رہے ہیں جو عامۃ المسلمین کے ہاں چھپتے ہیں۔ شیعہ قاری اور حفاظ اسی قرآن کو پڑھتے ہیں
۔۔۔۔۔ جاری ہے۔۔۔
خبر کا کوڈ : 357515
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش