0
Tuesday 21 Sep 2010 12:27

پاک امریکا تعلقات،پرانے انکشافات،نئی دستاویزات!

پاک امریکا تعلقات،پرانے انکشافات،نئی دستاویزات!
پاک امریکا تعلقات کی 63 سالہ تاریخ میں نشیب ہی نشیب نظر آتے ہیں،شاید ہی کسی دور میں فراز آیا ہو۔اگر آیا بھی ہو گا تو اُس میں بھی خالصتاً امریکی مفاد ہو گا۔ذرا تصور تو کیجیے،جو ملک مشکل و مصیبت کی گھڑی کو بھی ہتھیار کے طور پر اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتا ہو،وہ کسی ملک کے لیے کیسے فراز ثابت ہو سکتا ہے!اور اگر وہ ملک اسلامی ہے تو پھر امریکا اس کی مکمل تباہی کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
نائن الیون پاک،امریکا تعلقات میں نحوست کی ایک ایسی گھڑی ثابت ہوا کہ پاکستان نشیب کے بجائے امریکی غلامی کی ایسی دلدل میں دھنس گیا،جس سے نکلنے کے لیے ایک ہمہ گیر اور طویل المدت آزادی کی تحریک کی ضرورت ہے۔نائن الیون کے بعد پاک امریکا تعلقات سے متعلق وقتاً فوقتاً مختلف انکشافات سامنے آتے رہے ہیں،ان انکشافات میں وہ معروف انکشاف بھی شامل ہے،جس میں امریکا نے ٹیلی فون پر دھمکی دی تھی کہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دیا تو پتھر کے دور کا بنا دیں گے۔اس دھمکی کے جواب میں ہماری مسلح افواج کے کمانڈر انچیف جنرل پرویز مشرف لیٹ گئے اور وطن عزیز امریکا کے حوالے کر دیا۔
 نائن الیون کے بعد پاک امریکا تعلقات سے متعلق جو انکشافات زبانی کلامی سنتے رہے تھے وہ اب باقاعدہ دستاویزات کی صورت میں سامنے آ رہے ہیں۔14 ستمبر کو ”یو ایس نیشنل سیکورٹی آرکائیو“ نے 2001ء میں سابق سیکریٹری آف اسٹیٹ کولن پاول کی ان تحریری یادداشتوں کو جاری کیا ہے جو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے نام ہیں۔ان تحریری یادداشتوں پر مبنی دستاویزات کا موضوع ”پاک امریکا تعلقات“ ہے۔ان دستاویزات میں دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام و اداروں کے درمیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے تعاون،پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ،پاکستان کی جانب سے ایٹمی مواد کے پھیلاﺅ کی روک تھام،اقتصادی و معاشی تعاون اور طویل المدتی اسٹریٹجک پارٹنر شپ کے پیام و پیغامات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
ان دستاویزات میں سابق پاکستانی فوجی ڈکٹیٹر جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف کی جانب سے مذکورہ امریکی منصوبوں اور مفادات کی حمایت کا بھی حوالہ دیا گیا ہے،جس میں امریکا کے اتحادی کی حیثیت سے طالبان کی حمایت و سرپرستی سے دست برداری،دہشت گردوں اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے اور مغرب مخالف عناصر کے خلاف کارروائی شامل ہے۔5 نومبر 2001ء کی جاری شدہ اس دستاویز میں افغانستان میں پاکستان کے مفادات اور اس کی دلچسپی کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے،جبکہ 30 نومبر 2001ء کی دستاویز میں اسلام آباد میں امریکی سفیر نے واشنگٹن کو مشورہ دیا تھا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی حمایت کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی،اس لیے امریکا کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان کی فراخدلی کے ساتھ مدد جاری رکھنی چاہیی،پاکستان میں ایک امریکا نواز حکومت کی موجودگی کے لیے بہتر طریقہ عوامی حمایت ہے،اور عوامی حمایت کے لیے امریکی امداد ضروری ہے۔جبکہ ایک اور یادداشت میں پاکستان کی جانب سے طالبان سے مفاہمت کے مشورے کو امریکا کی جانب کلیتاً مسترد کیے جانے کا بھی تذکرہ موجود ہے۔ ایک اور یادداشت میں قبائلی علاقوں کے کردار کا بھی تذکرہ موجود ہے،(تفصیل کے لیے دیکھیے ڈان 15 ستمبر میں صفحہ 12)۔
 جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ یہ انکشافات نئے نہیں ہیں،البتہ دستاویزات نئی ہو سکتی ہیں۔پاک امریکا تعلقات سے متعلق پرانے انکشافات پر مبنی نئی یادداشتوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکا نے افغانستان میں طالبان کی حکومت اور افغان مسلمانوں کے خلاف طاقت اور دولت کے بل بوتے پر پاکستان کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور پاکستان کی فوجی قیادت یقینی طور پر امریکا کے لیے استعمال ہوئی۔پاکستان کی فوجی قیادت نے امریکی مفادات کے لیے سب کچھ داﺅ پر لگادیا،مگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔پاکستان کی آزادی،خودمختاری اور معیشت تباہ ہو چکی ہے،غربت اور مہنگائی سے پریشان عوام خودکشیوں پر مجبور ہیں،لیکن اب بھی موجودہ سول اور فوجی قیادت نے ہوش کے ناخن نہیں لیے اور وہ امریکا کی کاسہ لیسی میں مصروف ہیں۔پاکستان کی سالمیت اور اس کے عوام کی بھلائی اس میں ہے کہ قوم امریکی شکنجہ غلامی سے آزادی کے لیے اُٹھ کھڑی ہو اور امریکا کے ایجنٹ حکمرانوں سے نجات حاصل کرے۔
خبر کا کوڈ : 37781
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش