0
Tuesday 9 Dec 2014 18:10

انتہا پسندی اور تکفیریت کیخلاف عالمی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ

انتہا پسندی اور تکفیریت کیخلاف عالمی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ
تحریر: ثاقب اکبر
  
اسلامی جمہوریہ ایران کے مقدس اور علمی شہر قم میں 23 و 24 نومبر2014ء کو انتہا پسندی اور تکفیریت کے خلاف علمائے اسلام کی ایک عالمی کانفرنس منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کے داعی عالم تشیع کے نامور اور ممتاز فقیہ حضرت آیت اللہ العظمٰی ناصر مکارم شیرازی تھے، جب کہ اس کے علمی شعبے کی سربراہی دوسرے ممتاز فقیہ اور مرجع حضرت آیت اللہ العظمٰی جعفر سبحانی کے ذمہ تھی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر کے 80 سے زیادہ ممالک سے مسلمان علماء، دانشور اور مفکرین نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس پوری تاریخ اسلام میں اپنی نوعیت کی ایک منفرد کانفرنس تھی۔ 25 نومبر کو اس کانفرنس کے شرکاء نے تہران میں انقلاب اسلامی کے رہبر معظم حضرت آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای سے ملاقات کی۔ ہمیں بھی اس کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ ہم پیش نظر سطور میں دیگر امور سے قطع نظر اپنے قارئین کی خدمت میں اس کانفرنس کا اختتامی اور مشترکہ اعلامیہ پیش کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعلامیہ عالم اسلام کے اس حساس موقع پر ایک تاریخی بلکہ تاریخ ساز دستاویز اور مشترکہ موقف کی حیثیت رکھتا ہے۔
 
مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے: آج کے عالمی حالات میں جبکہ امت اسلامیہ کو بین الاقوامی سطح پر اس کے شایان شان مقام حاصل ہونا چاہیے تھا، باعث افسوس ہے کہ وہ اپنے تلخ ترین اور مشکل ترین دور سے گزر رہی ہے۔ انتہا پسند اور تکفیری تحریکوں نے اپنے اقدامات سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کر رکھا ہے۔ ان کی وجہ سے عالم اسلام کے حقیقی مسائل نظروں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ ان کے کاموں سے دشمن کا محاذ قوی ہوا ہے، اسلامی ممالک پر ان کی گرفت مضبوط ہوئی ہے اور امت کے وسائل کو لوٹنے کے جاری سلسلے کو مدد ملی ہے۔ ان تحریکوں نے مسلمانوں اور بے گناہ انسانوں کی جان، مال اور عزت کو اپنے لئے مباح کررکھا ہے۔ ان انتہا پسندوں اور تکفیریوں کی سنگدلی اور قساوت ان کے گمراہ کن افکار اور ظالمانہ اعمال کے ذریعے ظاہر ہو رہی ہے اور مسلمان اس کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں دین کے بزرگ علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تحریکوں کی ماہیت سے لوگوں کو آگاہ کریں، ان کے انحرافات کو واضح کریں اور دنیا والوں کے سامنے اسلام کے حقیقی معارف اور تعلیمات کوپیش کریں۔ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے: "اذا ظھرت البدع فللعالم ان یظھر علمہ واذا کتم فعلیہ لعنۃ اللہ۔" جب کوئی بدعت ظاہر ہو تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو ظاہر کرے اور ایسے موقع پر اگر وہ اپنے علم کو چھپائے گا تو اس پر اللہ کی لعنت ہوگی۔ اس حدیث کی روشنی میں علماء کو چاہیے کہ ان بدعتوں اور ان کے نقصان دہ اثرات کے ازالے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
 
’’انتہا پسند اور تکفیری گروہ علمائے اسلام کی نظر میں‘‘ کے زیر عنوان 23 و 24 نومبر 2014ء کو ایک عالمی کانفرنس کا انعقاد اسی فکر کی بنا پرکیا گیا، جس کی دعوت دو عظیم المرتبت مراجع دینی کی طرف سے دی گئی تھی۔ اس میں 80 ممالک سے سینکڑوں علماء اور مفکرین نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس شہر قم میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کی طرف سے اتفاق رائے سے جو نتائج فکر سامنے آئے اور جو فیصلے کئے گئے وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ اسلام رحمت، اخوت اور نیکی و احسان کی طرف دعوت دینے والا دین ہے۔ پیغمبر اکرمؐ نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل بتایا۔ قرآن کریم کے مطابق اسلام کے پھیلاؤ اور رسول اکرمؐ کی طرف لوگوں کے میلان کی وجہ آپ کا محبت و مہربانی پر مبنی اخلاق ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنْتَ لَھُمْ وَ لَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ (آل عمران:۱۵۹) اللہ کی رحمت سے جو آپ شفیق و مہربان ہیں اس کی وجہ سے لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہوگئے ہیں، اگر آپ سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ جاتے۔ 
لہٰذا سب مسلمانوں اور خاص طور پر علماء اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ رسول اکرمؐ، آئمہ اہل بیتؑ، مختلف مکاتب فکر کے قائدین اور علماء کی پیروی کرتے ہوئے نہ فقط مسلمانوں سے بلکہ دیگر ادیان کے پیروکاروں سے بھی صلح و دوستی کا طرز عمل اختیار کریں اور دین مبین کے چہرے کو سنگدلانہ ظاہر کرنے کی کوشش کا ہر مقام پر مقابلہ کریں۔ 


2۔ دین مبین اسلام نے مخالف افکار کے مقابلے میں حکمت، نیک نصیحت اور جدال احسن کے تین اصول مقرر کئے ہیں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (النحل:۱۲۵)
لہٰذا دیگر مکاتب اسلامی اور ادیان کے مقدسات کی توہین اسلامی آداب اور اسلامی رویے کے منافی ہے۔ مسلمانوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ انھیں چاہیے کہ جب تک دیگر ادیان کے پیروکار دین، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ نہ چھیڑ دیں، ان سے حسن سلوک اور مکالمے کا راستہ اختیار کریں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْءًا (آل عمران:۶۴)
کہیئے کہ اے اہل کتاب آؤ اس ایک بات کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان مساوی ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔
 
3۔ دین اسلام کی حیات بخش تعلیمات کے مطابق ہر وہ انسان جو شہادتین کو اپنی زبان پر جاری کرتا ہے، دین اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور اس کی جان، مال اور آبرو محترم ہو جاتی ہے اور جو کوئی بھی اسلام کا اظہار کرے، اسے اسلام اور ایمان سے خارج نہیں سمجھا جاسکتا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقآی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا(نساء:۹۴)
جو تمھیں سلام کرے، اسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔
 
4۔ اسلامی فکر کے مطابق اللہ، رسول اللہ اور آخرت پر ایمان کے اصولوں میں سے کسی کا انکار اور جو کچھ اللہ تعالٰی نے نازل فرمایا ہے اس پر ایمان اجمالی سے انکار کو کفر کہا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ لوگ جو بعض انحرافی افکار کی وجہ سے بے بنیاد بہانوں، بعض بے دلیل اعتقادات یا علمائے اسلام کی اکثریت کے نزدیک قابل قبول بعض دینی مراسم کی بنیاد پر دیگر مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں، قابل مذمت ہیں اور ان کا نظریہ مردود ہے۔ یہ انحرافی افکار چونکہ مسلمانوں میں تفرقے، دشمنوں کے مسلمانوں میں نفوذ اور خدا نخواستہ اسلامی سرزمینوں پر ان کے تسلط کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انھیں اسلام دشمن افکار کی حیثیت سے افشا کیا جائے اور ان کا مقابلہ کیا جائے، خاص طور پر علماء اور دینی مراجع کو چاہیے کہ فیصلہ کن فتاویٰ کے ذریعے تکفیر کے خلاف جہاد کریں۔
 
5۔ معاشرے میں تکفیر کا رواج مسلمانوں کی اکثریت کے نزدیک قابل نفرت رہا ہے۔ رسول اکرمؐ نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:
"یمرقون من الدین کما یمرق السھم من الرمیہ"
یہ دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔

تکفیری افکار کا آغاز پہلی صدی میں خوارج کے ذریعے ہوا۔ پھر بارہویں صدی میں یہ سلسلہ از سرنو شروع ہوا، جو عصر حاضر تک جاری ہے۔ ان تکفیری گروہوں کے ہاتھوں ہم نے عالم اسلام میں بہت مظالم دیکھے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ماضی کی طرح اب بھی اہل قبلہ کی تکفیر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور جدید فتنے کی آگ کو بجھا دیں، تاکہ اس کے نتیجے میں امت اسلامیہ کے مقدسات اور مفادات تباہ نہ ہوجائیں۔
 
6۔ اہل قبلہ کے خون، مال اور عزت و آبرو کی حرمت کے پیش نظر انھیں نقصان پہنچانا اور مسلمانوں کا قتل ناقابل معافی گناہ ہے اور یہ عمل اللہ تعالٰی کے غضب، لعنت اور عذاب کا باعث بنتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا گیا ہے:
وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(نساء:۹۳)
جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے، اس کی جزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار رکھا گیا ہے۔
اس لئے تکفیری افکار کی بنیاد پر کیا جانے والا ہر اقدام شرعی طور پر حرام ہے، جس میں خودکش حملے، بم دھماکے، دہشت گردانہ کارروائی، قتل و کشتار، اہل قبلہ کو کسی بھی قسم کی اذیت دینا اور تکلیف پہنچانا، ان کے اموال و آبرو کو مباح سمجھنا، انھیں مالی نقصان پہنچانا، گھروں اور عمارات کو تباہ کرنا اور آثار اسلامی کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ ایسے مجرمانہ اعمال دین مبین کی توہین کا باعث ہیں۔ نیز اسلام کے چہرے کو بگاڑنا اور اس کی سنگدلانہ تصویر پیش کرنا، شدید طور پر حرام ہے۔ سب مسلمانوں پر واجب و ضروری ہے کہ وہ اس منحوس طرز عمل کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں۔ اس کی حقیقت کو لوگوں کے سامنے واضح کریں اور تکفیری فکر کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکیں۔ یہ امر باعث افسوس ہے بعض ممالک میں یہاں تک کہ بعض مدارس کے نصاب میں یہ فکر شامل ہوگئی ہے۔ انتہا پسند گروہوں کی مالی، فوجی اور سیاسی مدد کا سلسلہ بند کیا جانا ضروری ہے۔ خاص طور پر علاقے کے مختلف ملکوں کے عوام کے خلاف کرائے کے افراد کی ترسیل کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان ملکوں کے مابین روابط کو مضبوط کیا جائے اور ان کے مابین ڈائیلاگ اور باہمی تعاون مستحکم بنایا جائے۔ 

7۔ علاقائی ممالک، خاص طور پر عراق اور شام میں تکفیری گروہوں کے مظالم کی مذمت اور ان کا مقابلہ نہ کئے جانے کی صورت میں ان کے پھیلاؤ کے احتمال کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ان تکفیری گروہوں کے مظالم مسلمانوں کے قبلہ اول اور مقبوضہ سرزمین فلسطین کے دفاع کی طرف عدم توجہ کا باعث بن رہے ہیں۔ ہم قدس شریف کی غاصب صہیونی حکومت سے بازیابی کے لئے فلسطینی عوام کی مبنی برحق جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں اور اسے جائز دفاع کا ایک واضح مصداق جانتے ہیں، نیز دارالاسلام کے ایک حصے کی بازیابی کے لئے کئے جانے والے جہاد کو واجبات شرعی میں سے سمجھتے ہیں اور اس کی حمایت کرتے ہیں۔ امت اسلامی کے ہر فرد پر یہ دینی فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ تمام تر سرزمین فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کی حمایت کرے۔
 
8۔ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا اور ان کی تکفیر اگرچہ دشمن کی سازش کا بھی نتیجہ ہے، تاہم اس کی ایک وجہ بعض افراد کی جہالت اور اسلامی تعلیمات سے عدم آشنائی بھی ہے۔ اسی وجہ سے بعض افراد ان گمراہ کن افکار اور تکفیری گروہوں کی طرف مائل ہوگئے ہیں۔ اس لئے علمائے دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ فریب خوردہ مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لئے مل کر اٹھ کھڑے ہوں۔ عام مسلمانوں کو تکفیری اور انتہا پسند تحریکوں کے خطرے سے آگاہ کریں اور ان کی فکری جڑوں کو دلیل و منطق کے ذریعے اکھاڑ پھینکیں۔
 
9۔ دشمنان اسلام انتہا پسند اور تکفیری افکار سے اپنے اسلام فوبیا کے منصوبے کے لئے استفادہ کرتے ہیں اور انھیں اسلام کے پھیلاؤ کو دنیا میں روکنے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں۔ اس لئے کانفرنس میں موجود علماء پوری صراحت سے اعلان کرتے ہیں کہ تکفیری اور انتہا پسند تحریکوں اور گروہوں کا اسلام کے حیات بخش دین سے کوئی تعلق نہیں۔ ضروری ہے کہ کفر و استعمار کے خاتمے کے اسلامی جذبے کی غیرت مند مسلمان جوانوں میں تقویت کی جائے اور انھیں اپنے بھائیوں اور مسلمانوں کے خلاف کسی بھی اقدام سے روکا جائے اور اسلامی ممالک میں دشمنوں کے منصوبوں کو کامیاب ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔
10۔ ہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اسلامی مقاصد کی تکمیل اور امت اسلامی کی کامیابی کا راز وحدت اسلامی میں مضمر ہے۔ اسی راستے سے ہم دنیا میں اسلامی تہذیب کا احیاء کرسکتے ہیں اور اسلام کی حیات بخش ثقافت کو عام کرسکتے ہیں۔ تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ اور عداوت پیدا کرنے کی دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کریں۔
 
11۔ جہاں ایک طرف اسلام کے اصولوں اور تعلیمات کا تعارف ضروری ہے، وہاں مختلف مکاتب فکر کے مابین اختلافات کی ترویج کو روکنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اسلامی اصولوں اور تعلیمات کی تشریح کا کام اس کے ماہرین پر چھوڑ دینا چاہیے، جو اسے علمی مباحث کی حدود میں رکھیں۔ اس لئے تمام اہل قلم اور ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ مختلف مکاتب فکر کے عنوان سے کسی بھی سوئے استفادہ سے پرہیز کریں اور ایک دوسرے کی توہین کے سلسلے کو روکنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ مسلمانوں میں وحدت و قربت کے خلاف ہر سازش کی مخالفت کریں اور ایسی ہر سازش کو طشت از بام کریں۔ امت اسلامی کے مقدسات اور مصالح کی حفاظت کریں۔ مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار دشمنوں جن میں امریکہ اور صہیونی حکومت شامل ہیں، کے خلاف اپنی صلاحیتوں کو بروکار لائیں۔ ان ذرائع ابلاغ کا تعلق ریڈیو سے ہو یا ٹیلی ویژن سے، یا پرنٹ میڈیا سے یا پھر کسی ویب سائٹ سے، انھیں اپنی یہ ذمہ داریاں ادا کرنا چاہئیں۔
 
12۔ عالم اسلام اور اسلامی معاشروں کی راہنمائی میں علماء کے کردار کے پیش نظر اور موجودہ مشکلات سے باہر نکلنے کے لئے مناسب و مشروع تدابیر اختیار کرنے کے لئے تجویز کیا جاتا ہے کہ ’’علماء اسلام کی عالمی کونسل‘‘ تشکیل دی جائے، جو مشترکہ نقطۂ نظر اختیار کرنے، غلط فہمیوں کے ازالے اور اختلافی مسائل سے پرہیز کے لئے تدابیر کے لئے اپنا کردار ادا کرے، تاکہ علمائے اسلام کے مابین یکجہتی پروان چڑھے، نیز امت اسلامی اور عالم انسانیت کو درپیش چیلنج کے مقابلے کی راہ ہموار ہو۔ اس مقصد کے لئے ایک مستقل سیکرٹریٹ کا قیام بھی ضروری ہے، جو انتہا پسند اور تکفیری گروہوں کے خلاف جدوجہد کرسکے اور جو عالم اسلام میں اختلافات کے خاتمے کے لئے حسنِ نیت کے حامل وفود تشکیل دے کر روانہ کرے، جو ثالثی کا کردار ادا کرسکیں۔ 

مشترکہ اعلامیہ کے آخر میں کانفرنس کے شرکاء نے رہبر معظم آیۃ اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نیز ایرانی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا کہ جنھوں نے مسلمانوں کے مابین وحدت اور قربت پیدا کرنے کے لئے بے پناہ کوششیں کیں۔ علاوہ ازیں شرکاء نے مراجع تقلید حضرت آیت اللہ العظمٰی مکارم شیرازی جو اس کانفرنس کے سربراہ تھے اور حضرت آیت اللہ العظمٰی جعفر سبحانی جو کانفرنس کے علمی شعبہ کے سربراہ تھے نیز دیگر بزرگ علمائے اسلام کا بھی شکریہ ادا کیا۔
خبر کا کوڈ : 424515
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش