1
0
Friday 12 Dec 2014 11:08

عشق پر زور نہیں

عشق پر زور نہیں
تحریر: ثاقب اکبر

انسان کے سراپا پر نظر ڈالئے، پورا انسان سامنے رکھیئے۔ یہ درست ہے کہ سب سے اوپر سر ہے جس میں دماغ ہے، جو عقل کی انسان کے لئے سر بلندی اور امتیاز کی علامت ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ عقل انسان کا مابہ الامتیاز ہے، یعنی عقل انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہے۔ انسانی بدن کے تمام اعضاء کو اسی عقل کے ماتحت حرکت کرنا چاہیے۔ آنکھ دیکھنے کے لئے عقل سے پوچھے اور کان سننے کے لئے۔ اسی طرح زبان بولنے کے لئے پہلے میزانِ عقل پر تول لے۔۔۔لیکن اللہ نے انسان کو دل بھی دیا ہے۔ عقل خوبی و بدی اور اچھے برے میں تمیز کا فیصلہ تو کرسکتی ہے لیکن خیر و خوبی کی طرف حرکت اور اس کی طرف لپکنے کے لئے طلب، چاہت اور آرزو کی ضرورت ہے۔ شر و بدی سے نفرت کے بغیر اس سے بچانا عقلِ محض کے بس کی بات نہیں۔ دل محبت و نفرت، پسند ناپسند اور طلب و گریز کا مرکز ہے اور قوتِ متحرکہ فراہم کرتا ہے۔ عقل جس چیز کی اچھائی کو ثابت کردے اسے دل میں جگہ دینے کی ضرورت ہے۔
 
مسئلے کو ’’فطرت‘‘ کے زیر عنوان بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ دل حسن و جمال کا فریفتہ ہے، لیکن حقیقی حسن و جمال کی تشخیص پہلے مرحلے پر عقل کا کام ہے۔ حسنِ ناپائیدار اور خیر زود گزر کے بجائے حسنِ پائیدار اور خیرِ دائمی کا انتخاب و شناخت عقل کا کام ہے اور اس سے محبت کا رشتہ دل برقرار رکھتا ہے۔ قرآن حکیم جہاں انسان کو عقل سے کام لینے اور فکر و تدبر کو بروئے کار لانے کی ترغیب دیتا ہے، وہاں وہ دل کے کردار کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اللہ تعالٰی خود بتاتا ہے کہ اسے کس کس طرح کے انسان سے محبت ہے اور اسے کس طرح کے لوگوں سے محبت نہیں ہے۔ وہ جہاں اپنے لئے اطاعت کا طلب گار ہے، وہاں محبت کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ وہ نیکی اور نیک لوگوں سے محبت کا اظہار بھی کرتا ہے اور ان سے محبت کی دعوت بھی دیتا ہے۔ انبیاء پر درود و سلام اور خاص طور پر آخری نبی پر درود بھیجنا اور بھیجنے کا حکم دینا اظہار محبت اور طلبِ محبت ہی تو ہے۔ نبی کریمؐ کے قریبیوں سے محبت و مودت اختیار کرنے کا حکم بھی اسی پس منظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ محبت و مودت حسن و جمال سے ہوتی ہے اور یہ محبت بے ساختہ ہوتی ہے، جیسے حسین، نرم و نازک اور خوبصورت پھول کی طرف انسان بے ساختہ لپکتا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر یہ محبت و مودت اختیار کرنے کا حکم کیوں؟ ہم پہلے بھی اشارہ کر آئے ہیں کہ انسان گاہے سطح بینی اور کوتاہ نظری کی وجہ سے دھوکہ کھا جاتا ہے۔ کبھی کسی کی خیر خواہی کے جھوٹے دعوے سے فریب کھا جاتا ہے۔ آدم و ابلیس کے قصے میں یہی راز مخفی ہے۔ ابلیس نے آدم کے لئے اپنی خیر خواہی کے اظہار سے دھوکہ دیا اور انھیں جنت سے نکلوا دیا۔ انسان کبھی دنیا کی ظاہری چمک دمک سے فریب کھا جاتا ہے اور نورِ ازلی و ابدی کی پائیداری سے غافل ہو جاتا ہے۔ دنیاوی، وقتی اور ناپائیدار اقتدار کو اپنا مطمح نظر بنا لیتا ہے۔ قادر مطلق اور علی کل شیء قدیر کے اسم جمیل سے غافل ہو جاتا ہے، اس لئے اسے توجہ دلانے، متنبہ کرنے اور نظارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب اللہ تعالٰی کسی سے محبت کا تقاضا کرتا ہے تو ضرور وہ لائق محبت ہوتا ہے۔ انسان کی ذمہ داری ہے کہ اس کی اس لیاقت کو پہچانے۔ اس کی معرفت حاصل کرے۔ اس میں وہ کونسا جوہر و گوہر ہے کہ انسان کی چشم بصیرت اس پر جا پڑے تو وہ اس کا فریفتہ ہوجائے۔ یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالٰی کسی ناپائیدار چیز، ہستی یا خوبی سے محبت و مودت کا تقاضا کرے۔ آج مجھے یہ سب کچھ محبتوں کے امنڈتے دریاؤں، مودتوں کے بے کراں تلاطم اور عشق کے منہ زور سمندروں پر ایک نظر ڈالنے سے سوجھا۔
 
مفسرین کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمؐ کے اصحابؓ نے آنحضرتؐ کی خدمت میں عرض کی کہ آپ نے ہماری ہدایت کے لئے کیا کیا مشکلات اور مصائب جھیلے ہیں اور کیا کیا زحمتیں اٹھائی ہیں، ہم اس کے بدلے آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں۔ اللہ کے محبوب نے اس کے لئے اپنے پروردگار سے رجوع کیا تو جواب آیا:
قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی۔
اے نبی! ان سے کہیے کہ میں اس پر تم سے کچھ بھی طلب نہیں کرتا سوائے میرے قریبیوں سے محبت کے۔
صحابۂ کرامؓ نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ قریبی کون ہیں؟ تو فرمایا: وہ ہیں علی، فاطمہ، حسن اور حسین۔
ان دنوں انہی میں سے آخری امام حسین علیہ السلام کے اربعین کی مناسبت سے پوری دنیا میں ایک ولولہ محبت، غلغلہ عشق اور ہمہمہ مودت کروڑوں دلوں کو بے قرار کئے ہوئے ہے۔ 

20 صفر کو ہر سال پوری دنیا میں فرزند رسول سیدالشہداء امام حسینؑ کا چہلم منایا جاتا ہے۔ ویسے تو دنیا کے مختلف ملکوں اور ملکوں کے مختلف شہروں میں یوم اربعین حسینی کی مناسبت سے مجالس، جلوس اور دیگر تقریبات عزا کا اہتمام کیا جاتا ہے، لیکن سرزمین عراق ایک عجیب کیفیت سے گزرتی ہے۔ لفظوں کا عجز دیکھنا ہو تو ان مناظر کے بیان میں دیکھیئے۔ اظہار و بیان کی تنگ دامانی دیکھنی ہو تو اس کیفیت کے بیان میں دیکھیئے۔ قلم و زبان سے داستانِ عشق بیان نہیں ہوسکتی۔ پوری دنیا سے کارواں کربلا کی طرف رواں دواں ہیں۔ یہ سلسلے ویسے تو آغاز محرم الحرام کے ساتھ ہی شروع ہو جاتے ہیں اور روز عاشورا بھی کئی ملین افراد سرزمین کربلا پر پیغمبر اکرمؐ کی تاسی میں ان کے سبط اصغر اور پیارے نواسے پر آنسو بہانے کو جمع ہوتے ہیں، لیکن اربعین حسینی پر کربلا میں حاضری کا اشتیاق عجیب مناظر تخلیق کرتا ہے۔
 
بصرہ سے کربلا تک کا پیدل سفر تقریباً پندرہ دن پر محیط ہوتا ہے۔ بصرہ سے پاپیادہ قافلے اسی مناسبت سے کربلا کا رُخ کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ سرزمین عراق کے بیسیوں شہروں اور سینکڑوں قصبوں سے اسی طرح کاروان نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ عراق سے باہر سے کئی ملین اربعین حسینی کے موقع پر سرزمین کربلا میں حضوری کے شرف کی تمنا لئے اس سرزمین کا رخ کرتے ہیں۔ ان میں سے کئی لاکھ افراد پہلے نجف اشرف میں امام علیؑ کی قدم بوسی کرتے ہیں اور پھر کربلا کی طرف پیدل روانہ ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی اسی کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور تین چار روز میں قافلے عموماً نجف اشرف سے کربلائے معلی میں پہنچتے ہیں۔
 
شاید کوئی سمجھے کہ یہ قافلے جوانوں پر مشتمل ہوتے ہوں گے۔ نہیں ایسا نہیں، ان قافلوں میں جوان بھی ہیں، بوڑھے بھی، بچے بھی اور عورتیں بھی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کتنی ہی خواتین کو دیکھا ہے کہ وہ اپنے ان بچوں کے ہمراہ عازمِ کربلا ہیں کہ جو ابھی پیدل نہیں چل پاتے، انھیں ان کی ماؤں نے ہتھ گاڑی میں ڈال رکھا ہے اور عزم و استقامت، بلکہ عشق و وارفتگی کا نمونہ بنے اپنے مولا حسینؑ کی طرف کشاں کشاں رواں دواں ہیں۔ میری نظروں نے انتہائی بوڑھی خواتین کو بھی دیکھا ہے جو عصا ہاتھ میں لئے انسانی ارادے کی اعجازی قوت کا مظہر بنی قدم اٹھائے جا رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں میں نے معذوروں کو بھی دیکھا ہے کہ وہ اپنی زندگی کی ہر محرومی کو بھول کر محبت و عقیدت کے پھول فرزند رسول پر نچھاور کرنے کے لئے بے قرار ہیں اور کربلا کا رخ کئے ہوئے ہیں۔ ان میں نابینا بھی ہیں اور ایسے اپاہج بھی جو اپنے پاؤں پر نہیں چل سکتے بلکہ اپنے ہاتھوں کے سہارے پر کربلا کی طرف جاتی شاہراہوں کے کناروں پر داستان عزیمت رقم کر رہے ہیں۔
 
ایک نظر ان کی طرف بھی ڈالئے جو امام حسینؑ کے ان زائروں کے راستے میں آنکھیں فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔ عراق میں کربلائے معلٰی کی طرف جانے والے ہر راستے میں عراقی عوام ان زائروں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ کوئی کھانا پیش کر رہا ہے، کوئی پانی پلا رہا ہے، کوئی کھجوریں بانٹ رہا ہے۔ دو رویہ سڑکوں میں سے ایک پر خیمے لگے ہیں، کرسیاں بچھی ہیں، قالینیں بچھی ہیں، کھانے پک رہے ہیں۔ چونکہ یہ ہر سال کا قصہ ہے۔ بہت سے اہل خیر نے راستوں پر عمارتیں تعمیر کرلی ہیں۔ بڑے بڑے ہال بنا لئے ہیں، واش رومز بنائے ہیں۔ زائرین کے آرام کے لئے اہتمام کیا ہے۔ پیسے وصول کرنے اور کاروبار کے لئے نہیں۔ یہ اللہ سے تجارت کا بازار ہے۔ اس اجر رسالت کی ادائیگی کا اجر اللہ سے پانا ہے، لیکن کاروبار و تجارت کس کے وہم و خیال میں ہے۔ محبت تو انسان کو خود بے قرار کر دیتی ہے۔ اس محبت و مودت کے لئے تو اللہ نے دلوں کو چن لیا ہے۔
این سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ 
ایسے عراقی بھی ہیں جو رات پڑ جائے تو زائرین سے درخواست کرتے ہیں کہ رات ہمارے ہاں بسر کیجیے۔ پھر جو زائرین ان کے گھر پر چلے جائیں، ان کی ایسی محبت سے خدمت کرتے ہیں کہ بیان میں نہیں سما سکتی۔ تھکے ہوئے زائرین کے پاؤں گرم پانی سے دھلاتے ہیں۔ انھیں سلا کر رات بھر جاگتے ہیں۔
 
گذشتہ کئی برسوں سے امام حسینؑ کے چہلم پر کربلا میں پہنچنے والے زائرین کی تعداد بلا مبالغہ کروڑوں تک جا پہنچتی ہے۔ گذشتہ برس کے اعداد و شمار ساڑھے تین کروڑ تک پہنچتے تھے۔ اب کے برس کیا ہوتا ہے یہ مناظر بھی فلک اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔۔۔ داعش اور القاعدہ کا خوف ان کاروانوں کے لئے سدراہ ہے اور نہ طول و طویل مسافتیں، نہ راستے کی سختیاں ان کی راہ روک پاتی ہیں اور نہ کوئی اور عذر۔۔۔ کربلا کیا ہے۔ ایک ناقابل وصف قوت کار، ایک ناقابل بیان قوت کشش، ایک طاقت ہے، ایک جذبہ ہے، ایک ولولہ ہے کہ امنڈتا ہی چلا جاتا ہے۔
سچ فرمایا تھا ام المصائب اور شریکۃ الحسینؑ زینب کبریٰ نے۔۔۔ دمشق میں، دربار یزید میں، رسن بستہ حالت میں، یزید کی ایک بات کے جواب میں:
تم نے غلط کہا یزید کہ جو ہونا تھا ہوچکا، جو ہوا ہے وہ ہونے والے کی تمہید ہے۔۔۔
میں عرض کروں گا: بی بی! آپ سے سچ فرمایا، آپ کی کربلا آگے کی طرف بڑھ رہی ہے، ایک عالمی انقلاب کی طرف، اس کی پیش قدمی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
خبر کا کوڈ : 425143
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عامر سجاد
Pakistan
بالکل درست۔ میں ناچیز بھی اسی سفر میں تھا اور میں نے اس سے بڑھ کر جذبات و احساسات دیکھے۔
ہماری پیشکش