0
Sunday 14 Dec 2014 23:34

زینب بنت علی سلام اللہ علیہا پیامبر کربلا (1)

زینب بنت علی سلام اللہ علیہا پیامبر کربلا (1)
تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

کربلا وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں ہر انسان کے لئے جو جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتا ہو اور جس نوعیت کی ہو درس ملتا ہے یہاں تک غیرمسلم ہندو، زرتشتی، مسیحی بھی کربلا ہی سے درس لے کر اپنے اہداف کو پہنچے ہیں، گاندھی اپنے انقلاب کو حسین ابن علی علیہ السلام کی مرہون منت سمجھتا ہے یہ سب اس لئے کہ حسین ابن علی علیہ السلام نے کربلا کے ریگستان میں حق اور حقانیت کو مقام محمود تک پہنچایا اور قیامت تک ظلم اور ظالم کو رسوا کر دیا اگرچہ مادی اور ظاہری آنکھوں کے سامنے حسین ابن علی علیہ السلام کو کربلا میں شکست ہوئی لیکن حقیقت میں اور آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹ جانے والوں کی نظر میں حسین ابن علی علیہ السلام کامیاب و سرفراز رہے یہی وجہ تھی کہ حر نے اپنے آنکھوں سے فتح و شکست کو دیکھ لیا اور جب ان کی آنکھوں کے سامنے سے پردہ ہٹایا گیا تو یہ کہتے ہوئے فوج یزید سے نکل گئے۔
میں حر ہوں لشکر ایمان میں پہچان ہے میری
میرا ہونا غلام حضرت شبیر ہونا ہے


کربلا کی درسگاہ میں ہر انسان کے لئے مخصوص معلم دیکھنے کو ملتے ہیں اس عظیم درسگاہ میں چھےماہ کے بچے سے لےکر نوے سال کے افراد بھی ملتے ہیں اس کے علاوہ خواتین اور عورتوں کے لئے ایسی مائیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ ان میں سے کسی کی گود اجڑ گئی تو کسی کا جوان بیٹا آنکھوں کے سامنے خون میں غلطاں ہوا اور ایسے خواتین بھی دیکھیں کہ اپنے بچوں کو قربان کرنے کے بعد حتی ان پر روئیں بھی نہیں، بچوں کے لئے علی اصغر علیہ السلام نوجوانوں کے لئے شہزادہ قاسم علیہ السلام اور جوانوں کے لئے علی اکبر علیہ السلام ،بوڑھوں کے لئے حبیب ابن مظاہر اور دوسرے افراد، عورتوں کے لئے علی کی شیر دل شہزادیاں زینب کبرٰی سلام اللہ علیھا، ام کلثوم سلام اللہ علیھا اور دوسری خواتین معلمان راہ سعادت ہیں۔ یہ وہ کردار کے نمونے ہیں جنھوں نے قیامت تک آنے والی نسلوں کو اس عظیم درسگاہ سے فیضیاب کرایا لیکن کربلا کے ریگستان میں جب مردوں نے اپنے وظیفے پر عمل کیا تو وہاں آخری باری علی علیہ السلام کی شیر دل بیٹی کی آئی اس لئے واقعہ کربلا کو دنیا تک پہنچانا زینب و ام کلثوم علیہما السلام کی ذمہ داری تھی علی علیہ السلام کی شیردل بیٹی نے اپنی آنکھوں سے بھائی کے سر قلم ہوتے دیکھا لیکن ذرہ برابر بھی اپنے وظیفے میں کوتاہی نہیں کی، اسی لئے کربلا، کربلا کے میدان تک محدود نہیں رہے بلکہ قصر ظالم میں پہلی مرتبہ زینب کبری سلام اللہ علیھا نے ظالم کو شکست دی اور لوگوں تک اپنے خطبوں کے ذریعے پیغام کربلا کو پہنچایا اور کربلا قیامت تک سرخرو ہو گئے شاعر کہتا ہے
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب


عشق حقیقی کے یہ کردار دو افراد نے انجام دیئے ایک حسین ابن علی علیہ السلام نے اور دوسرا علی علیہ السلام کی بہادر بیٹی زینب کبرٰی علیہا السلام نے اگر کربلا میں حضرت زینب علیہا السلام کا کردار نہیں ہوتا تو عشق حقیقی کا ایک باب تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا اور کربلا کربلا ہی میں دفن ہو جاتی۔ اس مختصر مقالہ میں ہم حضرت زینب کبرٰی علیہا السلام کو بعنوان پیامبر کربلا معرفی کرنے کی کوشش کرینگے لیکن حقیقت ہے کہ سینکڑوں سال ہزاروں محقیقین اور علماء حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے بارے میں کتابیں لکھتے آ رہے ہیں لیکن یہ ایک بیکران سمندر ہے جس میں جتنا بھی غوطہ ور ہوں، انتہاء کو پہنچنا ناممکن ہے۔ ہم اس مقالے میں مختصراً چند پہلوئوں پر بحث کریں گے۔

۱۔ولادت باسعادت:
امام علی علیہ السلام اور حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کی پانچ اولاد تھیں امام حسن علیہ السلام امام حسین علیہ السلام حضرت زینب کبرٰی سلام اللہ علیہا حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا و حضرت محسن علیہ السلام ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا ۵ جمادی اول ہجرت کے پانچویں یا چھٹے سال یا شعبان کے مہینے میں ہجرت کے چھ سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئیں اور ۱۵ رجب ۶۲ ہجری میں ۵۶ یا ۵۷ سال کی عمر میں رحلت کر گئیں۔ بعض لوگ ان کی سال وفات کو ۶۵ ہجری بتاتے ہیں۔ اس اعتبار سے آپ۶۰ سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ آپکی آرمگاہ کے بارے میں محقیقین کے درمیان اختلافات ہیں لیکن معروف ترین قول دمشق ہے، جہاں ہر روز لوگ ہزاروں کی تعداد میں دنیا کے مختلف جگہوں سے حاضر ہوتے ہیں اور ان کے بارگاہ اقدس سے مستفیض ہوتے ہیں ۔ محمد بحر العلوم کہتے ہیں، اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ سورج کہاں غروب ہو چاہیئے، جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ یہ ہےکہ اس سورج کی شعاعیں جو روشنی بخش ہیں اور قیامت تک غروب نہیں ہونگی، اس کی روشنی سے دنیا کے لوگ ان شعاعوں سے مستفید ہوتے آرہے ہیں۔ ان کا مشہور ترین نام زینب ہے جو لغت میں "نیک منظر درخت" کے معنی میں آیا ہے۔ [2] اور اس کے دوسرے معنی "زین أَب" یعنی "باپ کی زینت" کے ہیں۔ متعدد روایات کے مطابق حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا نام پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا۔ البتہ آپؐ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ زہرا علیہما السلام کی بیٹی کو وہی نام دیا جو جبرائیل خدا کی طرف سے لائے تھے۔ [3] جب رسول اللہ (ص) نے ولادت کے بعد انہیں منگوایا تو ان کا بوسہ لیا اور فرمایا میں اپنی امت کے حاضرین و غائبین کو وصیت کرتا ہوں کہ اس بچی کی حرمت کا پاس رکھیں؛ بےشک وہ خدیجۃ الکبری (س) سے مشابہت رکھتی ہے۔ [4]

2۔ شریک حیات اور اولاد:
شرم و حیا عبداللہ بن جعفر کی راہ میں رکاوٹ تھی اور وہ حضرت علی علیہ السلام کی بیٹی سے شادی کرنے کے ارادہ ظاہر نہیں کر سکتے تھے؛ بالآخر ایک شخص نے عبداللہ کا پیغام حضرت علی علیہ السلا م کو پہنچایا اور کہا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جعفر بن ابی طالب سے کس قدر محبت کرتے تھے اور ایک روز آپؐ نے جعفر طیار کے بچوں کی طرف دیکھا اور فرمایا، "ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے لئے ہیں اور ہمارے لڑکے ہماری لڑکیوں کے ہیں؛ چنانچہ بہتر یہی ہے کہ آپ اپنی بیٹی زینب (سلام اللہ علیہا) کا نکاح عبداللہ بن جعفر سے کرائیں اور بیٹی کا مہر ان کی والدہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) کے مہر کے برابر 470 درہم قرار دیں۔ علی (ع) نے رشتہ قبول کیا اور یہ رشتہ اور نکاح 17ہجری کو انجام پایا اور بہت جلد عبداللہ بن جعفر علی (ع) کی دعا سے فراواں مال و دولت کے مالک ہوئے اور جود و سخا کی بنا پر "جواد کریم" کے لقب سے مشہور ہوئے۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے نکاح نامے میں شرط رکھوائی کہ آپ حسین (علیہ السلام) سے شدید محبت کی بنا پر ہر روز انکا دیدار کرنے جائیں گی اور سفر کی صورت میں بھائی کے ہمراہ جائیں گی اور جناب عبداللہ نے دونوں شرطیں مان لیں۔ [5] خدا نے حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) اور عبداللہ کو پانچ اولادیں عطا فرمائیں، چار بیٹے (علی، عون، عباس اور محمد) اور ایک بیٹی (ام کلثوم)۔ [6]

3۔ فضائل:
خاندان پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام میں پلنے والے تمام مرد و عورت صاحب فضیلت ہیں اور ہر ایک دوسروں کے لئے نمونہ ہیں ان افراد میں سے ایک زینب کبری ہے جنہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم و علی علیہ السلام و زہراء سلام اللہ علیہا کی آغوش میں پرورش پائی ان کی فضیلت اس مختصر مقالے میں ذکر کرنا ممکن نہیں لیکن کچھ فضائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

1۔ علم:
حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی طرف سے کوفہ، ابن زياد کے دربار نیز دربار یزید میں آیات قرآنی پر استوار عالمانہ کلام و خطبات، سب آپ کی علمی قوت کے ثبوت ہیں۔ آپ نے اپنے والد حضرت علی علیہ السلام اور والدہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے احادیث بھی نقل کی ہیں۔ [7] علاوہ ازیں والد ماجد امیرالمؤمنین علیہ السلام کی خلافت کے دور میں کوفی خواتین کے لئے آپ کا درس تفسیر قرآن بھی حضرت زينب سلام اللہ علیہا کی دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔ [8] حضرت زينب سلام اللہ علیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور علی و زہراء علیہما السلام کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسول (ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت و بیان حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔ [9]
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے حضرات معصومین علیہم السلام سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں منجملہ شیعیان آل رسول (ص) کی منزلت، حب آل محمد، واقعۂ فدک، ہمسایہ، بعثت وغیرہ۔

2۔ فصاحت و بلاغت:
حضرت زینب کبرٰی سلام اللہ علیہا کی فصاحت و بلاغت کا شاہکار ان کے خطبوں سے نظر آتا ہے مخصوصا جو خطبہ ابن زیاد کی مجلس میں آپ نے دیا اس سے اسی وقت کے لوگ بھی انگشت بہ دنداں ہوئے تھے اور یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے تھے کہ آج گویا علی ابن ابی طالب علیہ السلام زندہ ہو کر خطبہ دے رہے ہیں، آپ کی فصاحت اور بلاغت میں عرب میں مشہور تھی۔ اسی اثناء میں ایک عمر رسیدہ مرد نے روتے ہوئے کہا، میرے ماں باپ فدا ہوں ان پر جن کے بوڑھے بہترین بوڑھے، ان کے اطفال بہترین اطفال اور ان کی خواتین بہترین خواتین اور ان کی نسل تمام نسلوں سے والاتر و برتر ہیں۔[10}

3۔ زہد و عبادت:
حضرت زینب كبری سلام اللہ علیہا راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں کبھی بھی تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔ [11] آپ کی شب بیداری اور نماز شب عاشور اور شام غریباں کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔ فاطمہ بنت الحسین سلام اللہ علیہا کہتی ہیں، شب عاشور پھوپھی زینب سلام اللہ علیہا مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔ [12] خدا کے ساتھ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ امام حسین علیہ السلام نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا، یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل"۔ (ترجمہ، میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔ [13}

4۔ تدبیر اور مدیریت:
کاروان حسینی کی مدیریت و سرپرستی واقعہ عاشورا کے بعد آپ کے ذمہ پر ہی تھی اور امام حسین علیہ السلام نے آخری وداع میں اسی صلاحیت اور مدیریت کے پیش نظر اہل حرم کو آپ کے سپرد کیا تھا۔

5۔ شجاعت و حماسہ:
اس بات کی شاہد حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی وہ مقاومت ہے جو حیوان صفت دشمنوں کے مقابلے میں آپ نے کی تھی۔

6۔ صبر و استقامت:
آپ کے صبر و استقامت کو ملاحظہ کرنے کے لئے وہی حوادث و مشکلات کافی ہیں جو عاشورا کے دن پیش آئیں آپ صبر و ایثار کی پیکر تھیں۔ ایک لطیف روحیہ کے مالک ہونے کے باوجود حریم رسول کا آپ نے بہترین دفاع کیا دوسری طرف بہتر ۷۲ عزیزوں کو کھو چکی ہیں۔ عزیز افراد کے بدن کو قطع قطع کیا گیا ہے اور ان کی لاشوں پر گھوڑے دوڑائے جا رہے تھے اسیروں، بیماروں اور یتیموں کی ذمہ داریاں بھی آپ پر تھیں۔ ان تمام سختیوں کے باوجود بھائی کے ناتمام کردار کو تکمیل تک پہنچانے میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت زینب (سلام اللہ علیہا) صبر و استقامت کی وادی میں بےمثل شہسوار تھیں۔ جب بھائی حسین (علیہ السلام) کے خون میں ڈوبے ہوئے جسم کے سامنے پہنچیں تو رخ آسمان کی طرف کرکے عرض کیا،بار الہٰا! اس چھوٹی قربانی اور اپنی راہ کے مقتول کو ہم آل رسول (ص) سے قبول فرما۔ [14}

ایک محقق کا کہنا ہے کہ زینب (س) کے القاب میں سے ایک "الراضية بالقدر والقضاء" ہے اور اس مخدَّرہ نے شدائد اور دشواریوں کے سامنے اس طرح سے استقامت کرکے دکھائی کہ اگر ان کا تھوڑا سا حصہ مستحکم پہاڑوں پر وارد ہوتا تو وہ تہس نہس ہو جاتے، لیکن یہ مظلومہ بےکسی، تنہائی اور غریب الوطنی میں "كالجبل الراسخ..." (مضبوط پہاڑ کی مانند) تمام مصائب کے سامنے استقامت کی۔ [15} آپ نے بارہا امام سجّاد علیہ السلام کو موت کے منہ سے نکالا، منجملہ ابن زیاد کی مجلس میں، جب امام سجّاد علیہ السلام نے عبیداللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا۔ اس اثناء میں حضرت زینب (س) نے اپنے ہاتھ بھتیجے کی گردن میں ڈال دیئے اور فرمایا، "جب تک میں زندہ ہوں تم کو، انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔ [16]

7۔ ملکہ کرامت:
کرامت ایک خدائی عطیہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا، [ولقد کرمنا بنی آدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔] اسراء۷۰؛ اس قیمتی خدائی عطیہ کی حفاظت اور کم قیمت میں اسے بیچ نہ دینا ان وظائف میں سے ایک ہے جسے عقل و شرع نے انسان کو ذمہ دار بنایا ہے۔ عاشور کے دن کرامت و شخصیت انسان کی پاسداری اور شجرہ طیبہ کا دفاع انجام پائے، واقعہ کربلا کے بعد دشمن نے کوشش کی کہ کاروان حسینی کو تحقیر کرے اور ان کا مذاق اڑائے تا کہ ان سے انتقام لے لیں لیکن حضرت زینب سلام اللہ علیھا پیامبر انقلاب و عاشورا نے ان کے اس قصد کو ناکام بنا دیا اور حقیقی معنوں میں شخصیت و کرامت انسانی کی پاسداری کی اور سپاہ یزید میں بارہا آپ نے یہ اعلان کیا اس واقعہ میں ہم نے عزت و کرامت کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔

8۔ حجاب و پاکدامنی:
آپ ؑکے حجاب و پاکدامنی کے بارے میں تاریخ میں منقول ہے، جب بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا مسجد النبی (ص) میں اپنے جد امجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرقد انور پر حاضری دینا چاہتیں تو امیرالمؤمنین علیہ السلام حکم دیتے تھے کہ رات کی تاریکی میں جائیں اور حسن و حسین علیہما السلام کو ہدایت کرتے تھے کہ بہن کی معیت میں جائیں چنانچہ ایک بھائی آگے ہوتا تھا، ایک بھائی پیچھے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا بیچ میں ہوتی تھیں۔ ان دو بزرگواروں کو والد بزرگوار کا حکم تھا کہ مرقد النبی (ص) پر لگا ہوا چراغ بھی بجھا دیں تاکہ نامحرم کی نگاہ قامت ثانی زہراء سلام اللہ علیہا پر نہ پڑے۔ [17} یحیی مازنی کہتے ہیں، میں مدینہ میں طویل عرصے تک امیرالمؤمنین علیہ السلام کا ہمسایہ تھا؛ خدا کی قسم اس عرصے میں، مجھے کبھی بھی حضرت زینب سلام اللہ علیہا نظر نہ آئیں اور نہ ہی ان کی صدا سنائی دی۔[18}

9۔ روای حدیث:
اندیشہ اسلامی کی حفظ و انتقال کے اہم کاموں میں سے ایک نقل روایت ہے اور روای حدیث کی خاص شرایط ہوتی ہیں حضرت زینب سلام اللہ علیہا تمام فضائل کے ساتھ اس فضیلت کے بھی حامل تھیں آپ ؑنے اپنی والدہ گرامی سے اور اپنے بابا اور بھائیوں سے روایات نقل کی ہیں۔ آپ ؑ صحابۃ الرسول (ص) تھیں اور منقول ہے کہ آپ ؑروایت و بیانِ حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں۔

زینب سلام اللہ علیہا و عاشورا:
حضرت زینب سلام اللہ علیہا بچپن سے ہی امام حسین علیہ السلام سے خاص محبت رکھتی تھیں اور آخری دم تک آپ نے اس محبت میں کمی آنے نہیں دی یہ محبت یک طرفہ نہیں بلکہ دو طرفہ تھی۔ جب امام حسین علیہ السلام نے عراق کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے شوہر عبداللہ کے پاس گئیں اور اپنے شوہر سے روتی ہوئے فرمایا، پسر عمو: میرے بھائی حسین نے عراق کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا ہے اور تو بخوبی میرے اور میرے بھائی حسین کے درمیان موجود محبت سے واقف ہے اور یہ بھی جانتے ہو کہ میرے لئے بھائی کی جدائی قابل تحمل نہیں ہے تم سے اجازت لینے آئی ہوں تا کہ اپنے عزیز بھائی کے ہمراہ جاوں لیکن اگر اجازت نہیں دوگے تو یہاں رہوں گی لیکن یہ جان لیں کہ ان کے بغیر میں زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکوں گی ،جب عبد اللہ بن جعفر نے ان حالات کو دیکھا تو آپ سے مخاطب ہوئے اور کہا :جو کچھ چاہتی ہو اس پر عمل کرو۔

بھائیوں کے ہمراہ دوسری محرم ۶۱ہجری کو وارد کربلا ہوئیں امام حسین علیہ السلام ان سخت اور کٹھن مراحل میں ہمیشہ اپنے خاندان و انصار کو خصوصا حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو صبر و تحمل کی تلقین کرتے تھے لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے عورتوں کو کیوں اپنے ساتھ لے گئے؟ کیا یہ اخلاقی طور پر صحیح تھا درحالیکہ ہر قسم کی خطرے موجود تھے۔ اس سوال کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں۔
۱۔ عورتوں کی ہمراہی اجباری نہیں تھی بلکہ اختیاری تھی۔
۲۔ امام ؑنے کئی مواقع پر تمام اصحاب و خاندان کو جانے کے لئے فرمایا لیکن جو ہمراہ تھے ان میں سے کوئی جانے کے لئے تیار نہیں تھے۔
۳۔ ان کو اگر لے کر نہیں جاتے تو عصر عاشور کے بعد کردار زینب کو کون اپناتا۔
۴۔ عورتوں اور بچوں کے کربلا میں زندہ بچنے کے سبب کربلا تکمیل ہوئی۔
۵۔ اہل حرم کو ساتھ لے جانے کی وجہ سے کربلا تمام انسانوں کے لئے بالخصوص عورتوں اور بچوں کے لئے درس گاہ بنی۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا کردار اور حرکت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی بھی اجتماعی تحریک یا انقلاب اگرچہ فلک شکن نعروں اور عظیم شعاروں پر تکیہ کئے ہوئے کیوں نہ ہو، اس کے لئے جس قدر کوشش اور جھاد کیوں نہ ہو وہ انقلاب آنے کے بعد اگر اسے دوسروں تک پہنچانے کے منظم طریقے انتخاب نہ ہو جائیں اور اس انقلاب کے خاص پیغامات اور اہداف نہ ہو تو بہت جلد وہ انقلاب و تحریک تاریخ کا حصہ بن کر فراموش ہو جاتے ہیں، یا وہ تحریف کا شکار ہو جاتی ہے، یہی وجہ ہے کربلا کا یہ انقلاب رہتی دنیا تک ساری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کردار نے رہتی دنیا تک کربلا کو فراموش اور تحریف ہونے سے بچایا۔

حضرت زینب کبرٰی سلام اللہ علیہا عصر عاشور کے بعد:
عصر عاشور جب سیدہ زینب (سلام اللہ علیہا ) نے دیکھا کہ امام حسین علیہ السلام خاک کربلا پر گرے ہوئے ہیں اور دشمنان دین نے آپ کے مجروح جسم کو گھیرے میں لیا ہوا ہے اور آپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں تو آپ خیمے سے باہر آئیں اور ابن سعد سے مخاطب ہوکر فرمایا:
{يابن سَعد! أَیُقتَلُ اَبُو عبداللهِ وَأَنتَ تَنظُرُ اِلَيهِ؟۔ (ترجمہ: اے سعد کے بیٹا! کیا ابو عبداللہ (امام حسن (ع) کو قتل کیا جا رہا ہے اور تو تماشا دیکھ رہا ہے!)۔[19} ابن سعد خاموش رہا اور زینب کبرٰی سلام اللہ علیہا نے بآواز بلند پکار کر کہا: "وا اَخاهُ وا سَیِّداهُ وا اَهْلِ بَیْتاهْ ، لَیْتَ السَّماءُ اِنْطَبَقَتْ عَلَی الْاَرضِ وَ لَیْتَ الْجِبالُ تَدَکْدَکَتْ عَلَی السَّهْل} (آہ میرے بھائی! آہ میرے سید و سرور! آہ اے خاندان پیغمبر (ص)! کاش آسمان زمین پر گرتا اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر صحراؤں پر گر جاتے)۔ [20] حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے یہ جملے ادا کرکے تحریک کے دوسرے مرحلے کا آغاز کیا۔ آپ اپنے بھائی کی بالین پر پہنچیں اور آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہ رب متعال میں عرض گزار ہوئیں: "بار خدایا! یہ قربانی ہم سے قبول فرما![21] آپ نے اس کے بعد صحرا میں شہداء کی شام غریبان کو دل دوز الفاظ اور جملات اور عزیزوں کی عزاداری اور یتیموں کی تیمارداری نیز نماز شب اور بارگاہ پروردگار میں راز و نیاز و مناجات کے ساتھ، بپا کردی اور اس غم بھری رات کو صبح تک پہنچایا۔ عصر عاشور بڑا حساس اور نہایت سخت وقت تھا عصر عاشور کے بعد تین بنیادی ذمہ داریاں زینب سلام اللہ علیہا کے ذمے تھیں۔
۱۔ وقت کے امام کی حفاظت۔
۲۔ عورتوں اور یتیم بچوں کی حفاظت اور نظارت کاروان حسینی۔
۳۔ پیغام حسینی کو پہنچانا اور اسکا دفاع کرنا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 425277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش