1
0
Friday 12 Dec 2014 22:30

تم روتے کیوں ہو؟

تم روتے کیوں ہو؟
تحریر: سید اسد عباس تقوی

یہ سوال آپ نے اکثر اپنے دوست احباب سے سنا ہوگا؟ میری زندگی بھی اس سوال کو مختلف صورتوں میں سنتے ہوئے گزری ہے۔ ہر دوست جو مجھ جیسا نہیں تھا، مجھ سے پوچھتا تھا کہ شہید پر نوحہ تو نہیں کیا جاتا، تم کیسے لوگ ہو جو شہید پر روتے ہو۔ سوال تو اور بھی بہت ہیں جو ہم سے کئے جاتے ہیں۔ بہت معروف جملہ ہے کہ اے سوال کرنے والے تو نے انصاف نہیں کیا۔۔۔ میں بھی یہی کہوں گا کہ اے سوال کرنے والو تم نے انصاف نہیں کیا۔ بہرحال اگر ہمارا رونا نہ ہوتا تو شاید کوئی بھی ہم سے کربلا کے بارے میں سوال نہ کرتا۔ یہ رونا اور عزاداری ہی ہے جس کے سبب لوگ سبب پوچھتے ہیں۔ یوں اکسٹھ ہجری کی داستان حرف بہ حرف نسلوں میں منتقل ہوتی ہے۔ ہمارا رونا خود ہمیں بھی آگاہ رہنے کی ترغیب دیتا ہے، کیونکہ جب ہم عام معاشرے سے ہٹ کر کوئی کام انجام دیں گے تو یقیناً ہمیں اس عمل کی وجہ بھی بتانی ہوگی۔ شہیدوں پر رونے کی دو حکمتیں تو میں نے سطور بالا میں ہی بیان کر دیں، تاہم مزید اس معاملے کے کلامی پہلو پر بات نہیں کروں گا۔
 
آج اربعین کی شام اچانک میرے ذہن میں سوال ابھرا کہ لوگ روتے کیوں نہیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ کربلا میں کس بے دردی اور بے رحمی سے کڑیل جوانوں، کمسن بچوں، شش ماہوں پر تیر بارانی کی گئی؟ کیا انھوں نے نہیں سنا کہ اس میدان میں کئی ایسی بوڑھے بھی تھے جو کمر سیدھی کرکے چل نہ سکتے تھے؟ کیا انھوں نے نہیں سنا کہ ان مرنے والوں کے ساتھ ان کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بھی موجود تھیں، جو اپنے پیاروں کی لاشیں گرتے دیکھ رہی تھیں؟ کیا وہ نہیں جانتے کہ کتنی ماؤں کی عمر بھر کی محنت اس لق و دق صحرا میں رل گئی؟ گرمی، پیاس، چھوٹے بچوں کی صدائے العطش، اسیری، لاشوں کو بے گور کفن چھوڑ کر روانگی یہ سب مناظر اگر کسی بھی انسان کے سامنے دہرائے جائیں تو خواہ وہ کسی بھی مذہب و مسلک سے تعلق رکھتا ہو، اس کا دل ضرور پسیجے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی آنکھ دل کے درد کی گواہی دے اور چند قطرے برس پڑیں۔
 
کربلا یہیں پر ختم ہوجاتی تو بھی شاید اتنا درد نہ ہوتا۔ کرب و بلا کا آغاز تو کربلا کے بعد ہوا۔ شہدائے کربلا کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور بیویاں ان اعداء کے زیر نرغہ تھیں جنھوں نے چند گھنٹے قبل شہداء کی لاشوں کو گھوڑوں سے پامال کیا۔ اس پامالی سے قبل جسموں سے لباس، انگوٹھیاں، زرہیں اور تلواریں لوٹی گئیں۔ یہ لفظ لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپتے ہیں، تاہم میں اس فوج کو کسی طور بھی شرفاء کے زمرے میں نہیں ڈال سکتا۔ 

اسلام تو ایک جانب عرب غیرت، حمیت اور جوانمردی اس گروہ میں ناپید تھی۔ اگر یہ لوگ غیور ہوتے تو کیونکر ایک شش ماہے پر تیر چلاتے، اگر مار ہی ڈالا تھا تو اس ننھی لاش کو تلاش کرنے کے لئے زمین کربلا میں نیزے کیونکر مارتے؟ اگر لاش کسی نیزے کی انی سے لپٹ ہی گئی تھی تو سر کو کاٹ کر نیزے پر بلند کیوں کرتے؟ یہ کام کسی جوانمرد سے ممکن نہیں ہے۔ جوانمرد اور حمیت والا انسان شش ماہے بچوں کے سروں کی قیمت وصول کرنے کے لئے اس کی ماں کے دل کو بار بار زخمی نہیں کرتا۔ مگر یہ ٹولہ تو بار بار شہداء کے سروں کو اسیر خواتین کے پاس لاتا تھا، تاکہ ان عورتوں کے دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں۔ کوئی طعنہ دیتا کہ تیرا بھائی کہاں ہے؟ کوئی آواز لگاتا کہ کہاں ہے وہ دلاور جس کی بہادری پر تمہیں بڑا ناز تھا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاؤ اپنے بہادروں کو کہ وہ آج تمہاری حفاظت کریں۔ بلاؤ اپنے شیروں کو کہ وہ تمہیں آگ سے بچائیں۔ بلاؤ اپنے بہادر اجداد کو کہ وہ تمھاری مدد کریں۔ بلاؤ حمزہ، جعفر طیار، علی اور اس کے قبیلے کے شیروں کو کہ وہ تمہاری مدد کریں۔
 
پھر ان خواتین کو جنگی قیدی بنایا گیا؟ یہ رسن بستہ بیبیاں اپنے شہداء کے لاشوں پر سے گزاری گئیں۔ ان خواتین کو اجازت نہ دی گئی کہ اپنے پیاروں کی لاشوں سے لپٹ کر رو سکیں۔ ان کو الوداع کہ سکیں۔ ان کو دفن کرسکیں۔ فتح کے غرور میں بھرا لشکر ساری رات اپنی فتح کا جشن مناتا رہا اور صبح ہوتے ہی اسراء کو قید کرکے کوفہ کی جانب روانہ کر دیا گیا۔ چند خواتین اور بچوں پر مشتمل اسراء کا یہ کاروان اس کوفہ میں پہنچا جہاں دو دہائیاں قبل مسلمانوں کا دارالخلافہ تھا اور اس دارالخلافہ کا امیر ان بیبیوں کا بابا تھا۔ بابا کی جائے شہادت، بابا کے خطبوں کے مقامات ہر ہر چیز نظروں کے سامنے پھر گئی لیکن آج منظر عجیب ہے۔ آج شہید کربلا کی بہن رسن بستہ اور سر برہنہ ہے اور اہل کوفہ دیکھنے آئے ہیں کہ خلیفۃ المسلمین کا گھرانہ کس حال میں ہے۔
 
اسراء کے اس قافلے کو کوفہ سے دمشق کی جانب روانہ کیا گیا۔ دمشق جو کوفہ سے زیادہ دور نہیں، اس کی مسافت کو اتنا طولانی کیا گیا کہ دنوں کا سفر ہفتوں میں طے ہوا۔ سفر کو طولانی کرنے کا مقصد ان اسراء کو شہر شہر پھرانا تھا اور لوگوں پر اپنی فتح کی دھاک بٹھانا تھا۔ یہ قافلہ کوفہ سے تکریت، موصل، نصیبین، عین الوردہ، رقہ، جوسق، دعوات، حلب، قنسرین، معرۃ النعمان، شیزر، کفر طالب، سیبور، حماۃ، حمص، بعلبک کے راستے ہوتا ہوا دمشق پہنچا۔ جو لوگ عراق اور شام کے جغرافیہ سے آگاہ ہیں وہ گواہی دیں گے کہ مسلمانوں نے اسراء کے اس قافلے کو پورے شام میں پھرایا۔ قافلے کی آمد سے قبل شہر کے امیر کو خط لکھا جاتا تھا کہ تیاری کرو، ہم اسراء کو شہر میں داخل کرنا چاہتے ہیں۔ بازار سجائے جاتے، مرد و خواتین بازاروں اور چھتوں پر چڑھ کر اسراء کو دیکھتے، ان کے شہیدوں کے بارے میں پوچھتے۔ اشارے کرتے کہ فلاں خاتون کون ہے، فلاں بچی کس کی ہے، اس تنہا جوان کا نام کیا ہے۔ لطف کی بات یہ تھی کہ ان تماشائیوں میں زیادہ تر کلمہ گو تھے۔ جو اپنے امیر کی فتح پر بہت خوش تھے اور باغی کے قتل پر شادیانے بجاتے تھے۔
 
بالآخریہ قافلہ خدا خدا کرکے دمشق پہنچا۔ کئی گھنٹے اس قافلے کو شہر سے باہر روکا گیا، تاکہ فاتحین کا شایان شان استقبال کیا جاسکے۔ بازار سجائے گئے، پھر اس قافلے کو شاہی شان و شوکت سے شہر دمشق میں داخل کیا گیا۔ بازار کے بعد بازار، لوگوں کا ہجوم، باغی باغی کے نعرے اور علی (ع) کی بیٹیاں۔ اے مسلمان! میں نے اب تک کہیں بھی اس خانوادے کا تعارف نہیں کروایا کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ آج کا مسلمان جانتا ہے کہ کربلا میں کون شہید ہوا۔ حسین (ع) کس کا بیٹا تھا، لوگوں کو پتہ ہے کہ زینب (س) کس کی بیٹی تھی، سکینہ بنت الحسین کس کا لخت جگر تھی۔ کسی مسلمان کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کربلا میں قتل ہونے والا حسین (ع) مدینہ کے والی سید المرسلین (ص)، افضل الانبیاء (ص) کا نواسہ تھا۔ یہ وہ حسین (ع) ہے جس کے بارے میں نبی صادق (ص) نے کہا تھا:
حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں
 
اے مسلمان! ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دے کہ کیا تونے انصاف کیا؟ درست ہے کہ شہید کی شہادت قوم کا افتخار ہوتی ہے لیکن کیا تیرے پاس کوئی ایسی روایت موجود ہے جس میں شش ماہے کو شہید کرنے کا طریقہ بتایا گیا ہو؟ مانا کہ جنگ میں قتال ہوتا ہے لیکن کیا اسلام عمر کی قید کے بغیر لوگوں کو قتل کرنے اور پھر ان کی لاشوں کو گھوڑے کی ٹاپوں سے مسل دینے کی اجازت دیتا ہے۔ اے مسلمان! شہیدوں کے جسموں کو ادب و احترام سے دفنایا جاتا ہے، کیا نبی کا بیٹا اس قابل بھی نہ تھا کہ اس کی میت کو غسل دے کر دفن کیا جاتا؟ اے مسلمان! اللہ کی راہ میں جان دے دینا مسلمان مرد کی شان ہے، جس پر بلاشبہ ہمیں فخر ہونا چاہیے لیکن کیا نبی (ص) کی بیٹیوں کا قیدی بنا کر شہر شہر، قریہ قریہ پھرائے جانا اور درباروں میں کئی کئی گھنٹے کی پیشیاں بھی قابل فخر چیز ہے۔ اے مسلمان! کیا یہی اجر رسالت ہے جو امت نے کربلا اور پھر کوفہ و شام میں دیا۔ اس ظلم پر زمین و آسمان نے گریہ کیا۔ آج بھی پتھر اس ظلم پر خون روتے ہیں۔ یہ کیسا مسلمان ہے جو اپنے نبی کے نواسے پر ہونے والے ظلم پر گریہ کناں نہیں۔
خبر کا کوڈ : 425269
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

syed naqqash naqvi
Iraq
بہت اچھے اللہ آپ کی توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے
ہماری پیشکش