0
Monday 22 Dec 2014 18:36

دہشتگردوں کی پھانسیاں اور انسانی حقوق کے ٹھیکیدار

دہشتگردوں کی پھانسیاں اور انسانی حقوق کے ٹھیکیدار
تحریر: تصور حسین شہزاد

پشاور میں معصوم بچوں کی شہادت کے بعد دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ سوائے چند ایک شوریدہ سر عناصر کو چھوڑ کر پوری قوم اس فیصلے پر یکسو ہے کہ ارض وطن کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کر دیا جائے۔ پاک فوج کے بہادر جرنیل چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اپنے پیشرو جنرل کیانی کے مقابلے میں دہشت گردی کے خلاف زیادہ عجلت پسند واقع ہوئے ہیں اور انہوں نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی دہشت گردوں کو کچلنے کے لئے ٹھوس عملی اقدامات کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر شدت پسندوں کے سرپرستوں نے وزیراعظم کو گمراہ کرکے مذاکرات کو ڈھونگ رچا کر ان دہشت گردوں کو فرار کی راہ دکھانے کے لئے وقت لیا۔ جس سے اکثریت شمالی وزیرستان سے نکل کر افغانستان چلی گئی یا پاکستان کے دیگر علاقوں میں روپوش ہوگئی۔ المناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے اہم حساس اداروں میں ان کے حامی موجود ہیں جنہوں نے نہ صرف نیول ہیڈکوارٹرز، کامرہ وار بیس اور دیگر مقامات پر دہشت گردوں کے حملوں میں معاونت کی بلکہ پشاور میں 132 بچوں اور پرنسپل و اساتذہ سمیت سکیورٹی ادارے کے ارکان کو شہید کروانے میں بھی سکول میں تعینات مبینہ ملازمین کا ہاتھ ہے۔ جن کی فون کالز ٹریس ہونے پر ہی آرمی چیف نے افغانستان کا دورہ کرکے صدر اشرف غنی کو ثبوت فراہم کئے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کی کڑیاں افغان سرزمین میں پناہ گزین مولوی فضل اللہ جیسے دہشت گرد ٹولے سے ملتی ہیں۔ جس پر افغان صدر نے دہشت گردوں کے خلاف ایکشن کا یقین دلایا ہے۔ تاہم دونوں ملکوں میں طے پایا ہے کہ یہ اپنی اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور دہشت گردوں کے خلاف سرحد کے دونوں طرف ایکشن کیا جائے گا جو باہم انٹیلی جنس کی معلومات کی شیئرنگ سے مربوط ہوگا۔

پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن ضرب عضب کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ملک بھر میں سکیورٹی ادارے کے اہم منصوبہ سازوں کو پلاننگ کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے غیر ملکی دہشت گردوں کو وارننگ دی ہے کہ وہ فوری طور پر پاکستان سے نکل جائیں وگرنہ ان کا انجام موت ہوگا۔ پاک فوج کے سربراہ کا آخری دہشت گرد کو ختم کرنے تک جنگ جاری رکھنے کا عزم قابل تحسین ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام نے بہ یک زبان ہو کر پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف جاری جنگ میں ہر ممکن تعاون کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں غیر ملکی عناصر اور فاٹا، کے پی کے سے تعلق رکھنے والے مشکوک عناصر پر نگاہ رکھے پریشان تھے کہ ان کے بارے میں کسے خبر کریں کہ پولیس پر اعتماد تاحال مشکوک ہے۔ شکر ہے کہ پاک فوج نے عوام کی اس مشکل کا احساس کرتے ہوئے دہشت گردوں کے بارے میں اطلاع دینے کے لئے ہیلپ لائن قائم کر دی ہے، جس کا نمبر 1135 ہے۔ اس ہیلپ لائن پر پی ٹی سی ایل اور موبائل فون سے بھی کال کرکے مشکوک افراد کے بارے میں اطلاع دی جاسکتی ہے۔ آپریشن میں تیزی آنے سے گذشتہ روز سانحہ پشاور کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سمیت 45 دہشت گردوں کی ہلاکت کی خبریں ہیں۔ تاہم عسکری ذرائع نے ملا فضل اللہ کے مرنے کی تصدیق نہیں کی۔ البتہ انٹیلی جنس معلومات پر وادی تیرہ میں بمباری کی گئی اور آپریشن خیبر ون میں بھی کامیابیاں ملنے کی اطلاعات ہیں جو کہ اطمینان قلب کا باعث ہے۔ ادھر دتہ خیل میں امریکی ڈرون حملے میں اہم طالبان کمانڈر سمیت 6 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ فوج کی یہ کامیابیاں وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کی طرف اہم پیش رفت ہیں۔

ادھر حکومت نے موت بانٹنے والوں کی پھانسیوں کے پروانے جاری کر دیئے ہیں۔ اب تک 6 دہشت گرد واصل جہنم ہوچکے ہیں۔ فوج نے جیلوں کی سکیورٹی سنبھال کر اچھا اقدام کیا ہے۔ البتہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کے اس دعوے کے بعد کہ دہشت گردوں کی پھانسیوں پر مغربی ممالک کے تحفظات دور کر دیئے ہیں۔ یورپی یونین کے طرف سے پھانسیوں کی پھر سے مخالفت سامنے آئی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے سفارتی ذرائع ابھی تک پاکستان کے دہشت گردی کے شکار ہونے کے حوالے سے پیدا ہونے والے مخصوص حالات کے بارے میں عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں ناکام ہیں، جبکہ امریکہ نے آپریشن ضرب عضب میں معاونت کے لئے ایک ارب ڈالر کی امداد منظور کی ہے جو کہ حوصلہ افزا اقدام ہے۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پاکستان کو دنیا کے سامنے اپنی ہنگامی صورت حال کے تناظر میں کئے گئے اہم اقدامات کی تفصیلات کھول کر بیان کرکے اس انتہائی اقدام کی اہمیت و ضرورت سے آگاہ کرنا چاہیے، اس وقت عالمی نظریاتی ادارے یہ بیان کر رہے ہیں کہ وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پھانسی کی سزا پر 6 سالہ پابندی کے خاتمہ کے بعد 2015ء تک 3 ہزار دہشت گردوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔ اہم غیر ملکی اخبار اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی انسانیت سوز کارروائیوں کا شکار ہونے والے افراد کی حمایت میں حکومت پر عوامی دباؤ بڑھ گیا تھا کہ وہ ثابت شدہ دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارے، تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور حکومت بھی عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اس دباؤ کے تحت ہی سزا یافتہ دہشت گردوں کو جلد از اجلد پھانسیاں دے کر عوام کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے۔

وجہ کچھ بھی ہو یہ طے شدہ امر ہے کہ پاکستان کو اس وقت جن سنگین بحرانوں کا سامنا ہے، اس کی وجہ دہشت گردی کا ناسور ہی ہے، جس نے دنیا بھر میں پاکستان کو تنہا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ عالمی برادری کو اس بات کا احساس دلانے کی ضرورت ہے کہ انسانی حقوق دہشت گردوں کے نہیں انسانوں کے ہوتے ہیں۔ دہشت گرد خوفناک درندے ہیں جو بے گناہ معصوم بچوں کے خون سے بھی ہولی کھیلنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ایسے درندوں کو ان کی سفاکیت کی سزا میں پھانسیاں دینا ناگزیر ہے، جو بے گناہ انسانوں کو پل بھر میں شہید کر دیتے ہیں۔ یورپی برادری سمیت پوری دنیا جن کے سوگ میں مشعلیں جلاتی اور خاموشی اختیار کرتی ہے ایک طرف شہدا کے ساتھ یہ اظہار ہمدردی اور دوسری طرف ان معصوموں کو شہید کرنے والوں کو پھانیساں دیئے جانے کی مخالفت یہ دوغلا پن اور منافقت نہیں تو کیا ہے؟ نام نہاد انسانی حقوق کی بات کرنے والوں کو اپنے رویے پر نظرثانی کرکے پاکستان کے مخصوص حالات میں کئے گئے ہنگامی اقدامات کی توسیع کرکے مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا چاہیے ظالموں کے ساتھ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 427458
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش