0
Monday 22 Dec 2014 23:18

لبیک یا الوداع عزاداری سیدالشھداء علیہ السلام؟

لبیک یا الوداع عزاداری سیدالشھداء علیہ السلام؟
تحریر: فرحت حسین

جب محرم الحرام کی آمد آمد ہوتی ہے تو اس وقت مومنین ایام عزاء کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ عزادری کے لیے عام آدمی سیاہ لباس سلواتا ہے۔ ذاکر و واعظ اپنی تقریر تیار کرتا ہے۔ بانی مجالس اپنی تیاری کچھ یوں کرتے ہیں کہ کسی مجلس و جلوس کے مومنین کے لیے لنگر کا انتظام وغیرہ وغیرہ۔ یہ تیاریاں اپنی جگہ اچھی ہیں اور ان کو ایک رسم کی شکل دی جا چکی ہے۔ محرم الحرام آ جائے تو خاص اہتمام کے ساتھ نوحہ خوانی، ماتم داری، زنجیرزنی اور مجلس عزاء اپنی اپنی طرز کی تیاریاں ہوتیں ہیں۔ پھر ایام غم میں پروگرامز و مجالس کا وقت آ جاتا ہے اور باقاعدہ تسلسل سے جاری رہتی ہیں یہ
سلسلہ محرم الحرام اور صفر المظفر کا پورا مہینہ بلکہ ربیع الاول کے پہلے آٹھ دن بھی انہیں ایام عزاءکا حصہ شمار ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی مراسم جیسا کہ سالانہ مجلس کروانا اور بڑے ذاکر واعظین کو بلانے کا رواج ہے۔ ماتمی دستے سب سے زیادہ جلوس میں شریک ہوتے ہیں بڑی بڑی ماتمی سنگتیں تشریف  لاتیں ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ احکام شرعی کی زیادہ پاسداری بھی ہونا شروع ہو جاتی ہے ان احکام کا احترام شریعت کی وجہ سے نہیں محرم کے
احترام و حرمت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ بہرحال یہ تو اچھا عمل جس نیت سے بھی شرعی حکم کی پابندی کی جائے اس کے کچھ نہ کچھ اچھے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں۔

ربیع الاول کا پہلا عشرہ گزرنے کے ساتھ موسم بیساکھ کی طرح وہ رسم و رواج ترک کر دیئے جاتے اور عزادار اپنا اوڑھنا تبدیل کر دیتے ہیں اور بس اپنے پہلے رنگ رنگیلے لباس اور بھڑکیلے کپڑے اور غیر شرعی افعال کو معمول کے مطابق انجام دینا شروع کر دیتے ہیں۔ اس پر سوچ و بچار کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ آج کل کی جدید دنیا عارضی پلاننگ سے ہٹ کر مستقل پلاننگ کی طرف متوجہ ہو رہی ہے ہم اگر اسی عزاداری کو پورا سال جاری رکھنے کی کوشش کریں تو اس
سے نہ فقط ذاتی فوائد ہر بندے کو ملیں گے بلکہ قومی و ملی فائدہ ہو گا اس کا طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ ان تمام اعمال و افعال اور مجالس و محافل کو ہونا چاہے مگر صرف یہی ہی نہیں کہ جب جلوس میں کھڑے ہوں تو اس وقت تو بڑے عزادار مگر جب جلوس سے فارغ ہوں تو اسی لمحہ جلوس و عزادری اور ماتمی داری و زنجیر زنی کو بھول جاتے ہیں اور تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے چرس کی بوٹی یا دماغ کو تازہ کرنے کے لیے لطیفوں کی محفل سجا لی جاتی ہے یہ عمل بذات خود کتنا قبیح ہے؟ اور اگر یہ عزادری کے ساتھ آجائے تو اس سے زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مجالس میں جانے کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں اور اس میں اخلاص کی نیت کر کے باوضو ہو کر جہاں جگہ ملے بیٹھ جائیں اور جس مولوی یا ذاکر کا خطاب ہو خلوص کے ساتھ مجلس حسین ؑ سمجھ کر سنیں اگر کانوں کا چسکہ پورا نہ ہو رہا تو بھی خیر ہے، کہنے والا اگر کوئی اچھی بات کرے تو اس کو سن کر اس کے مطابق عمل کی کوشش کریں اسی طرح واعظ
و ذاکر کو بھی چاہیئے کہ محرم الحرام کو نادر موقع سمجھتے ہوئے اخلاص کے ساتھ خطاب کریں اپنے خطاب میں امام حسینؑ کے کربلا جانے کے مقاصد کا ذکر کریں اور امام حسین علیہ السلام کا پیغام جو آپ علیہ السلام کی سیرت سے جھلک رہا ہے اس کو بیان کریں۔ سیرت امام حسین علیہ السلام بیان کرنے سے کم از کم دو اہم ترین فائدے ضرور ہوں گئے ایک اس کی ذمہ داری ادا ہو جائے گی اور دوسرا سننے والوں کو فائدہ کہ اس کو تعلیمات محمد ﷺ وآل محمد ﷺ کی سیرت سنائی جائے تو اس کے فکر و عمل میں تبدیل آئے گی۔ جب دو ماہ باقاعدہ نماز باجماعت مسجد میں ادا کی جائے گی تو گھر میں موجود بچے بھی اس سے سبق لیں گے اور ان کی عادت و عبادت کی مشق ہو جائے گی۔ معاشرہ سدھرتا ہوا نظر آئے گا۔ اس نماز کے زندگی کے مختلف شعبہ پر بہت اچھے اثرات مرتب
ہونا شروع جائیں گے۔ ایک اثر یہ بھی جب نماز پڑھنے کی عادت بن جائے سال کے کسی دن بھی نماز باجماعت پڑھنے کے لیے جائے تو جو کوئی پوچھے تو اس کے جواب آپ ان کو بتا دیں کہ میرے مولا حسین ؑ نے کربلا کے میدان میں باجماعت نماز پڑھتے ہوئے شھادت قبول کی تھی اور لہذٰا ہم اس کو بھول نہیں سکتے لہذٰا یہ عزادری کی تبلیغ ہے جس کو آپ سارا سال کر سکتے ہیں۔ جب ایام عزا اپنے اختتام کو پہنچے تو اپنے اندر تبدیلی محسوس کی جا رہے ہو اور امام حسین ؑ اور آپ کی آل اطھار ؑ کی سیرت کی جھلکیاں معاشرے میں
دکھائی دیتی ہوئی نظر آئیں تو عزاداری سید الشھداء کے آخری محفل و مجلس اور جلوس میں الوداع الوداع یا حسین ؑ نہیں بلکہ لبیک یا غازی عباسؑ لبیک یا حسین ؑ لبیک یا رقیہ لبیک یا سکینہ لبیک یا علی اکبر ؑکہنے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 427529
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

متعلقہ خبر
ہماری پیشکش