1
0
Sunday 11 Jan 2015 22:05

وطن عزیز کی مشکلات کا حل اور اسلامی نظام تعلیم و تربیت

وطن عزیز کی مشکلات کا حل اور اسلامی نظام تعلیم و تربیت
تحریر: سجاد حسین آہیر
 
بلاشبہ علم شرافت و کرامت اور دارین کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کا بہترین ذریعہ ہے، انسان کو دیگر بےشمار مخلوقات میں ممتاز کرنے کی کلید اور ربّ الارباب کی طرف سے عطا کردہ خلقی اور فطری برتری میں چار چاند لگانے کا اہم سبب ہے، بلکہ واقعیت یہ ہے کہ مقصدِ تخلیقِ انسانی تک رسائی علم ہی کے ذریعے ممکن ہے، علم ہی کی بدولت انسانوں نے سنگلاخ وادیوں، چٹیل میدانوں اور زمینوں کو مَرغ زاری عطا کی ہے، سمندروں اور زمینوں کی تہوں سے لاتعداد معدنیات کے بے انتہا ذخائر نکالے ہیں اور آسمان کی بلندیوں اور وسعتوں کو چیر کر تحقیق و اکتشاف کے نت نئے پرچم لہرائے ہیں؛ بلکہ مختصر تعبیر میں کہا جاسکتا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والے تمام محیرالعقول کارنامے علم ہی کے بے پایان احسان ہیں۔
تعلیم کا بنیادی مقصد آدمی کو اس کائنات اور اس کے خالق و مالک کے رموز سے آگاہ کراتے ہوئے اسے خیر و شر کی تمیز سکھانا ہے۔ یعنی بندے کو اپنے رب کی پہچان کے قابل بنانا ہے۔ اگر جامع انداز میں کہا جائے تو جہالت کے اندھیروں سے آگہی کی روشنی کی طرف مراجعت کا نام تعلیم ہے۔

اسلامی منابع میں موجود تعلیم و تربیت کی ترکیب ایک خوبصورت ترکیب ہے اور اصلی معنا کو پہنچانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ کیوں کہ انسان کے افعال اختیاری تین چیزوں دانش و تفکر، رجحانات و میلانات اورجسمانی توانائی یعنی مہارتوں پر استوار ہیں تعلیم کا کلمہ معمولا انسانوں کی دانش و تفکر میں اضافہ میں مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے، جبکہ کلمہ تربیت زیادہ تر رجحانات و میلانات کو رخ دینے اور توانمندی اور مہارت کو بڑھانے میں استعمال ہوتا ہے۔ پس اس ترکیب کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ اس کا ماخذ قرآن مجید ہے کہ جہاں تذکیہ کو تعلیم کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ٍ الجمعۃ (2)
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
ایک اور بات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے کہ انگلش کے لفظ ایجوکیشن (education) میں روحانی اور معنوی رشد کا معنی بھی پوشیدہ ہے لیکن دنیا کے بعض تعلیمی نظام اس پہلو سے غفلت برتتے ہوئے ایجوکیشن کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ "علوم و فنون کا ایک نسل سے دوسری میں منتقل کرنے کے طریقہ کار کو ایجوکیشن (education) کہا جاتا ہے۔" بہرحال مندرجہ بالا نکات کی روشنی میں تعلیم و تربیت عام طور پر جس معنی میں استعمال ہوتی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ " انسان کو کمال مطلوب تک پہنچانے کے لیے دانش اور بینش کو متربی تک پہنچانے اور عمیق کرنے، میلانات و رجحانات کو ہدایت کرنے اور تقویت بخشنے اور انسانی روحانی اور جسمانی ابعاد میں موجود استعداد اور توانائی کو متوازن انداز میں رشد دینے کی کوشش کے عمل کو تعلیم و تربیت کہا جاتا ہے۔" اسلام نے اپنے ظہور کے اول دن سے ہی پیغمبرِ اسلام ﷺ پر ”اقرأ“ کے خدائی حکم کے القاء کے ذریعہ جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں علم کی عظمت واہمیت کو جاگزیں کیا اور ”قرآنِ مقدس“ میں بار بار عالم وجاہل کے درمیان فرق کے بیان اور جگہ جگہ حصولِ علم کی ترغیب کے ذریعے اس کی قدر ومنزلت کو بڑھایا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں علم کا ذکر اسّی بار اور علم سے مشتق شدہ الفاظ کا ذکر سیکڑوں دفعہ آیا ہے، اسی طرح عقل کی جگہ ”الباب“ (جمع لب) کا تذکرہ سولہ دفعہ اور ”عقل“ سے مشتق الفاظ اٹھارہ جگہ اور ”فقہ“ سے نکلنے والے الفاظ اکیس مرتبہ مذکور ہوئے ہیں، لفظ ”حکمت“ کا ذکر بیس دفعہ اور ”برہان“ کا تذکرہ سات دفعہ ہوا ہے، غور و فکر سے متعلق صیغے مثلاً: ”دیکھو“ ”غور کرو“ وغیرہ، یہ سب ان پر مستزاد ہیں۔

قرآن کریم کے بعد اسلام میں سب سے مستند، معتبر اور معتمد علیہ لٹریچر احادیثِ نبویہﷺ اور اہلبیت کا وہ عظیم الشان ذخیرہ ہے، جسے امت کے باکمال فرزندان نے اپنے اپنے عہد میں انتہائی دقتِ نظری، دیدہ ریزی اور جگر کاوی کے ساتھ اکٹھا کرنے کا ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دیا ہے، جب ہم اس عظیم الشان ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں قدم قدم پر ہادیان برحق کی مقدس زبان علم کی اہمیت، حاملینِ علم کی فضیلت اور اس کے حصول کی تحریض و ترغیب میں سرگرم نظر آتی ہے اور علم کی جزئیات تک کو بیان کیا ہے؛ رسول اکرمﷺ کا تعلیم و تربیت کے حصول کی اہمیت کے بارے میں فرمان ہے کہ
طَلَبُ‏ الْعِلْمِ‏ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِم‏
علم کا حصول ہر مسلمان پر فرض ہے
پھر فرمایا کہ
اُطْلُبُوا الْعِلْمَ‏ وَ لَوْ بِالصِّينِ ۔‏
علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے۔
یہاں پر چین زمینی حدود سے ما وراء ہو کر علم کے حصول کی کوشش کی طرف اشارہ ہے۔
زمان حصول علم کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ
اطلبوا العلم من‏ المهد الى اللحد
گود سے گور تک علم حاصل کرو۔
کس سے علم حاصل کیا جائے باب مدینہ علم حضرت علیؑ نے فرمایا کہ
الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ فَاطْلُبُوهَا وَ لَوْ عِنْدَ الْمُشْرِك
علم مومن کی گمشدہ میراث ہے اسے حاصل کرو چاہے مشرک کے پاس ہی کیوں نہ ہو۔
ہماری تاریخ میں اس کی عملی تابندہ مثالیں موجود ہیں۔ ایک طرف جہاں مسجد نبوی میں چبوترے پر اہل صفہ علم حاصل کر رہے ہیں، تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کے لیے آزادی کے بدلے ان پڑھ صحابہ کو تعلیم یافتہ بنانے کی شرط رکھی جاتی ہے اور کبھی مسجد نبوی کا ہال دینی، سماجی اور معاشرتی مسائل کی افہام و تفہیم کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب ایک سوال کہ وہ کون سا علم ہے جو فرض ہے اور اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے زمان، مکان اور استاد کے بارے میں بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تو رسول اکرمﷺ کی ایک حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے۔
قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه و آله وسلم: إِنَّمَا الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ،
علم کی صرف تین قسمیں ہیں، آیت محکمہ، یا فریضۃ عادلۃ یا سنت قائمۃ۔ ماہرین علم حدیث فرماتے ہیں کہ آیت محکمۃ سے مراد عقائد یعنی دانش و تفکر، فریضۃ عادلۃ سے مراد اخلاق یعنی، رجحانات و میلانات اور سنۃ قائمہ سے مراد احکام یعنی اور جسمانی توانائی اور مہارتیں ہیں۔ اس طرح کوئی بھی چیز ان تین سے باہر نہیں ہو گی۔ ہر علم ان تین چیزوں میں موجود ہے۔ پس علم کو اسلامی اور غیر اسلامی میں تقسیم کرنا درست نہیں ہے۔ کیوں کہ اسلام کی خاتمیت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر علم جو اسلامی معاشرہ کے لیے مفید اور نافع ہو اس کا حصول ضروری ہے اور اسے دین کا علم شمار کیا جائے گا۔ البتہ خود نظام تعلیم و تربیت کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے کے نتائج چونکہ مختلف نکلتے ہیں اس لیے ہم نظام تعلیم و تربیت اسلامی کے درپے ہیں۔ اب سوال یہ کہ کس نظام تعلیم و تربیت کو اسلامی کہیں گے؟ جواب کا خلاصہ کچھ یوں بنتا ہے کہ ہر وہ نظام تعلیم و تربیت جو مبانی (معرفت شناختی ، ہستی شناختی، الھیاتی، انسان شناختی اور ارزش شناختی) اسلامی پر مبنی ہو اسلامی نظام تعلیم و تربیت کہلائے گا۔

تاریخ اس بات کی بھی گواہی دیتی ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور اہل بیت جیسے ہادیان برحق کی قیادت اور رہنمائی میں مبانی اسلامی پر مبنی اسلامی نظام تعلیم و تربیت کی بدولت علم و آگہی کی طرف مسلمانوں کی مراجعت نے عالمی تاریخ کا سنہرا باب کھول دیا۔ کفر و جہالت اور گمراہی و شقاوت کے صحرا میں علم و عمل اور تہذیب و تمدن کی وہ بہار آئی کہ آج تک دنیا اس کی مثال پیش نہیں کر پائی ہے۔ تحقیق و جستجو کے وہ دروازے کھلے کہ مستقبل میں علمی انقلاب کے لیے سنگ بنیاد ثابت ہوئے اور جب تک مسلمانوں نے حصول علم کو اپنے ایمان و عقیدہ کا حصہ بنائے رکھا، ان کا ڈنکا سارے عالم میں بجتا رہا لیکن گردش زمانہ جب مسلمانوں کے جمود اور انحطاط کا سبب بن گئی تو پھر ان کے لیے پستی اور ذلت کی اتھاہ گہرائیوں کے سوا کچھ نہیں بچا۔ اس کے بعد اقوام مغرب نے اس محاذ کو سنبھالا۔ مسلمانوں ہی کی قائم کردہ بنیادوں پر اُن کی علمی ترقیوں اور محیرالعقول ایجادات کا وہ سلسلہ شروع ہو گیا اور اس نے تمام عالم کو اس طرح خیرہ کردیا کہ علم و تحقیق کے میدان میں مسلمانوں کے کردار کو یکسر فراموش کر دیا گیا اور نئے افق اور نئے انقلابات کا پورا کریڈٹ مغرب نے لے لیا۔ علامہ اقبال کے الفاظ میں کہیں تو،
لے گئے تثلیث کے فرزند میراث خلیل
خشت بنیا د کلیسا بن گئی خاک حجاز

اس طرح برصغیر کی قوم کے بارے میں دشمن کی چیرہ دستی، قوم کی زبوں حالی کی علت اور دوبارہ عروج کے حصول کے راز کا اندازہ لارڈ میکالے کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے، ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون ” لارڈ میکالے” کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء عیسوی کے خطاب سے اقتباس ۔
“I have traveled across the length and breadth of India and I have not seen one person who is a beggar, who is a thief, such wealth I have seen in this country, such high moral values, people of such caliber that I don’t think we would ever conquer this country unless we break the very backbone of this nation which is her spiritual and cultural heritage and, therefore, I propose that we replace her old and ancient education system, her culture, for if the Indians think that all that is foreign and English is good and greater than their own, they will lose their self-esteem, their native culture and they will become what we want them, a truly dominated nation”.
میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔ مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا۔ اس ملک میں میں نے بہت دولت دیکھی ہے، لوگوں کی اخلاقی اقدار بلند ہیں اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ میرے خیال میں ہم اس وقت تک اس ملک کو فتح نہیں کر سکتے جب تک کہ ہم ان کی دینی اور ثقافتی اقدار کو توڑ نہ دیں جو انکی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہم ان کا قدیم نظام تعلیم اور تہذیب تبدیل کریں۔ کیونکہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شئے ان کی اپنی اشیاء سے بہتر ہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے جیسا کہ ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں۔

ایسا نظام تعلیم و تربیت مرتب کرنے کی ذمہ داری لارڈ میکالے کی لگی جس کو اس نے انتہائی مہارت سے نبھایا اس کا تیار کردہ نظام تعلیم بہت کامیاب رہا اور آج تک اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوئے ملک کے وفادار کم مغرب کے گرویدہ ذیادہ پیدا کر رہا ہے۔ اقوام مغرب نے علم اور تعلیم کو اپنے عقیدے اور اپنی تہذیب و ثقافت کے سانچے میں ڈھالا اور ہمیں صرف جسمانی نہیں بلکہ فکری طور پر بھی غلام بنا ڈالا۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت ہونے کے باوجود یہاں کسی بھی قسم کا منظم نظام تعلیم رائج کرنے کی کامیاب کوشش نہیں کی گئی جبکہ اقوام مغرب نے بڑی چالاکی سے تعلیم و تربیت اور فن و ہنرمندی کو روزی کے ساتھ اس قدر دلکش انداز میں جوڑ دیا کہ عام آدمی کا دامن بچانا محال ہوگیا۔ اس نظام کو اپنانے میں اگرکہیں کچھ ایمان و عقیدہ کے خلل اور آخرت کے نقصان کا خوف و خدشہ موجود بھی تھا تو دنیاوی کامرانی کی جھوٹی دلکشی نے اس پر دبیز پردہ ڈال دیا۔ اس طرح یہ فرنگی نظام تعلیم اقوام عالم اور خصوصا پاکستانی قوم کا پسندیدہ نظام بن گیا۔جس کا بنیادی پیغام ہی یہ تھا کہ
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چاہے ادھر پھیر


جس طرح پیغمبر خاتم ﷺ نے زمانہ جاہلیت کی قتل و غارت، تفرقہ پردازی اور انسانیت سوز رسومات کا مقابلہ تعلیم و تربیت کے نور کو پھیلا کر کیا اسی طرح وطن عزیز میں ان کےپیروکاروں کو بھی مغربی سامراج کی طرف سے دیے جانے والے تحفے ،مذہبی لسانی اور قومی تفریق کی بنیاد پر ہونے والی قتل و غارت کی گھٹا ٹوپ تاریکی کے پردے کو تار تار کرنے اور افراط و تفریط کی بنیاد پر چھا جانے والی تکفیریت کی گھنگھور گھٹا وں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی واحد راہ اسلامی نظام تعلیم و تربیت کے نفاذ کو عملی کرنا چاہیئے۔ کیوں کہ باطل افکار و نظریات کا مقابلہ صرف الٰہی افکار و نظریات سےہی کیا جاسکتا ہے جس کے لیے علم اور شعور کی افزائش شرط ہے۔
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملت کے باشعور افراد اور ادارے جو دین اسلام کے فطری تقا ضوں کو ایمان و عقیدہ کی روشنی میں سمجھنے کا شعور رکھتے ہیں، اٹھیں اور کم از کم اپنی دسترس میں موجود وسائل اور امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئےلارڈمیکالے کے بنائے ہوئے نظام تعلیم اور فرنگی تفکر کو وطن عزیز سے پاک کرتے ہوئے اسلام کے مطلوبہ نظام تعلیم سے ہم آہنگ کرنے کا بیڑا اٹھائیں۔ ورنہ اگرصرف عصر حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش میں تعلیم کے ذریعہ در آنے والے فساد کو روکنے کے بجائے اس کے لیے راستہ ہموار کرنے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
خبر کا کوڈ : 431859
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

غلام حسین معصومی
Iran, Islamic Republic of
سلام علیکم، ماشاءاللہ، اگر لکھنے والے تمام احباب لطف کریں تو حوالہ جات کا مکمل ایڈریس ذکر فرما دیں تو یہ بہت اچھا رہے گا اور باقی لکھنے والوں کے لیے بھی نمونہ عمل رہے گا، کیونکہ آپ کی بات کی دلیل کتاب کا حوالہ ہوتا ہے، بہت شکریہ
ہماری پیشکش