0
Thursday 2 Apr 2015 07:43

یمن پر سعودی جارحیت اور پس پردہ حقائق

یمن پر سعودی جارحیت اور پس پردہ حقائق
تحریر: مہدی محمدی

یمن کے خلاف شروع ہونے والی جنگ، بلاشک مشرق وسطٰی میں اہم جیوپولیٹیکل تبدیلیوں کا ایک سلسلہ جنم لینے کا باعث بنے گی۔ یہ تبدیلیاں ایک حیثیت سے خطے میں رونما ہونے والی گذشتہ تبدیلیوں کا تسلسل ہیں، لیکن ایک اور حیثیت سے انہیں عرب اسپرنگ اور اس کے اثرات سے ہٹ کر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب نے یمن میں کوئی خاص طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا ہے، اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ ایسا کر بھی نہیں سکتا۔ سعودی فوج حتٰی اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے سے قاصر ہے، چہ جائیکہ دوسری سرزمین میں کشور کشائی کا ارادہ کرے۔ اسی طرح اس کا اتحادی ملک مصر بھی اپنے خطے صحرائے سینا کو کنٹرول کرنے سے عاجز نظر آتا ہے، لیکن اس کے سر پر یمنی شیعوں، جو ماں کے پیٹ سے ہی گوریلے پیدا ہوتے ہیں، کو کنٹرول کرنے کا بھوت سوار ہوچکا ہے۔ پس یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہوا جو سعودی عرب اور اس کے اتحادی یمن پر ٹوٹ پڑے ہیں؟

بوکھلاہٹ کے عالم میں یمن پر ہوائی حملوں کے آغاز کے پس پردہ کئی عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے پہلے اس انتہائی اہم نکتے کی جانب توجہ ضروری ہے کہ یمن میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ "طے شدہ امریکی منصوبے" کا حصہ ہے۔ گذشتہ کئی ماہ سے سعودی عرب اور اسرائیل، امریکہ پر یہ الزام عائد کرتے آرہے ہیں کہ اس نے خطے سے متعلق اپنی پالیسیوں میں نظرثانی کر لی ہے اور بہت حد تک "تبدیل ہوچکا ہے۔" حقیقت تو یہ ہے کہ یہی مشترکہ جیو پولیٹیکل فہم، اسرائیل اور سعودی عرب کے اس حد تک آپس میں قریب آنے کا باعث بنا ہے۔ اس فہم کی رو سے امریکہ خطے میں اپنے اتحادیوں کو تنہا چھوڑ چکا ہے اور مخفیانہ طور پر ایران سے ساز باز کرنے میں مصروف ہے۔ یہ فہم کہتا ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کی خاطر خطے میں مداخلت کرنے کی جرات، جذبہ اور طاقت کھو چکا ہے اور ایک طرح سے اپنی جان خطے کے مسائل اور امور سے چھڑانے کے درپے ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ جوہری معاہدے کی انتہائی شدید مخالفت کی اصلی وجہ بھی درحقیقت اسی بنیاد پر ہے۔ ان دونوں کی نظر میں ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات اور ممکنہ جوہری معاہدے کا انعقاد بڑی سطح پر جیو پولیٹیکل ساز باز کا نتیجہ ہے، جس کی رو سے امریکہ کی نظر میں ایران کی حیثیت دشمن سے تبدیل ہو کر زیادہ سے زیادہ ایک علاقائی رقیب کے طور پر رہ جائے گی۔ اگر ہماری بات درست نہ ہو تو اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب سے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کی مخالفت بیہودہ ہوجاتی ہے، کیونکہ وہ خود بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایران کے ساتھ جوہری تنازعات کے حل کیلئے بہترین راستہ وہی ہے جسے امریکہ نے اس وقت اپنا رکھا ہے۔

گذشتہ کئی ماہ سے سعودی عرب، جو آج کل شدید کمزور پوزیشن کی حالت میں ہے، زیادہ اور اسرائیل کم تر، امریکہ سے یہ مطالبہ کرتے آئے ہیں کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کروائے کہ ایران کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدہ کسی جیو پولیٹیکل معاہدے میں تبدیل نہیں ہوگا اور اس کا نتیجہ ایران کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر تسلیم کئے جانے کی صورت میں نہیں نکلے گا۔ اب جب امریکہ اور ایران کے درمیان جاری جوہری مذاکرات ایک ممکنہ معاہدے کے انعقاد سے قریب ہو رہے ہیں تو اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی صدر براک اوباما پر دباو پہلے سے بھی زیادہ ہوچکا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ براک اوباما کو ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کے فائنل راونڈ سے قبل اپنے علاقائی اتحادیوں کو کچھ یقین دہانیاں کروا دینی چاہئیں تھیں، جیسا کہ چند ہفتے قبل امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے جدہ میں یہ بیان دیا کہ ایران کے ساتھ کوئی بڑا معاہدہ طے نہیں پا رہا بلکہ جوہری مذاکرات کا مقصد ایران کی جوہری طاقت کو کنٹرول کرنا ہے اور ایران سے درپیش خطرہ جوہری سرگرمیوں میں پھیلاو کا نہیں بلکہ جیو پولیٹیکل خطرہ ہے۔

امریکہ کی جانب سے یمن کے خلاف جنگ کی اجازت دیئے جانا اور حملے کے فوراً بعد اعلانیہ حمایت کا اظہار، اس بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتا کہ یہ حملہ اس پہلو سے مکمل طور پر جوہری مذاکرات سے مربوط ہے اور دراصل دو اہم پیغام لئے ہوئے ہے: ایک پیغام ایران کے نام، جو سی آئی اے کے سربراہ جان برنین نے کچھ روز قبل فاکس نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں بیان بھی کیا یعنی "ایران یہ جان لے کہ امریکہ جیو پولیٹیکل اعتبار سے اسے اپنا دشمن سمجھتا ہے"، اور دوسرا پیغام سعودی عرب اور اسرائیل کے نام۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے نام پیغام، جسے درحقیقت ایک طرح کی جیو پولیٹیکل یقین دہانی بھی قرار دیا جاسکتا ہے، یہ ہے کہ ایران کے ساتھ امریکہ کا ممکنہ جوہری معاہدہ نہ فقط خطے میں ایران اور امریکہ کے درمیان ٹکراو کو کم کرنے کا باعث نہیں بنے گا بلکہ اس میں مزید شدت آئے گی اور خاص طور پر سعودی عرب کو اس بابت مطمئن رہنا چاہئے کہ ایران کی علاقائی طاقت میں حیرت کن اضافے کے مقابلے میں اسے ماضی کی طرح امریکہ کی حمایت حاصل رہے گی۔

جیو پولیٹیکل یقین دہانی کے مسئلے کے علاوہ، جو اس حملے کو ایران امریکہ جوہری مذاکرات سے جوڑتا ہے، یمن پر ہوائی جارحیت ایک اور پہلو سے بھی امریکہ سے مربوط ہے۔ اس پہلو کو سمجھنے کیلئے ابتدا میں ویسٹ پوائنٹ آرمی کالج میں امریکی صدر براک اوباما کی تقریر کے کلیدی نکات پر توجہ ضروری ہے، کیونکہ ان سے امریکی خارجہ سیاست کے جدید دور کی اصلی ترین پالیسی لائنز واضح ہوتی ہیں۔ امریکی صدر نے اس تقریر میں زور دے کر کہا: اولاً کسی بھی نئی جنگ کے آغاز کے بارے میں امریکی عوام میں پائی جانے والی شدید نفرت، ثانیاً امریکی فوج کی شدید کمزوری اور تھکاوٹ، ثالثاً انتہائی شدید اقتصادی مشکلات اور رابعاً جدید خطرات کی حقیقت اور نوعیت میں تبدیلی کے باعث امریکہ اپنی خارجہ پالیسی میں براہ راست مداخلت کی حکمت عملی کو ترک کرچکا ہے اور اس کی جگہ،
1)۔ ریموٹ منیجمنٹ،
2)۔ علاقائی مسائل کو حل کرنے کا کام علاقائی کھلاڑیوں کو سونپنے،
3)۔ فوجی آپریشنز کو بنیادی انٹیلی جنس آپریشنز کے قریب لانے اور نتیجتاً فوج کا حجم کم کرنے،
4)۔ علاقائی اتحادوں کی تشکیل،
5)۔ براہ راست مداخلت سے گریز، اور
6)۔ اقتصادی پابندیوں اور چند طرفہ تنبیہات جیسے ہتھکنڈوں کے استعمال کو زیادہ بروئے کار لایا جائے گا۔

ویسٹ پوائنٹ اسٹریٹجی اگرچہ ایک خوبصورت اور منظم ظاہری شکل کی حامل ہے، لیکن اس کا اعلان درحقیقت امریکہ کے فوجی سپرپاور ہونے کے زمانے کے اختتام (سیاسی سپرپاور ہونے کے زمانے کے اختتام کے بعد جو چند سال قبل ختم ہوچکا ہے) کا واضح اعتراف ہے۔ اسی وجہ سے خطے کے اکثر ممالک اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ ماضی کی مداخلت کار طاقت ہمیشہ کیلئے بین الاقوامی میدان کو ترک کرچکی ہے۔ لہذا انہیں خود ہی اپنے مسائل کے حل کے بارے میں فیصلے اور اقدامات انجام دینا ہوں گے۔ اس وقت سے لے کر آج تک امریکہ نے کئی بار اپنے اتحادیوں کے ہمراہ اس جدید حکمت عملی کی مشق کرنے کی کوشش کی ہے۔ داعش کے خلاف فوجی اتحاد کی تشکیل کا مسئلہ بہت کم عرصے میں بیہودگی کا شکار ہوگیا، کیونکہ ابتدا سے ہی داعش کے خلاف سنجیدہ اقدامات انجام دینے کا ارادہ ہی نہیں تھا۔ مزے کی بات یہ کہ وہ ممالک کو داعش کے خلاف اتحاد میں شریک ہوئے، خود ہی داعش کے اصلی حامیوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ لہذا پہلے سے معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے، کیونکہ چھری کبھی بھی اپنے دستے کو نہیں کاٹ سکتی۔ بہرحال، اسٹریٹجک نقطہ نگاہ سے داعش کے خلاف بننے والے اتحاد کے آغاز سے ہی واضح تھا کہ امریکہ بذات خود فوجی مداخلت نہیں کرنا چاہتا بلکہ مطلوبہ اہداف اپنے اتحادیوں کے ذریعے حاصل کرنے کے درپے ہے۔

یہ کہنا درست ہوگا کہ امریکی حکومت نے یمن کے مسئلے میں پہلی بار ویسٹ پوائنٹ اسٹریٹجی کو مکمل طور پر اجرا کیا ہے۔ ایک شدید جیو پولیٹیکل بحران رونما ہوتا ہے اور امریکہ نہ تو براہ راست فوجی مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے اور نہ اس میں ایسا کرنے کی طاقت ہے، جبکہ وہ اس مسئلے کو اپنے حال پر بھی نہیں چھوڑ سکتا، لہذا اپنی کٹھ پتلی حکومتوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک فوجی اتحاد تشکیل دیں اور اس مسئلے کو حل کریں جبکہ خود ان کی سیاسی، انٹیلی جنس اور لاجسٹک مدد کرنے پر ہی اکتفا کرتا ہے۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ وہ اس حکمت عملی کی مدد سے سانپ کو بھی مار سکتا ہے اور لاٹھی کو بھی بچا سکتا ہے، یعنی موجودہ مشکلات اور مسائل کو ان سے براہ راست روبرو ہوئے بغیر حل کرسکتا ہے۔ امریکہ یمن میں جنم لینے والے شدید جیو پولیٹیکل بحران کو سعودی عرب، قطر، کویت، مصر اور سوڈان کے ذریعے حل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ اس طرح عراق اور افغانستان میں ہونے والے ماضی کے تلخ تجربات دوبارہ دہرائے نہ جائیں۔ یہ بات ظاہری طور پر معقول بھی نظر آتی ہے، یعنی وہ ممالک براہ راست مداخلت کریں جو خطے کو اچھی طرح جانتے ہیں، علاقائی، قومی اور طبقاتی دقتوں سے اچھی طرح واقف ہیں اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ جنہیں اس مسئلے کے حل میں براہ راست مفادات حاصل ہو رہے ہیں۔

لیکن وہ اہم نکتہ جس سے امریکی حکام غافل رہے ہیں "مہارت" ہے۔ جب امریکی فوج، جو خود کو دنیا کی نمبر ون فوج سمجھتی ہے، ماضی کے تجربات دہرائے جانے کے خوف سے رسمی طور پر میدان جنگ سے پیچھے ہٹ جاتی ہے، تو سعودی عرب کے شرطوں اور مصر کے ایسے فوجیوں جنہوں نے سورج تک کو نہیں دیکھا، سے اس حد تک شدید اور پیچیدہ بحران کو حل کرنے میں کیا توقع رکھی جاسکتی ہے؟ جیسا کہ ویسٹ پوائنٹ اسٹریٹجی کے منتقدین نے اسی وقت یہ گمان ظاہر کیا تھا کہ اس حکمت عملی کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ انتہائی شدید اور گہرے بحرانوں کا حل ایسے کھلاڑیوں کو سونپ دیئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو انتہائی کم مہارت رکھتے ہیں، اور ان سے یہ توقع رکھے جانا کہ وہ ایسے مسائل کو حل کر پائیں گے، جن کا سامنا کرنے سے ان کا گاڈ فادر (امریکہ) کترا رہا ہے، انتہائی نامعقول امر ہے۔ 
 
یمن کا مسئلہ بہت اچھی طرح اس حقیقت کو عیاں کر دے گا کہ بیرونی مداخلت، عدم مداخلت جتنی ہی بے فائدہ ہے؛ علاقائی کھلاڑیوں کو بروئے کار لانا، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کر دینے جتنا ہی احمقانہ ہے؛ اتحادیوں کا فوجی آپریشن اسی شدت سے شکست کھائے گا، جس شدت سے امریکہ کی یکطرفہ فوجی کارروائیاں شکست کھاتی رہی ہیں؛ اور امریکہ کے علاقائی اتحادی اسی قدر ناتوان اور ضعیف ہیں جتنا خود امریکہ ناتوان اور ضعیف ہے۔ یمن کا شمار خطے کے ان چند ممالک میں ہوتا ہے جو امریکہ کو یہ سمجھا دیں گے کہ وہ اپنی اسٹریٹجک کمزوری کو ٹیکنیکل ذہانت کے ذریعے چھپا نہیں سکتا، اور اس کی "ویسٹ پوائنٹ اسٹریٹجی" کم از کم مشرق وسطٰی میں حتی ایک قصبے پر کنٹرول حاصل کرنے میں بھی سودمند ثابت نہیں ہوسکتی۔ یمن کے بحران کے بارے میں کہنے کو بہت کچھ ہے لیکن تحریر حاضر میں اس موضوع کو صرف امریکہ کی علاقائی اسٹریٹجی اور ایران امریکہ جوہری مذاکرات کے تناظر میں دیکھا گیا ہے۔ اگلے دنوں میں جیسے جیسے یمن کا بحران آگے چلتا رہے گا، انشاءاللہ اسے علاقائی سکیورٹی اور شیعہ جیو پولیٹیکس کے لحاظ سے بھی زیربحث لائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 451487
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش