1
0
Friday 17 Jul 2015 19:19

عبادات ہدف نہیں وسیلہ ہیں

عبادات ہدف نہیں وسیلہ ہیں
تحریر: سید اسد عباس تقوی

بات وہی اچھی لگتی ہے جس میں زیادہ پیچ و خم نہ ہوں بلکہ مفہوم کو براہ راست سامع یا قاری تک پہنچایا جائے۔ جب بات کو بے جا طوالت دی جائے تو پھر اس میں لطف نہیں رہتا، تاہم بعض باتوں کی جانب ذہن کو متوجہ کرنے کے لئے تمہید بہت ضروری ہوتی ہے۔ اگر ذہن کو ایک خاص سمت متوجہ کئے بغیر کوئی قیمتی بات بھی کہہ دی جائے تو نقش بر آب ہوتی ہے۔ اس کی بین مثال ہمارے درمیان قرآن کریم کا ہونا ہے۔ یہ کتاب اعلٰی ترین معارف کا مجموعہ ہے، جسے لفظوں کے پیرائے میں ہمارے لئے نازل کیا گیا ہے، تاہم چونکہ ہمارے ذہن ان معارف کی جانب متوجہ نہیں ہیں، لہذا قرآن کریم کی آیات تلاوت کرنے کے باوجود ہم پر بہت زیادہ فکری، تربیتی و روحانی آثار مرتب نہیں ہوتے، حالانکہ خود قرآن کریم میں تذکرہ ہے کہ اگر یہ آیات پہاڑوں پر اتاری جاتیں تو وہ ریزہ ریزہ ہوجاتے۔ میرے لفظ بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتے، ان میں اہمیت ان مفاہیم کی ہے جو شاید بعض متوجہ اذہان تک پہنچ جائیں۔ اس تحریر کو قلمبند کرنے کے پیچھے یہی فکر کار فرما ہے۔ یہ فکر کار فرما ہے یعنی ہدف نہیں ہے۔ اس تحریر کو قلمبند کرنے کے پس پردہ میرا ہدف کچھ اور ہے۔ آپ سے گذارش ہے کہ دعا فرمائیں کہ مجھے میرا ہدف حاصل ہو۔ بات آہستہ آہستہ کھل رہی ہے۔ ہدف، مقصد اور وسیلہ۔ مختلف امور میں ان تینوں چیزوں کا تعین نہایت ضروری ہے۔ ہم نے اکثر مذہبی و تنظیمی محافل میں سنا ہوگا کہ بذات خود تنظیم ہدف و مقصد نہیں ہے بلکہ تنظیم ہدف تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے۔ جب تنظیم ہدف و مقصد بن جائے تو ایسے گروہ کو نظریاتی گروہ نہیں کہا جاتا۔ بات کو مزید سلیس کرتا ہوں۔

فرض کیا کہ ایک انسان کا ہدف کچھ تحریر کرنا ہے تو اسے اس ہدف کی تکمیل کے لئے کیا درکار ہے؟ ظاہر ی طور پر دو بنیادی اور اہم چیزیں قلم و قرطاس ہیں۔ اب قلم کوئی بھی ہوسکتا ہے، سکے والی پنسل سے لے کر بیش قیمت قلموں تک۔ اسی طرح قرطاس بھی کئی قسموں کا استعمال کیا جاسکتا۔ کوئی بھی دانشمند انسان جو کچھ تحریر کرنا چاہتا ہے کبھی بھی قلم و قرطاس کو ہدف نہیں بنائے گا، ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ ایک معیار کو اپنائے گا، تاکہ اس کی تحریر فوراً ضائع نہ ہوجائے۔ وہ یہ نہیں کہے گا کہ جب تک 90 گرام یا سونے کے ٹکڑوں سے مزین کاغذ نہ ہو اور دنیا کا بیش قیمت ترین قلم نہ ہو، میں وہ چیز تحریر نہ کروں گا، جو تحریر کرنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی ایسا تقاضا کرے تو بنیادی طور پر اس نے قلم و قرطاس کو ہدف بنا لیا ہے۔ تحریر اس کا ہدف ہے ہی نہیں۔ پس ظاہر ہوا کہ قلم و قرطاس ہدف نہیں بلکہ وسیلہ ہیں۔ یہاں ایک اور خوبصورت نکتے کی جانب توجہ مبذول کرواتا چلوں کہ قلم و قرطاس کی افادیت کا تعلق اپنے حامل سے بھی ہے۔ اگر یہی قلم و قرطاس کسی بچے کے ہاتھ میں تھما دیا جائے تو چند آڑی ترچھی لکیروں کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، لیکن اگر یہی قلم و قرطاس کسی مفکر، دانشور اور اہل اللہ کے ہاتھ میں ہو تو معارف کے ظہور کا ذریعہ بنے گا۔ جب تحریر ہدف ہو تو یہ نہیں سوچا جاتا کہ یہ تحریر کسی قلم سے لکھی گئی ہے اور نہ ہی اس پر غور کیا جاتا ہے کہ کاغذ کیسا تھا، بس ایک متعین معیار کے مطابق قلمبند شدہ تحریر سبھی کے لئے قابل مطالعہ ہوتی ہے۔ میں اپنی حقیقی بات کے قریب پہنچ چکا ہوں۔

اللہ کی عبادت ہدف ہے یا وسیلہ؟
انسانی معاشروں میں عبادات کو اس انداز سے متعارف کروایا جاتا ہے، جس سے اندازہ یہ ہوتا ہے کہ عبادت بذات خود ہدف ہے، حالانکہ یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ عبادات ہدف نہیں بلکہ وسیلہ ہیں۔ عبادت کی شکل و صورت، وضع قطع، کیفیات، آداب پر بہت تفصیلی مباحث اہل علم کے مابین رائج ہیں۔ آداب الصلواۃ، نماز کیسے ہوتی ہے، کیسے نماز نہیں ہوتی، اسے کیسے پڑھنا چاہیے، توجہ کس طرف رہنی چاہیے، مومنوں کی نمازیں، نمازوں میں پڑھی جانے والی تعقیبات، روزے کے آداب، حج و عمرہ کے مسائل، زکوۃ و صدقات کے مسائل اور ان تمام مسائل کی تفصیلات معاملہ اس قدر وسیع ہے کہ بیچارہ عام مسلمان یہی سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے عبادت بذات خود ہدف و مقصد ہے۔ وہ اپنی عبادت کو بہت محنت کے ساتھ سنوارتا سجاتا ہے، ایسے ہی جیسے کوئی شخص قلم و قرطاس کی سجاوٹ و چناؤ پر اپنی بھرپور توجہ صرف کر دے اور اصل ہدف یعنی تحریر کو فراموش کر دے۔ ہماری زیادہ توجہ اس امر کی جانب ہونی چاہیے کہ عبادت کا اصل ہدف و مقصد کیا ہے۔ اگر ہم اس ہدف کو اولیت دیں تو اس کے بعد ہم عبادات کی مختلف صورتوں، وضعیتوں کو قبول کرنے لگیں گے۔ معاشرے میں قبولیت کا عنصر پروان چڑھے گا۔ توجہ ہدف پر رہے گی شکلوں، حالتوں اور کیفیات پر نہیں۔ کوئی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھے یا کھول کر اگر ہدف رب کی رضا ہے تو ہمیں اس پر فیصلہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ رب کائنات دلوں کی حالتوں کو جانتا ہے۔

یہ وہ مقام ہے جہاں بہت سی مباحث کے دروازے کھلتے ہیں، ہر طریقے کا پیروکار یہ کہے گا کہ میرا طریقہ پسندیدہ ہے۔ اس کے سوا جو بھی طریقہ ہے اس سے عبادت قبول نہیں، کیونکہ یہ اس وضع کے مطابق نہیں ہے، جسے میں نے اختیار کر رکھا ہے۔ ہدف رضائے خدا نہیں بلکہ میری اختیار کردہ وضع و قطع ہے۔ یہ میری وضع و قطع کے مطابق عبادت انجام دے تو اس کی ساری عبادات قبول ہیں، کیونکہ میرا ہدف حاصل ہوچکا ہے لیکن کیا عبادت کا ہدف بھی حاصل ہوا؟ میری نظر میں تمام تر عبادات کا ہدف رضائے الہی کا حصول ہے۔ وہ انسان جو واقعی ہدف کو اہمیت دیتا ہے، اس کی سعی ہونی چاہیے کہ ایسا طریقہ عبادت اپنائے جو اس کے رب کے لئے سب سے پسندیدہ ہو، لیکن ایسا عبادت گزار اس بات سے بھی آگاہ ہوتا ہے کہ رضائے الہی کا دروازہ کھولنے کے لئے میں نے بہترین کنجی کا انتخاب کیا ہے، لیکن جب تک اس کنجی کو مناسب طریقے سے استعمال میں نہیں لاؤں گا، اس وقت تک دروازہ نہیں کھلے گا۔ یہاں حامل قلم و قرطاس کا مرحلہ آتا ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں عرض کیا کہ عبادات اگر مجھ جیسا انسان بجا لائے گا تو اس کی تاثیر وہ نہ ہوگی جو کسی اہل خدا کی عبادت کی ہوگی۔ یہ وہی فرق ہے جو کاپی پنسل پکڑے بچے اور ایک دانشور کے مابین ہے۔ عبادت الہی ہر انسان پر اس کی قلبی کیفیت اور استعداد کے مطابق مختلف اثرات مرتب کرتی ہے۔ انسان جس قدر حقیقی ہدف عبادت سے آگاہ ہوگا، اسی قدر وہ اپنی منزل سے قریب تر ہوگا۔ عبادت محنت نہیں کیفیت کا نام ہے۔ خداوند کریم ہمیں اپنی حقیقی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہم ہدف عبادت یعنی رضائے خدا کو حاصل کرسکیں۔ آمین
خبر کا کوڈ : 474436
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید جہانزیب عابدی
Pakistan
جزاک اللہ تقبل اللہ
ہماری پیشکش