0
Sunday 9 Aug 2015 01:26

نیوکلیئر ڈیل، انقلاب ناقابل شکست ہے

نیوکلیئر ڈیل، انقلاب ناقابل شکست ہے
تحریر: ڈاکٹر ابوبکر عثمانی
dr.abubakrusmani@gmail.com

گذشتہ دنوں اٹھارہ روز کے طویل اور طاقت فرسا مذاکرات کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران اور P5+1 یعنی امریکہ، روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی ایک معاہدے پر متفق ہوگئے۔ امن معاہدے کے بعد عالمی میڈیا اور پاکستانی مقامی میڈیا میں مختلف طرز کے تبصرے اور تجزیے سامنے آرہے ہیں۔ ایک نکتہ نظر یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ آخرکار ایران اور اس کی انقلابی قیادت کے اعضاء بھی جواب دے گئے اور زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے ایران کو اس ملک کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے، جس کو وہ انقلاب اسلامی کے اوائل سے ہی شیطان بزرگ کہتا آرہا ہے۔ اس معاہدے پر سب سے زیادہ غاصب صہیونی ریاست یعنی اسرائیل کو تحفظات ہیں۔ جس کی تسلی و تشفی کیلئے امریکی وزیر دفاع نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا، اور اپنے پرانے موقف کو بھی دہرایا کہ ڈیل کے نتیجے میں ایران پر امریکی حملے کا آپشن ختم نہیں ہوا۔ ذیل مضمون میں اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ
(۱) ایران امریکہ اختلافات کی نوعیت اور حقیقت کیا ہے۔
(۲) حالیہ مذاکرات اور ڈیل کا محور و مرکز کیا ہے اور اس کا ان اختلافات سے اور ان کے حل سے کتنا تعلق ہے۔
(۳) نیوکلیئر ڈیل کے بعد طرفین نے کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔؟
ان تین نکات کے تجزیے سے اس سوال کا جواب باآسانی مل سکتا ہے کہ ایران نے شیطان بزرگ کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے ہیں یا نہیں۔؟

پہلے نکتہ یعنی ایران امریکہ اختلافات کی نوعیت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ 1979ء میں یعنی انقلاب سے قبل ایران میں قائم شاہ کی حکومت خطے میں امریکی مفادات کی نگران تھی، جبکہ اس سے قبل ایران کے جمہوری وزیراعظم مصدق کی حکومت کو بھی امریکہ نے سی آئی اے کو استعمال کرکے ختم کیا تھا، مصدق حکومت کے خاتمے کی تفصیلات کا پتہ ان امریکی خفیہ دستاویزات سے بھی چلتا ہے، جو امریکہ نے کچھ عرصہ قبل برملا کئے ہیں۔ 1963ء میں امام خمینی نے اپنی انقلابی اسلامی تحریک کا آغاز کیا تو اس کا بنیادی نکات میں پہلا نکتہ ہی یہی تھا کہ نہ ہم مشرق یعنی روس کے تحت رہیں گے اور نہ مغرب یعنی امریکہ کے تحت رہیں گے، بلکہ ہم اسلام کے زیرسایہ اپنی مملکت کا نظام چلائیں گے۔ دوسرا بنیادی نکتہ ملت ایران اور مملکت ایران کی خودمختاری اور استقلال کا تحفظ تھا۔ تیسرا اہم نکتہ غاصب اسرائیل کی سخت مخالفت اور آزاد فلسطین کی پرزور حمایت تھی۔ ایک اور اہم نکتہ دنیا بھر کے مظلومین اور پسے ہوئے عوام یعنی مستضعفین کی حمایت اور ظالم و استبدادی قوتوں کی مخالفت تھی۔ انقلاب اسلامی ایران کی بنیادوں کو اگر امام خمینی اور اس وقت کے متحرک عوام کے شعاروں میں تلاش کیا جائے تو یہ چار نکات باآسانی تلاش کئے جاسکتے ہیں۔ یہ چاروں نکات ایسے ہیں جو سراسر امریکی مفادات اور پالیسیوں کے برعکس ہیں، اور ان نظریات کے ہوتے ہوئے ناممکن ہے کہ شیطان بزرگ امریکہ اور ایران کے تعلقات معمول پر آسکیں۔

اب آتے ہیں حالیہ جوہری مذاکرات اور اس کے نتیجے میں طے پانے والے معاہدے کی جانب، ایران کا شروع انقلاب سے ہی یہ موقف ہے کہ وہ ایٹم بم بنانا اور اس کا استعمال ناجائز سمجھتا ہے۔ وہ نیوکلیئر توانائی کو اپنے پیٹرولیم وسائل پر انحصار کم کرنے، میڈیکل اور دیگر پرامن و تعمیری مقاصد کیلئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ این پی ٹی پر دستخط کرکے ایران اپنے آپ کو عالمی معاہدے کی صورت میں پابند بھی کرچکا ہے، چنانچہ اس کے بعد امریکہ و مغرب کو درپیش اصل مسئلہ کی جڑ کو درج بالا نکات میں ہی تلاش کیا جاسکتا ہے۔ خصوصاً ایران کی امریکہ و ظالم مخالف پالیسی اور مظلوم و مستضعفین کی حمایت، جو کہ امریکہ کو ایک آنکھ بھی نہیں بھاتی، مگر ایران نے اپنے آپ کو پابندیوں کے باوجود بھی دفاعی طور پر اتنا قابل کیا ہے کہ امریکہ یا اسرائیل اس پر براہ راست حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، ورنہ تو وہ کب کا ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا چکا ہوتا۔ لے دیکر امریکہ و مغرب کے پاس نیوکلیئر کا معاملہ تھا، جسے اٹھا کر وہ ایران کو دباؤ اور پابندیوں کی زد میں رکھنا چاہتے تھے اور طویل عرصہ ایران نے اس کا سامنا بھی کیا۔ عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ حالیہ مذاکرات موجودہ ایرانی صدر کے دور میں شروع ہوئے، جبکہ ایران کے رہبر اعلٰی امام خامنہ ای نے گذشتہ دنوں اپنی ایک تقریر میں کھل کر یہ بیان کیا کہ تین سال قبل یعنی صدر احمدی نژاد کے دور صدارت میں علاقے کی ایک اہم شخصیت امریکہ کی طرف سے یہ پیغام لے کر آئی تھی، کہ وہ مذاکرات کے ذریعے ایران پر ایٹمی حوالے سے لگائی گئی پابندیاں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ امام خامنہ ای نے واضح طور پر اس شخصیت کو بتایا کہ ہم کسی طور پر امریکہ کے وعدوں پر اعتبار نہیں کرتے، مگر اسی شخصیت کے اصرار پر مذاکرات کا یہ سلسلہ شروع ہوا۔

اپنی اسی تقریر میں امام خامنہ ای نے مذاکرات کے حوالے سے کچھ ریڈلائنز بھی بیان کیں۔ جن میں تحقیق و پیشرفت اور پرامن مقاصد کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی کا استعمال جاری رکھنے اور ایٹمی مراکز کے علاوہ دفاعی تنصیبات کو آئی اے ای اے کے دوروں میں شامل نہ کرنا نمایاں ہیں۔ نیز یہ بھی واضح کیا کہ یہ مذاکرات صرف اور صرف ایٹمی توانائی کے حوالے سے ہیں اور ایران کی دیگر پالیسیز، اس کے موقف اور امریکہ سے ان اختلافات پر ہرگز کوئی بات نہیں ہوگی۔ ان ریڈ لائنز کی روشنی میں جو معاہدہ طے پایا ہے، وہ ایران کے قانونی مراحل بھی طے کرے گا۔ جہاں اس کے منظور کرنے یا نہ کرنے کے امکانات برابر موجود ہیں، کیونکہ ایران اپنے مفادات کی روشنی میں اس معاہدے کی توثیق یا منظور کرے گا۔ نیوکلیئر ڈیل کے بعد صدر روحانی کے خط کے جواب میں امام خامنہ ای نے جو خط تحریر کیا ہے۔ اس میں بھی ان عالمی طاقتوں پر شدید بداعتمادی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عید الفطر کے خطبات میں انہوں نے واضح طور یہ اعلان کیا کہ ایران اپنی عالمی پالیسیوں پر ہرگز کوئی نظرثانی نہیں کرے گا۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایران اور امریکہ کے نظریات میں 180 درجے کا فرق ہے۔ وہ ظالم کی حمایت کرتے ہیں اور ہم مظلوم کی۔ امریکہ بچوں کے قاتل اسرائیل کی حمایت کرتا ہے اور ہم فلسطین، لبنان، اور شام کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم شام، لبنان، فلسطین، بحرین، عراق، اور یمن کی حمایت جاری رکھیں گے۔

علاوہ ازیں ایرانی وزیر خارجہ نے پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ اگر امریکہ وغیرہ اس معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے، تو ہم اس سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔ جس سے سمجھ میں یہ آتا ہے کہ امریکہ نے ان مذاکرات کے ذریعے ایران کو ٹیبل ٹاک میں شکست دینے کی تدبیر کی، اور ساتھ امریکی صدر اوباما نے اپنے آپ کو امن کا علمبردار کے طور پر یاد رکھوانے کی کوشش کی۔ دوسری طرف ایران ان مذاکرات اور ڈیل کے ذریعے اپنے منجمد اثاثے بحال کروانے اور اپنی اقتصادی صورت حال کو اس طرح بہتر بنانے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ ایک جانب ریڈ لائنز سے باہر بھی نہیں گیا اور دوسری جانب انقلاب کی بنیادوں میں شامل افکار پر بھی کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ اب اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ امریکہ کسی نہ کسی بہانے امن معاہدے کے ان نکات کی خلاف ورزی کی کوشش کرے گا، جس سے ایرانی مفادات وابستہ ہیں۔ دوسری طرف امریکی اعلٰی عہدیدار کا یہ بیان بھی حقیقت کو واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ جس میں نیوکلیئر یا نان نیوکلیئر دونوں صورتوں میں ایران کو خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ امریکہ کو اصل خطرہ ایران کے ایٹم بم سے نہیں، بلکہ ایران کے اعلٰی افکار، اسلام کے زیر سایہ حریت پسندانہ نظریات اور ظالم مخالف اور حمایت مظلوم پالیسی سے ہے، جس کی سب سے واضح مثال ایران کی اسرائیل کے حوالے سے دوٹوک پالیسی ہے۔

ایران کے رہبر اعلٰی امام خامنہ ای کی شائد ہی کوئی تقریر یا بیان ایسا ہو، جس میں فلسطین کے مسئلہ پر دوٹوک اور مجاہدانہ موقف کا اظہار نہ ہوتا ہو۔ اسی لئے امریکی وزیر دفاع نے جوہری معاہدے کے بعد بھی ایران پر حملے کی دھمکی دینی ضروری سمجھی۔ درج بالا حقائق سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ ایران ہرگز امریکہ کے آگے جھکا نہیں ہے، بلکہ درحقیقت امریکہ اور مغرب کو اپنے موقف سے پیچھے ہٹنا پڑا ہے کہ ایران کی ایٹمی صلاحیت مکمل طور پر ختم کر دی جائے۔ انہوں نے اس معاہدے کی صورت میں ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کو بھی قبول کیا ہے۔ آنے والے دن اس بات کو مزید واضح اور روشن کر دیں گے کہ اسلام کے زیرسایہ آنے والے اس ناقابل شکست انقلاب اور اس کی ظالم مخالف اور مظلوم دوست پالیسی میں ہرگز تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ ہی آئے گی۔ انشاءاللہ
خبر کا کوڈ : 478698
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش