0
Sunday 30 Aug 2015 23:49

شاہراہ قراقرم پر سفر کرنیوالے مسافر عدم تحفظ کا شکار، سکیورٹی انتظامات تشویشناک

شاہراہ قراقرم پر سفر کرنیوالے مسافر عدم تحفظ کا شکار، سکیورٹی انتظامات تشویشناک
رپورٹ: میثم بلتی

پاک چین دوستی کی عظیم علامت اور فن تعمیر کا عظیم شاہکار شاہراہ قراقرم جو کہ شاہراہ ریشم کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، ایک عرصے سے دہشتگردوں کی آماجگاہ بنی رہی اور اس شاہراہ پر سینکڑوں افراد اسی کی دہائی سے اب تک دہشتگردوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ شاہراہ قراقرم کا ایک بڑا حصہ کے پی کے سے گزرتا ہے، جبکہ بقیہ حصہ سے گلگت سے ہوتا ہوا پاکستان کو دیرینہ رفیق چین سے جا ملاتا ہے۔ حسب سابق اس بار بھی اس شاہراہ پر ممکنہ دہشتگردی کی اطلاطات آ رہی ہیں۔ شاہراہ قراقرم پر ممکنہ دہشتگرد حملوں کی اطلاعات کے بعد سکیورٹی انتہائی سخت کر دی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق سکیورٹی اطلاعات پر پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو چوکس کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردوں کے منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے سکیورٹی ادارے شاہراہ قراقرم پر کڑی نگرانی کر رہے ہیں۔ حساس اداروں کے علاوہ رینجرز، جی بی اسکاوٹس اور پولیس نے گشت میں اضافہ کر دیا ہے۔  ذرائع کے مطابق کالعدم دہشت گرد تنظیم کے ارکان کے لئے شاہراہ قراقرم پر دہشت گردی کا منصوبہ سرحد پار ایک ہمسایہ ملک میں تیار کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ سے قبل ایک اطلاع کے بعد چھاپہ مارنے کے بعد بڑی تعداد میں دہشتگردوں سے اسلحے بھی برآمد ہوا تھا۔

ان خطرات کے پیش نظر حکومت نے تمام مسافر گاڑیوں کو حفاظتی اقدامات کا حکم نامہ جاری کر دیا ہے، تاکہ مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے، لیکن مسافر گاڑیوں میں سکیورٹی کا نظام مسافروں کیلئے خود سکیورٹی رسک بن گیا ہے جبکہ برائے نام سکیورٹی کے نام پر لوٹ مار بھی زوروں پر ہے۔ ذرائع کے مطابق جب خیبر پختونخوا حکومت نے سکیورٹی گارڈ کے بغیر مسافر گاڑیوں کا داخلہ بند کر دیا تو ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے کنڈیکٹروں اور ڈرائیوروں کو سکیورٹی گارڈ کی وردیاں پہنا کر 12 بور کی بندوقیں ہاتھ میں تھما دیں، جس کے لئے ٹھیکیدار سے ماہانہ کرایے کی بنیاد پر بندوقیں حاصل کی گئیں۔ یہ سکیورٹی سسٹم لوٹ مار کا بڑا ذریعہ بنا ہوا ہے اور ماہانہ لاکھوں روپے ہڑپ کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس کی صرف ایک مثال گلگت بلتستان حکومت کی ٹرانسپورٹ کمپنی نیٹکو کی ہے، جہاں حکام نے فی بندوق 5 ہزار ماہانہ کرایے کے حساب سے کل 65 بندوقیں حاصل کیں تو صرف نیٹکو بندوقوں کے کرایوں کی مد میں ٹھیکیدار کو ساڑھے تین لاکھ روپے ادا کرتا رہے۔ نہایت مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ نیٹکو کی جانب سے کنڈیکٹروں کے ہاتھ میں جو بندوقیں تھما دی گئی ہیں، وہ 12 بور گن ہے اور اس کے لیے جو کارتوس فراہم کئے گئے ہیں، وہ پرندوں کے شکار میں استعمال ہوتے ہیں، اس کی قیمت چند ہزار روپے ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اکثر بندوقیں خراب ہیں اور جن کے ہاتھوں میں یہ بندوقیں پکڑا دی گئی ہیں، ان میں سے اکثر تربیت یافتہ بھی نہیں ہیں۔

نیٹکو کے علاوہ دوسری تمام کمپنیوں نے سکیورٹی گارڈ رکھنے کے بہانے فی سواری 500 روپے کا اضافہ بھی کر دیا ہے، نیٹکو کی بسوں کا کرایہ فی سواری 2 ہزار جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے فی سواری 2500 روپے وصول کئے جا رہے ہیں۔ ایک اہم ذریعے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سکیورٹی گارڈ کی آڑ میں اسلحے کی سمگلنگ کا خدشہ ہے، جبکہ ایک اور ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ مسافر گاڑیوں کی برائے نام سکیورٹی سسٹم اور سکیورٹی گارڈ کے ذریعے اسلحے کی بڑے پیمانے پر سمگلنگ ہو رہی ہے، جس کی تحقیقات اور کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔ ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جن کنڈیکٹروں یا ڈرائیور کو سکیورٹی گارڈ کی وردی پہنا کر بندوق تھما دی گئی ہے، ان میں سے اکثر نے زندگی میں پہلی مرتبہ بندوق ہاتھ میں اٹھائی ہے، یہ بہت بڑا سکیورٹی رسک ہے۔ سکیورٹی ادارے یہ سب جاننے کے باجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب بتایا گیا ہے کہ بسوں میں موجود سکیورٹی گن کے ساتھ صرف تین راؤنڈ دیئے جاتے ہیں، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدانخواستہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو یہ پرندوں کے شکار والی گن دہشتگردوں اور ڈاکوؤں کا مقابلہ کیسے کر سکے گی؟ شاہراہ قراقرم پر سکیورٹی خطرات کے باوجود خانہ پری کے ذریعے جان چھڑانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے۔ جس پر سنجیدگی سے نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔ اگر دہشتگردوں کی جانب سے حملے کی اطلاعات کے باوجود کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی ذمہ داری کس عائد ہوگی۔؟ سکیورٹی اداروں پر فرض ہے کہ شاہراہ قراقرم پر سکیورٹی کے فول پروف انتظامات کرے اور ان پرائیوٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے نوسربازوں سے جان چھرائیں، تاکہ مسافر اطمینان کیساتھ سفر کرسکیں۔
خبر کا کوڈ : 482235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش