0
Tuesday 22 Sep 2015 10:02

بڈھ بیر ایئربیس حملہ، آستین سے سانپوں کو نکالنے کی ضرورت ہے

بڈھ بیر ایئربیس حملہ، آستین سے سانپوں کو نکالنے کی ضرورت ہے
تحریر: تصور حسین شہزاد

پشاور کے علاقے بڈھ بیر کے ایئربیس پر حملہ کی تحقیقات میں پیشرفت کے حوالے سے ملنے والی خبروں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کے دورون خانہ معاملات کے غیر تسلی بخش ہونے کے بارے میں خدشات کو درست ثابت کر دیا ہے۔ ایئربیس پر 13 دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا، جو سب کے سب سکیورٹی فورس کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ ان ہلاک شدگان کی شناخت کیلئے ان کے فنگر پرنٹس ٹیسٹ کیلئے بھجوائے گئے، جن کے ذریعے پانچ دہشتگردوں کی شناخت ہوگئی ہے۔ 3 حملہ آور عدنان، سراج الدین اور ابراہیم کا تعلق خیبر ایجنسی سے جبکہ 2 دہشتگرد رب نواز اور شیر علی کا تعلق سوات سے تھا۔ اس حملے میں مارے جانیوالے باقی دہشتگردوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے ان دہشتگردوں کی شناخت ظاہر کئے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور وزارت داخلہ کو اس کی تحقیقات کے احکامات صادر کر دیئے ہیں۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کی شناخت افشا کرنے سے تحقیقات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ دہشتگردوں کی شناخت وقوعہ کے روز ہی ہوگئی تھی، تاہم واقعے کی حساسیت کے پیش نظر تفصیلات کو دانستہ طور پر ظاہر نہیں کیا گیا تھا، یوں بھی 8 دہشتگردوں کی شناخت کیلئے وقت درکار ہے۔ یہ دہشتگرد بظاہر پاکستانی نہیں لگتے، ان کی شہریت اور شناخت کے تعین کیلئے ادارے کام کر رہے ہیں۔

وزارت داخلہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دہشتگردوں سے متعلق تفصیلات بعض اداروں کے درمیان معلومات شیئرنگ کی وجہ سے قبل از وقت تشہیر کا باعث بنیں۔ یہی وہ خطرناک بات ہے جس نے ابھی تک ہمیں دہشتگردی کے عفریت سے مکمل نجات کی راہ نہیں دکھائی۔ 5 دہشتگردوں کے کوائف اعلٰی حکام کی منشا کے برخلاف منظر عام پر لانے والوں کے بارے میں بھی کھوج لگانے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ پتہ چلایا جاسکے کہ ہمارے انتہائی حساس اداروں میں کہاں کہاں کالی بھیڑیں چھپی ہوئی ہیں۔ جو استحکام پاکستان کیخلاف کام کرنیوالوں کی منفی سرگرمیوں میں دہشتگردوں کی سہولت کار بنی ہوئی ہیں۔ عسکری قیادت بارہا اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ ہماری جنگ صرف دہشتگردوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ ان کے ہمدردوں، بہی خواہوں، مالی اعانت فراہم کرنیوالوں کے بھی خلاف ہے۔ جب تک دہشتگردوں کے سارے نیٹ ورک تباہ کرکے ان کے فنڈز کی فراہمی، معلومات تک رسائی اور حساس مقامات کے بارے میں خبروں کے نظام کا خاتمہ کرکے انہیں اندھا، گونگا، مفلس اور قلاش نہیں کر دیا جاتا، تب تک دہشتگردی کے عفریت پر قابو پانا ممکن نہیں۔ پشاور ایئر بیس سانحہ کے مجرموں کے بارے میں نامکمل معلومات کی اداروں کے درمیان تبادلہ آرائی کے دوران جس طرح ان معلومات کا افشا ہوا ہے، وہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ہماری آستینوں میں چھپے سانپوں کی کمی نہیں۔ دہشتگردی کیخلاف جاری ہمیں اپنے مشن میں کامیابی کیلئے ان کی بیخ کنی کرنے پر بھی فوری توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اس کیلئے حساس مقامات پر تعینات ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھنا ہوگا۔ گو کہ اس پر بہت سارے اعتراضات کئے جائیں گے، بہت سی انگلیاں بھی اٹھائی جائیں گی کہ ہماری وفاداریوں پر شک کیا جا رہا ہے، یہی وہ مرحلہ ہوگا جہاں سے ہمیں مطلوبہ مشکوک افراد کی نشاندہی میں مدد ملے گی۔ یہ چیز ہمارے اہم افراد کی پیشہ وارانہ مہارت اور ان کی استعداد کار کا سخت امتحان بھی ہے۔

بڈھ بیر کیمپ پر دہشتگرد حملے کے بعد پاکستان نے اس کے ڈانڈے افغان علاقوں تک ملنے کی نشاندہی کی تھی اور عسکری ترجمان نے کہا تھا کہ دہشتگردوں کے پاس سے ملنے والے موبائل فونز کے ڈیٹا سے علم ہوا ہے کہ انہیں افغانستان سے کنٹرول کیا جا رہا تھا، جس پر افغان حکومت نے بجائے اس واردات کی تحقیقات میں تعاون کرنے کے، بلا توقف یہ کہہ دیا کہ افغانستان کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں، حالانکہ پاکستان نے افغان حکومت پر الزام عائد نہیں کیا تھا بلکہ حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں افغان حکمرانوں کو آگاہ کیا تھا کہ دہشتگرد پاکستان کیخلاف افغان سرزمین سے آپریٹ ہو رہے ہیں اور ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھی پاکستان سے ملحقہ افغان سرحد کے اندر روپوش ہیں۔ جہاں سے وہ پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے اور خودکش حملہ آوروں کو پاکستانی حدود میں داخل کرتے ہیں، اگر افغان حکومت چاہتی ہے کہ دونوں ملکوں میں امن کی بحالی ہو تو اسے پاکستان کیساتھ مل کر اپنے علاقے میں مفرور پاکستانی دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن افغان حکمرانوں نے پاکستان کی استدعا پر کبھی غور نہیں کیا بلکہ الٹا پاکستان کیخلاف ہی ہرزہ سرائی کی ہے اور اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

دریں حالات اب شنید ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں موجود کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں کیخلاف ازخود کارروائی پر غور شروع کر دیا ہے۔ بڈھ بیر میں ہونیوالے حملے اور اس سے قبل آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونیوالے ہولناک دہشت گرد حملے میں تحریک طالبان پاکستان کا ہی ایک ذیلی گروپ تحریک طالبان درہ آدم خیل ملوث ہے اور اس کے لیڈر عمر خلیفہ یا عمر نرے کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ اپنے کئی ساتھیوں سمیت افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق اگرچہ عمر خلیفہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے نائبین میں شامل ہے مگر اپنی ہولناک دہشتگردانہ کارروائیوں کی وجہ سے اس وقت وہ پاکستانی سکیورٹی اداروں کیلئے نمبر ایک دشمن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ جس کیخلاف شواہد جمع کئے جاچکے ہیں، پاکستان حکام ایک بار پھر افغانستان کے سرحدی علاقوں میں روپوش تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں کے بارے میں مکمل ثبوت اور شواہد افغان حکومت کےحوالے کریں گے اور افغان حکام سے ان کیخلاف فوری اور سخت کارروائی کا مطالبہ کیا جائے گا۔ تاہم اگر اس حوالے سے افغانستان کی جانب سے تساہل برتا گیا تو پاکستانی سکیورٹی فورسز خود بھی ان دہشتگردوں کیخلاف کارروائی کرسکتی ہیں۔ پاکستان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان کے بعض سرحدی علاقوں میں افغان سکیورٹی فورسز کا مکمل کنٹرول نہیں اور وہاں بھارت کے زیر اثر مختلف شدت پسند گروہوں کی عملداری ہے۔ جنہوں نے ان علاقوں میں اپنے ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں۔ اگر افغان حکمران حقائق سے چشم پوشی کرکے پاکستان کے ساتھ تعاون سے گریز کریں تو پھر پاکستان کو اپنی بقا کیلئے حد سے گزر جانا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 486833
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش