0
Wednesday 4 Nov 2015 09:17

اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان کو کیا ملے گا؟

اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان کو کیا ملے گا؟
رپورٹ: میثم بلتی

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ آنے والے ماہ و سال گلگت بلتستان کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کئے جاتے ہیں۔ پاک چین اکنامک کوریڈور پر بڑی تیزی سے کام ہو رہا ہے، گلگت بلتستان اس کا گیٹ وے ہے، اس لئے اس منصوبے کی کامیابی یا ناکامی میں گلگت بلتستان کا کردار سب سے اہم ہوگا۔ یہ منصوبہ اگر وفاق کے سپرد ہوتا تو شاید سو سال تک بھی نہ بن پاتا, جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 25 سال بعد بھی نامکمل ہے، لیکن سی پیک (CPEC) کی تکمیل میں پاکستان سے زیادہ چین کی دلچسپی ہے، اس لئے کہ اس کے شمال میں واقع ایک تہائی آبادی کی ترقی و خوشحالی اس سے براہ راست منسلک ہے۔ علاوہ ازیں چین کو اپنی مصنوعات بیرون ملک سستے داموں پہنچانے اور تیل و گیس کی درآمد میں اکنامک کوریڈور جیسے منصوبے کی اشد ضرورت ہے، جو اس کو گوادر جیسی بندرگاہ تک رسائی دیتا ہے۔ گوادر کا مطلب ہے کہ چین خلیج، مشرق وسطٰی اور یورپ تک رسائی حاصل کر لے گا، اس لئے ہی ہر دوسرے دن چین کی طرف سے اس منصوبے کی پیش رفت کی بابت پوچھا جاتا ہے۔

اطلاعات یہ ہیں کہ مختلف صوبوں نے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے 24 سے زائد اکنامک زونز کی نشاندہی کر دی ہے۔ خیبر پختونخوا نے مانسہرہ حویلیاں، نوشہرہ اور ڈی آئی خان کے شہروں میں اکنامک زون بنانے کی درخواست کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سوست میں بھی ٹرمینل بنے گا جہاں پر سینکڑوں مال بردار ٹرکوں کی آمدورفت ہوگی۔ وزیراعلٰی گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمٰن نے کہا ہے کہ اکنامک کوریڈور کے تحت گلگت بلتستان میں دو اکنامک زون بنیں گے۔ ان کی بات کو ہم درست تسلیم کرتے ہیں لیکن اب تک ان زونز کا فیصلہ کیوں نہیں ہوا، یہ بہت اہم سوال ہے کہ تاخیر کی کیا وجہ ہے، کیا اس میں کوئی رکاوٹ ہے یا روایتی تساہل اس کا سبب ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پہلے ہی گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ کم و بیش سولہ سو کلو میٹر طویل خنجراب گوادر شاہراہ کا تین سو کلو میٹر کا حصہ گلگت بلتستان میں واقع ہے۔

وزیراعظم نواز شریف نے اس منصوبے کو گلگت بلتستان میں معاشی انقلاب کی نوید قرار دیا ہے، حتیٰ کہ انہوں نے گانچھے میں تقریر کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو بھی خوش خبری سنا دی ہے کہ اکنامک کوریڈور کا آپ کو بھی فائدہ ہوگا، اس قدر بلند و بانگ دعوﺅں کے باوجود اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ گلگت بلتستان کو بلیک اینڈ وائٹ میں کیا ملے گا۔ وزیراعلٰی حافظ حفیظ الرحمٰن ان دنوں اسلام آباد میں ہیں، جہاں انہوں نے وفاقی وزیر اور اکنامک کوریڈور کے کرتا دھرتا احسن اقبال سے دو ملاقاتیں کی ہیں۔ ایک ملاقات میں اعلٰی حکام بھی موجوجود تھے۔ دوسری ون آن ون ملاقات تھی، ہمیں یقین ہے کہ اس ملاقات میں حفیظ الرحمٰن نے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام کا مقدمہ بھرپور انداز میں پیش کیا ہوگا۔ ہمیں یہ نہیں فراموش کرنا چاہیئے کہ گلگت بلتستان کا مقدمہ دیگر صوبوں سے مختلف ہے۔ گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے، اس کے فیصلے کرنے کا اختیار اقوام متحدہ نے کسی دوسرے کو نہیں بلکہ یہاں کے عوام اور ان کی حقیقی قیادت کو دیا ہے۔ اب اگر ان سے پوچھے بغیر ان کے حوالے سے بڑے بڑے فیصلے کئے جائیں، ان کو شامل نہ کیا جائے اور نظر انداز کر دیا جائے تو عوام میں تحفظات پیدا ہونا لازمی امر ہے۔

پاک چین اکنامک کوریڈور کے منصوبے پر 1994ء سے غور ہو رہا تھا، لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اس کی ہوا بھی لگنے دی ہو، ان کو اس وقت علم ہوا، جب سب کچھ طے ہو چکا تھا، اس صورت حال میں اگر عوام تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو غلط نہیں، پھر اکنامک کوریڈور کے حوالے سے بننے والی تمام کمیٹیوں میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں۔ اب تک سب کچھ زبانی کلامی ہو رہا ہے حالانکہ اس کی قیمت سب سے زیادہ گلگت بلتستان کے عوام کو چکانا پڑے گی۔ خود حفیظ الرحمٰن نے کہا کہ گلگت بلتستان میں امن و امان کا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے، تاکہ اکنامک کوریڈور کے منصوبے کو سبوتاژ کیا جاسکے، اب اگر اس منصوبے کی وجہ سے ہماری سکیورٹی بھی داﺅ پر لگتی ہے، امن سے بھی ہم محروم ہوتے ہیں اور ہمیں ملتا بھی کچھ نہیں تو پھر یہ سوال تو اٹھے گا کہ ہم کب تک استحصال کا شکار رہیں گے۔ اس سارے منظر نامے کے باوجود توقع ہے کہ وزیراعلٰی اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائیں گے اور پاک چین اکنامک کوریڈور سے اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرکے دم لیں گے۔ لیکن تاخیر سے گریز کیا جائے، عوام میں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے، وہ انتظار میں ہیں کہ سی پیک میں سے ان کیا ملتا ہے۔
بشکریہ: بروشال نیوز
خبر کا کوڈ : 495525
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش