0
Thursday 19 Nov 2015 20:03

لال مسجد کا مولوی، نیشنل ایکشن پلان اور سول حکومت

لال مسجد کا مولوی، نیشنل ایکشن پلان اور سول حکومت
تحریر: تصور حسین شہزاد

وفاقی حکومت نے ایک سرکلر کے ذریعے قانون نافذ کرنیوالے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، کیونکہ ان کی سرگرمیاں امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے شدید خطرہ ہیں۔ سویلین اور خفیہ اداروں کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب نے ملک میں تحریک نفاذ قرآن و سنت کے بعد ایسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں، جن میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو تحریک میں شمولیت پر قائل کئے جانے کا اندیشہ ہے۔ لال مسجد کے سابق خطیب وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے عجیب و غریب رویے بین الاقوامی برادری میں ملک کے تشخص کو خراب کرنے کیساتھ ان کی مشکوک سرگرمیاں بھی شہر میں بدامنی کا باعث بن سکتی ہیں۔ لال مسجد کے سابق خطیب کی شعلہ بیانی اور زہرناک گمراہ کن بیانات ایک عرصے سے حکومت کو دعوت مبارزت دے رہے ہیں۔

مولانا عبدالعزیز کے سابقہ طرز عمل سے پاکستان کا وفاقی دارالحکومت بہت دیر تک دہشتگردوں کے حصار میں رہا۔ یہاں تک کہ لال مسجد سانحہ رونما ہوا۔ جس نے پاکستان میں دہشتگردی کا بازار گرم کر دیا۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مساجد و مدارس کی باقاعدہ مانیٹرنگ ہو رہی ہے، اس کے باوجود اس مولوی کے فرقہ وارانہ اکساہٹ کے بیانات کا اب جا کے نوٹس لیا گیا ہے اور وہ بھی اشک شوئی سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دہشتگردی کی جنگ میں قربانیاں دینے کے باوجود ہمارے بالا دست شریک کار ہم سے مطمئن نہیں۔ بے شک امریکی وزیر دفاع پاک فوج کے سربراہ کیساتھ ملاقات میں ضرب عضب آپریشن کی کامیابیوں کو سراہتے ہوئے انسداد دہشتگردی کے اقدامات کے سلسلہ میں تعاون کا یقین دلاتے ہیں لیکن یہ اطمینان مہمان جنرل راحیل شریف کی دلدہی سے سوا نہیں، کیونکہ ماضی قریب میں بھی امریکہ ضرب عضب کی فتح یابیوں کے اعترافات کیساتھ ساتھ ہمیں حقانی نیٹ ورک کیساتھ نتھی کرکے کولیشن سپورٹ فنڈ جاری کرنے میں لیت و لعل کرتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر ممالک کی طرف سے بھی پاکستان میں دہشتگردی کے مراکز کیخلاف کارروائیوں کے مطالبات سامنے آتے رہے ہیں۔ لال مسجد کو اس حوالے سے عالمی سطح پر جانا جاتا ہے۔ جس سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے کچھ عرصہ قبل داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کو خط لکھ کر اسے پاکستان میں اپنی سرگرمیاں شروع کرنے کی دعوت دی تھی۔

یہ صورتحال ایجنسیوں سے کیسے مخفی رہ سکتی ہے۔ پھر بھی سیکرٹری خارجہ ملک میں داعش کی عدم موجودگی پر اصرار کرتے ہیں۔ این چہ بوالعجبی است؟ یا حیرت اسلام آباد پولیس ان طالبات کیخلاف قانونی کارروائی کرنے کیلئے وزارت قانون کو ایک مراسلہ بھیجتی ہے، تب بھی حکومت کی طرف سے پولیس حکام کو کوئی جواب موصول نہیں ہوتا، یہ بیڈ گورننس نہیں تو کیا ہے؟ جب تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اعلٰی سطح پر شدت پسندوں کے سرپرست موجود ہیں، تو کوئی اس پر کان نہیں دھرتا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر وفاقی حکومت کے زیر تبصرہ سرکلر کے بعد مولوی موصوف کی طرف سے ایک تحریری اور آڈیو بیان میں سرکاری اہلکاروں خصوصاً میڈیا، فوج، رینجرز اور پولیس سمیت تمام اداروں کے اہلکاروں کو حکومت کیخلاف شرعی احکامات تسلیم کرنے سے انکار پر اُکسانے پر اسے بغاوت کے الزام میں قانون کی گرفت میں کیوں نہیں لایا جاتا۔ ہمارے ارباب بست و کشاد اس کی طرف سے کبوتر کی طرح آنکھیں کیوں بند کئے ہوئے ہیں۔ ان کی اس روش پر دہشتگردوں سے برسرپیکار فوج اپنے تحفظات کا اظہار کرتی ہے تو اسے دستور سے تجاوز قرار دیا جاتا ہے۔

مولانا عبدالعزیز کا نام انسداد دہشتگردی ایکٹ کے فورتھ شیڈول میں رکھا گیا ہے۔ جس کے تحت ان کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی دوسرے شہر میں جانے کیلئے پہلے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کریں، لیکن انہیں باغیانہ بیانات جاری کرنے، ان کے زیر نگرانی مدرسے کی طالبات کیخلاف داعش کو خط لکھنے کی پاداش میں کوئی سخت کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ ہم فرانس میں داعش کی خوفناک کارروائی کی تحقیقات میں سامنے آنیوالی اس بات سے سبق کیوں نہیں لے رہے کہ پیرس کے خودکش دھماکوں کی منصوبوں بندی فرانس سے باہر بیلجیئم میں ہوئی تھی، جس میں فرانسیسی باشندے بھی شامل تھے۔ کیا ہمارے خطے میں داعش کا مبینہ سرغنہ پاکستانی نہیں؟ کیا وہ افغانستان میں بیٹھ کر دہشتگردی کی ویسی کارروائی کی منصوبہ بندی نہیں کرسکتا، جیسی ملا فضل اللہ نے اے پی ایس پشاور کیلئے کی تھی۔ آج ہمارے سول انتظامیہ کے ذمہ دار حلقوں کو مصلحت کوشی ترک کرکے پوری سنجیدگی کیساتھ نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنا چاہیے اور اس پروگرام کے اس طے شدہ نقطے کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ دہشتگرد اچھا، برا نہیں ہوتا، وہ سراسر برائی ہی برائی ہے۔ ایک ایسا عفریت جس کا خاتمہ کرنے میں ہی ملک و قوم کی بقا ہے۔ سو مولوی عبدالعزیز پر نظر رکھنے کے بجائے اسے بلا تاخیر حوالہء زنداں کیا جائے، قبل اس کے کہ اس کی سازشیں ہم میں سے کسی ایک یا بہت سوں کو حلقہ زیست سے نکال باہر کریں۔
خبر کا کوڈ : 498963
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش