0
Monday 7 Dec 2015 00:10

مشہد المقدس، مسافر خانہ حسینیہ شہید عارف الحسینی میں میرا قیام (حصہ سوئم)

مشہد المقدس، مسافر خانہ حسینیہ شہید عارف الحسینی میں میرا قیام (حصہ سوئم)
تحریر: طاہر یاسین طاہر

جس کمرے میں میں ٹھہرا ہوا تھا جیسا کہ بتایا کہ وہاں کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک علامہ صاحب اور ایک کوہاٹ کے باباجی تھے، دونوں بہت خلیق۔ اگرچہ ہمارا تعلق ایک رات تک ہی محیط رہا مگر کافی باتیں ہوئیں، علامہ صاحب عشرہ محرم پڑھنے اپنے علاقے لاڑکانہ آئے ہوئے تھے جبکہ بابا جی کسی اعلٰی مشن پر تھے۔ غالباً دو سال کے بعد گھر واپس جا رہے تھے، کافی شاداں شادں۔ ہمیں سرِ شام ہی بتا دیا گیا تھا کہ آج مسافر خانہ حسینیہ شہید عارف الحسینی میں ایک مجلسِ عزا ہے، جس سے معروف عالمِ دین علامہ جان علی شاہ کاظمی خطاب فرمائیں گے۔ مجلس کا ٹائم 9 بجے شب تھا مگر علامہ صاحب اپنی علمی و ملی مصروفیات کے بعد کافی تاخیر سے پہنچے۔ اس مجلس کا اہتمام کراچی سے آئے ہوئے ایک لٹے پٹے قافلے نے حسینیہ شہید عارف الحسینی کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کیا ہوا تھا۔ اس بےچارے قافلے کے ساتھ یہ ہوا کہ کراچی کے کوئی عون جعفری صاحب ہیں، ان کی خوش دامن ثمینہ خاتون ہیں، ان لوگوں نے جیسا کہ مجھے بتایا کہ 1200 افراد سے فی فرد 60 سے 65 ہزار روپے لئے اور انہیں کہا گیا کہ آپ کو یوم عاشورہ کربلائے معلٰی میں کرائیں گے۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ پیسے دیئے مگر کسی نے یہ نہ سوچا کہ اتنے کم پیسوں میں عراق و ایران اور شام کی زیارات کیسے ممکن ہوں گی۔؟

ثمینہ خاتون جو قافلہ کی سالار تھی، اس نے چھ لوگوں کے ٹکٹ بھی کروائے مگر القصہ کوتاہ کہ وہ بارہ سو کے بجائے 7 سو سے زائد زائرین لے کر 7 محرم الحرام کو ایران کے راستے عراق کے بارڈر تک جا پہنچی۔ چالاکی اس نے یہ کی ہوئی تھی کہ پورے گروپ کا ویزہ ایران کا تھا، وہ چاہتی تھی کہ عراق کا ویزہ بارڈر سے حاصل کر لے گی، مگر شنید ہے کہ 7 محرم الحرام کو عراق کا بارڈر سیل کر دیا جاتا ہے۔ اتنے سارے لوگوں کو عراق کا ویزہ نہیں ملا۔ قافلے میں شامل خواتین نے سالار ثمینہ کو مارا بھی اور اپنے پاسپورٹ واپس لے لئے۔ یہاں قافلے کے کچھ افراد نے بتایا کہ وہ مزید پیسوں کا تقاضا کر رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ زیارات کے لئے زائرین کو لے کر جانے والے قافلہ سالاروں اور یورپ کی طرف انسانی اسمگلنگ کرنے والوں میں کیا فرق ہے؟ دونوں انسانی مجبوریوں اور عقیدتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ثمینہ خود تو بھاگ گئی، اس کا داماد شنید ہے کہ واپس مشہد آگیا، مگر بے چارے زائرین،؟ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کے ساتھ رسوا ہوتے رہے۔ ایک کراچی والی ثمینہ ہی کیا، جو بھی قافلہ آکر ٹھہرا وہ اپنے سالار سے خوش نہ تھا۔ کئی ایک کے پاس پیسے ختم ہوچکے تھے، ان کا کرب لفظوں سے باہر ہے۔ مجھے اقبال بہت یاد آئے اس مرحلے پر۔
یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بوذر و دلقِ اویسِ و چادرِ زہرا

کسی ایک سالار سے بھی کوئی خوش ہوتا تو مجھے تسکین ملتی۔ بائی روڈ جانے والوں کی مصیبت تو سوا تھی۔ پاکستانی بارڈر پر انھیں تین سے چار اور گاہے پانچ سے چھ دن تک روک لیا جاتا کہ کم و بیش 15 سے 20 گاڑیاں ہوجائیں تو اسے آرمی اور رینجرز کے حصار میں ایک کانوائے کی صورت میں آگے بڑھایا جائے، یہ اچھی روش ہے، کیونکہ اس سے قبل دہشت گردوں نے زائرین کو بسوں سے اتار کر، ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر انھیں شہید کیا، شیعہ قیادت کی جانب سے دباؤ بڑھا تو رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ طریقہ کار اختیار کیا ہے، مگر اس میں زائرین کے لئے زحمت زیادہ ہے، سنا ہے کہ کوئٹہ سے تفتان سے کوئی 18 گھنٹے کے سفر کے دوران میں کانوائے شاید ہی کسی جگہ سٹاپ کرتا ہو، الاّ کہ بلوچستان حکومت کا بنایا ہوا پاکستان ہاؤس آ جاتا ہے۔ وہاں زائرین کو ایک بڑی سے حویلی میں بند کر دیا جاتا ہے، بسیں بھی اسی حویلی میں کھڑی ہوتی ہیں۔ میرے استفسار پہ کئی ایک زائرین نے بتایا کہ ہمیں وہی باتھ روم استعمال کرنا پڑتا ہے جو نیلے چھت کے نیچے ہوتا ہے اور اگر موسم خراب ہو جائے تو پھر اللہ ہی حافظ۔

اہم سوال مگر یہ ہے کہ قافلے میں عورتیں، بچے اور بوڑھے بھی شامل ہوتے ہیں، مگر یہ کافی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایرانی اور پاکستانی حکومت کو چاہیئے کہ ایسے سالاروں کو قافلہ لے جانے کی اجازت دے جن کی کریڈیبیلٹی اچھی ہو، جو پہلے سے ایرانی اور پاکستانی حکومتوں کو ہوٹلوں کی کنفرم بکنک کے بارے تسلی بخش جواب دے سکیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے پاس اس قدر سرمایہ ہو کہ کوئی بینک ان کا ضامن بن سکے۔ بصورتِ دیگر امام کے زائر قافلہ سالاروں کے ہاتھوں رسوا ہوتے رہیں گے۔ میں نے بہت کرب انگیز مناظر دیکھے اور اس نتیجے پہ پہنچا کہ انسان اپنے چند دوستوں کے ساتھ آئے اور اگر ضروت محسوس کرے تو ایک گائیڈ لے لے، کیونکہ بیشتر قافلہ سالاروں کو فارسی تو دور کی بات ٹوٹی پھوٹی انگریزی بھی نہیں آتی۔

رات کو علامہ جان علی شاہ کاظمی نے بہت پر اثر مجلس پڑھی، ہر آنکھ اشک بار، کوئی دو گھنٹے تک وہ مجلس پڑھتے رہے، اس کے بعد لنگر تقسیم ہوا جو کہ پاکستانی طرز کے چاول تھے، یہ مشہد المقدس میں میری پہلی رات تھی، کوئی بارہ بجے کے قریب اپنے کمرے میں واپس گیا۔ علامہ مجاہد حسین بہشتی اور کوہاٹ والے بابا جی بھی میرے ساتھ جاگ رہے تھے، ہم نے ادھر ادھر کی گپ شپ کی اور سو گئے، میں بہت تھکا ہوا تھا، نمازِ فجر ہاتھ سے جاتی رہی مگر علامہ مجاہد بہشتی حرم میں نماز، فجر ادا کر کے آئے، کمرے کا دروازہ کھلتا، بند ہوتا رہے تو نیند کہاں آتی ہے، سو میں بھی باقاعدہ جاگ گیا، واش روم گیا، ہاتھ منہ دھویا، دانت صاف کئے کہ اتنے میں کوہاٹ والے بابا جی ناشتہ لے آئے تھے۔ میں نے اور علامہ صاحب نے تاکید کی کہ آپ ہمارے بزرگوں کی جگہ ہیں، آپ یہ تکلیف نہ کیا کریں، انھوں نے مگر کہا کہ زائرین کی خدمت کرکے انھیں روحانی سکون ملتا ہے۔

ہم تین آدمی تھے، بابا جی تین سیب، ایک بڑی سے روٹی، ایک بوتل میں قہوہ اور ایک شاپنگ بیگ میں کچھ ٹکیاں لائے، ساتھ پنیر بھی تھی، ہم نے پہلے سیب کھائے، پھر توقف کیا، پھر پنیر اور روٹی کھائی، آخر میں قہوہ کا ایک ہی گھونٹ لیا کہ چھٹی کا دودھ یاد آگیا۔ بہت کڑوا، مجھے بتایا گیا کہ شاپنگ بیگ کے اندر چینی کی ٹکیاں ہیں، یہ اس قہوے میں ملا لیں تو میٹھا ہو جائے گا۔ میں نے دو، پھر تین اور پھر پانچ سے چھ تک ٹکیاں ڈالیں مگر قہوہ ویسے کا ویسا ہی کڑوا رہا، حالانکہ ایرانی اس قہوے کو بڑے ذوق سے پیتے ہیں۔ ناشتہ کیا، باہر بارش ہو رہی تھی، کچھ دیر بستر میں بیٹھے اور پھر علامہ صاحب کے کہنے پہ ہم کوچہ شہیداں میں چلے گئے کہ وہاں سے علامہ صاحب نے اپنے بیوی بچوں کے لئے قم المقدس کے لئے ٹکٹ کروانے تھے اور میں نے بھی ٹکت کی قیمت پوچھنا تھی کہ بہرحال مجھے بھی ایک دو روز میں قم المقدس اور تہران جانا تھا، جہاں زیارات کے ساتھ ساتھ کچھ دوستوں سے ملاقات طے تھی، مگر میرے ساتھ کیا ہوا؟ کوشش کروں گا کہ اگلے مرحلے میں اس سفر نامے کو سمیٹ دوں۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 503116
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش