0
Friday 25 Dec 2015 10:46

رسول اکرمؐ، مرکز اتحاد

رسول اکرمؐ، مرکز اتحاد
تحریر: ثاقب اکبر

توحید پرستی کی روح میں اتحاد انسانیت کا پیغام اور تصور مضمر ہے۔ جب ایک نبی رب العالمین نمائندہ بن کر آتا ہے تو وہ انسانیت کو کسی عارضی اور اعتباری بنیاد پر تقسیم نہیں کرسکتا۔ اس کا خدا سارے بندوں کا رب اور معبود ہے۔ سارے بندے اس کی مخلوق ہیں۔ زبان، رنگ، نسل اور جغرافیے کی تقسیم بندوں کے شرف پر کوئی اثر انداز نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء تقویٰ کو فضیلت کا معیار گردانتے ہیں۔ سارے نبی خدا تعالٰی کے پیامبر ہیں، اس لئے وہ ایک ہی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی کو قرآن کریم ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہٖ
ہم اس کے رسولوں میں کسی قسم کی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔

آنحضرتؐ نے اپنے آپ کو ماقبل کے انبیاء سے منسلک کیا اور اپنے آپ کو اسی سلسلے کی آخری کڑی قرار دیا۔ آپؐ کے ماننے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ ماقبل کے انبیاء اور ان پر نازل ہونے والی آسمانی صداقتوں اور تعلیمات پر ایمان لائے۔ حقیقت مومن سب نبیوں پر ایمان لاتے ہیں، ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی کتابوں پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ یہ ایمان معمولی ایمان نہیں ہے بلکہ سب انبیاء کی امتوں کے ساتھ آخری نبی کی امت کو جوڑتا ہے اور اتفاق و وحدت کی ایک عظیم اور ولولہ انگیز فضا کو وجود میں لاتا ہے۔ یہ ایک بہت عظیم پیغام ہے۔ یہ سب امتوں کی طرف گویا محبتوں کے بازو پھیلا دینے کا نام ہے۔ تمام امتوں کو بھی چاہیئے کہ جواب میں اس امت اور اس کے نبی کی طرف محبت کے بازو پھیلا دے۔ اس طرح سارے انسانوں کے مابین دوستی اور قربت کا ایک لازوال رشتہ قائم ہو جائے گا۔ آخری نبی کی امت کو بھی یہ پیغام سمجھنا ہے اور دیگر امتوں کو بھی اچھا جواب دینا ہے۔ عالم بشریت کے لئے یہی راستہ دوستی اور امن و سلامتی کا راستہ ہے۔ گویا آنحضرتؐ کا وجود ساری بشریت کے لئے مرکز اتحاد کی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن حکیم، آنحضرتؐ کے ارشادات اور آپؐ کی سیرت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کی تعلیمات ساری انسانیت کے لئے خیر اور بھلائی کا پیغام رکھتی ہیں۔ قرآن مجید نے آنحضرتؐ کو رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے، آپؐ کے اخلاق کریمہ کو خلق عظیم کہا ہے اور ظلمات کے مقابلے میں آپؐ کے وجود مبارک کو نور اور سراج منیر قرار دیا ہے۔ آپؐ کو قرآن مجید نے انسانیت کا مونس و غم خوار اور ہمدرد کہا ہے۔ قرآن حکیم کی اخلاقی تعلیمات کسی ایک گروہ، نسل، علاقے اور زمانے کے لئے نہیں ہیں۔ اسلام سب کے لئے سلامتی کا خواہاں ہے۔ قانون کی بالادستی اور قانونی مساوات کا سبق آنحضور کے ذریعے بشریت تک پہنچا۔ آپ نے خواتین کے حقوق کا پرچم بلند کیا۔ انھیں اپنی زندگی کے امور میں اختیار بخشا۔ شادی اور نکاح کے لئے ان کی رضا مندی کو ضروری قرار دیا۔ عورتیں آپؐ سے پہلے وراثت سے محروم چلی آرہی تھیں، آپؐ نے انھیں وراثت میں حصہ دار بنا دیا۔ آپؐ نے غلامی کے سلسلے کو ختم کرنے کے لئے خوبصورت اور محکم بنیادیں رکھیں۔ طرح طرح کے احکام میں غلام آزاد کرنے کی سبیل نکالی اور غلاموں کے لئے حقوق مقرر کئے۔ ہمسایوں کے حقوق مقرر کئے اور یہاں تک فرمایا کہ جو اس حالت میں پیٹ بھر کر سو رہے کہ اس کا ہمسایہ بھوکا رہے تو وہ مسلمان ہی نہیں۔ آپؐ نے جنگ میں کبھی پہل نہیں کی اور جنگ مسلط کئے جانے کی صورت میں جنگوں کے لئے سنہری اصول مقرر کئے۔ آپ نے لاشوں کے لئے بھی احترام اور حقوق کا اعلان کیا۔ دوسری مذہبی عمارتوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا۔ دوسروں کے مذہبی راہنماؤں کا احترام کرنے کا حکم دیا۔ فصلوں، باغات، پانی اور جانوروں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا۔ کیا یہ تمام تعلیمات کسی ایک گروہ یا کسی ایک مذہب کے ماننے والوں کے فائدے میں ہیں یا تمام انسانوں، انسانی زندگی اور انسانی معاشرے کے فائدے میں ہیں۔ چونکہ ان تعلیمات میں سب کی بھلائی اور خیر خواہی کا راز چھپا ہوا ہے، اس لئے آپؐ حق رکھتے ہیں کہ بغیر کسی تفریق و تقسیم کے اور بغیر کسی تعصب و تنگ نظری کے آپؐ کو انسانیت کا راہنما مان لیا جائے۔

یہ امت مزید تعجب انگیز جاذب فکر و نظر ہے کہ ایسی تعلیمات کے حامل پیغمبرؐ نے زبردستی دوسروں کو دعوت دینے اور اپنے دین میں داخل کرنے کا راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ ’’لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ‘‘ کے قرآنی دستور کو اپنے عمل و تعامل کی روح بنایا۔ اہل کتاب کو دعوت دی کہ آؤ وہ ایک کلمہ جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے، اس پر اکٹھے ہو جائیں۔ آپؐ نے اہل کتاب ہی نہیں پرامن رہنے والے مشرکین کے ساتھ امن و صلح کے معاہدے کئے۔ میثاقِ مدینہ میں ان مشرکین کو بھی اپنا حلیف بنا لیا، جو اوس و خزرج قبائل سے تعلق رکھتے، مدینے کے باسی تھے اور ابھی انھوں نے آپؐ کا دین اختیار نہ کیا تھا۔ ایسے نبی کی امت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں۔ ان کی فکر و نظر میں جس وسعت کی ضرورت ہے، وہ محتاج بیان نہیں۔ انہیں آپؐ کا اسوہ حسنہ اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جمود فکر، عدم برداشت، انتہا پسندی، شدت پسند اور حریت فکر پر قدغن لگانا یہ آنحضرتؐ کے دشمنوں کا رویہ تھا، آپؐ کا نہیں۔ آپؐ کے دشمنوں نے آپؐ کے ساتھیوں کو حبشہ کی طرف ہجرت پر مجبور کیا۔ انھوں نے ساڑھے تین برس تک آپؐ کا مقاطعہ کرکے آپؐ کو اپنے خاندان کے ساتھ شعب ابی طالب میں محصور رکھا اور آپؐ سے ہر قسم کے لین دین اور خرید و فروخت پر بے رحمانہ پابندیاں عائد کر دیں۔ پرامن طریقے سے دعوت دینے کے جرم میں اوباشوں اور بچوں کو آپؐ کے پیچھے لگا دیا اور آپؐ پر ایسا پتھراؤ کیا کہ خون بہ بہ کر آپؐ کے پاؤں تک پہنچا، جس کی وجہ سے آپؐ کا پاپوش مبارک آپؐ کے پاؤں کے ساتھ جم گیا۔ آپؐ کی ثابت قدمی کے مقابلے میں فکری شکست کھانے کے بعد آپ کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے لئے سب قبائل نے ایکا کر لیا، جس کے نتیجے میں آپؐ کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔

امت محمدیہ کو آج اپنا جائزہ لینا ہے کہ کیا ان کے وجود سے اسوہ حسنہ کی تجلیاں نمایاں ہیں یا آپؐ کے دشمنوں کے طرز عمل کی ظلمتیں ہویدا ہیں۔ ہم جن کی امت ہیں، انہی کے نور کی تابانیوں سے ہمارے وجود کو جگمگانا چاہیئے، تاکہ نہ فقط دشمنوں کو ہمارے خلاف کچھ کرنے کا موقع نہ ملے بلکہ دین اسلام کی طرف دیگر قومیں بھی راغب ہوں اور وہ اس دین کی آفاقی اور نورانی تعلیمات ہی کو دنیا و آخرت میں اپنی نجات کا ضامن سمجھیں۔ آنحضرتؐ نے اپنے پیروکاروں کو بھی ایک نمونے کی امت بننے کے لئے اعلٰی اور خوبصورت تعلیم دی۔ آپ نے مسلمانوں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنے کی تلقین فرمائی۔ آپؐ نے فرمایا سارے مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں، جب جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے قرار ہو جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ آپ نے فرمایا جس نے مسلمان پر اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اب دیکھنا چاہیئے کہ کون ہے جو مسلمانوں کو وحدت و اتحاد اور اخوت و برادری کی دعوت دیتا ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ یقینی طور پر آنحضرتؐ کا پیروکار اور اس امت کا خیر خواہ ہے۔ دوسری طرف ہر وہ شخص جو مسلمانوں میں نفرتیں بانٹتا ہے، ان کے خلاف اسلحہ اٹھاتا ہے اور فرقہ واریت کو ہوا دیتا ہے، اس کے راہ ہدایت سے منحرف ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیئے۔

آنحضرتؐ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنے والے سب ایک امت ہیں۔ کلمہ لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ، وحدت آفریں ہے۔ آنحضرتؐ کی محبت میں مسلمانوں کا مشترکہ سرمایہ ہے۔ ماہ ربیع الاول آنحضرتؐ کی ولادت با سعادت کا مہینہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں آنحضرتؐ کے ہر امتی کو آپؐ سے محبت اور آپؐ کی اطاعت کے عہد کی تجدید کرنا چاہیئے۔ آیئے ایک نمونے کی امت بننے کا عہد کریں، ایسی امت جو ساری انسانیت کی فلاح و نجات کی پیامبر ہو۔ آیئے اللہ اور آخری رسول حضرت محمدؐ کو اپنا حقیقی مرکز اتحاد بنا لیں۔ آپؐ کی آفاقی تعلیمات کو سب انسانوں تک پہنچانے اور مظلوم انسانیت کی نجات کے لئے ایک ہو جائیں۔ اس ماہ مبارک میں اگر ہم نے یہ عہد کر لیا تو یقینی طور پر ان برکتوں سے ہم نے اپنا حصہ پا لیا۔ اللہ تعالٰی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اللھم صلی علیٰ محمد وآل محمد۔
خبر کا کوڈ : 507813
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش