0
Sunday 7 Feb 2016 22:58

عطار اور لونڈا شام میں زمینی کارروائی کیلئے تیار

عطار اور لونڈا شام میں زمینی کارروائی کیلئے تیار
تحریر: نادر بلوچ

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ دہشتگردی کے خلاف 34 رکنی سعودی اتحاد جسے سنی اتحاد کا نام دیا گیا، اس کا سب سے پہلے امریکہ نے خیرمقدم کیا، لوگ حیران تھے کہ اگر یہ اتحاد دہشتگردی کیخلاف بنا ہے تو اس میں دہشتگردوں سے لڑنے والے ممالک یعنی ایران، عراق، افغانستان اور شام جیسے ممالک اس اتحاد سے باہر کیوں ہیں؟ جبکہ حقیقیت یہ ہے کہ مذکورہ ممالک تو داعش سمیت تمام دہشتگرد گروپوں کیخلاف پر برسر پیکار ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ پاکستان کو بھی اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا اور اسلام آباد انکار کئے بغیر نہ رہ سکا، البتہ یہ کہہ دیا کہ ہم شام کے معاملے پر اصولی موقف رکھتے ہیں، یعنی وہاں کسی زمینی کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس اتحاد کا بنیادی مقصد کیا ہے؟، اس لئے پہلے ہی واضح کر دیا گیا کہ ہم کہاں ساتھ دیں گے اور کہاں نہیں۔ ویسے سب حیران ہیں کہ اس اتحاد کا مقصد کیا ہے؟، البتہ اب سعودی عرب نے ایک اعلان کرکے سب کی یہ مشکل حل کر دی ہے، سعودی عرب کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہ شام میں داعش کیخلاف امریکہ کی زیر قیادت اتحاد میں زمینی فوجی کارروائی کرنے کیلئے تیار ہے۔

دوسری جانب امریکہ نے بھی دل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔ یعنی اصل سٹوری سمجھ آگئی ہے کہ معاملہ کیا ہے؟، ترکی زمین کارروائی کیلئے اپنی سرحد پیش کرنے کیلئے آمادہ ہے تو امارات نے بھی جوائن کرنے کا گرین سگنل دیدیا ہے، بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ اس 34 رکنی ممالک کے اتحاد سے یہی کام لیا جائیگا کہ وہ بشار الاسد کو ہٹانے کیلئے طاقت کا مکمل استعمال کریں۔ ادھر روس نے سعودی عرب کے اس بیان پر سخت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ریاض نے ایسا کچھ کیا تو اسے جنگ تصور کیا جائیگا۔ روس نے واضح کیا ہے کہ شامی حکومت کی مرضی کے خلاف کسی بھی ملک نے اس کی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تو اسے بطور جنگ تصور کیا جائیگا۔ جمہوری اسلامی ایران نے بھی دو ٹوک انداز میں واضح کیا ہے کہ یہ سعودی عرب کی بہت بڑی غلطی ہوگی۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر جنرل محمد علی جعفری نے کہا ہے کہ خطے میں اسلامی مزاحمت کے محاذ کے خلاف سارے اقدامات ناکام ہوچکے ہیں۔ دشمنوں کی سازشوں کے باوجود اسلامی انقلاب روز بروز ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔

سپاہ پاسداران کے کمانڈر جنرل جعفری کا کہنا تھا کہ جب تسلط پسندانہ نظام سرحدوں پر دھونس و دھمکی کے ذریعے اسلامی مزاحمتی محاذ کو نقصان نہیں پہنچا سکا تو اس نے لبنان، فلسطین، شام اور عراق جیسے ملکوں میں جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ تسلط پسندانہ نظام یہ بات سمجھ چکا ہے کہ اسلامی مزاحمت کے خلاف کوئی بھی حربہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، آٹھ سالہ مقدس دفاع ایک عظیم الٰہی کارنامہ تھا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے ڈپٹی کمانڈر انچیف بریگیڈیئر جنرل حسین سلامی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا برّی فوج شام بھیجنا ایک سیاسی لطیفہ ہے۔ سعودی عرب کی فوجی طاقت عالمی رائے عامہ کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ بظاہر خطہ ایک نئی اور بڑی جنگ کی طرف تیزی کے ساتھ جا رہا ہے، امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا داعش سے جنگ کرنے کا نعرہ ایک فریب سے بڑھ کر کچھ نہیں، دنیا جان گئی ہے کہ جس عطار اور اس کے لونڈے کی وجہ سے یہ پورا خطہ خون میں غلطاں ہوا ہے اور مسلمانوں کی ترقی اور پیشرفت کے تمام اسباب کو خاک و خون میں ملا دیا گیا ہے، اب وہی عطار اور اس کا لونڈا داعش کیخلاف کیسے جنگ لڑ سکتا ہے؟۔ یہ اس وقت دنیا کا یہ سب سے بڑا مذاق تصور کیا جا رہا ہے، کیوںکہ دنیا جان گئی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی داعش اور جھبۃ النصرہ سمیت تمام دہشتگرد گروہوں کو اپنے مطلب کیلئے سپورٹ کرتے ہیں، اگر یہ واقعاً دہشتگردی کے خلاف جنگ کرنے میں سنجیدہ ہوتے تو سب سے پہلے تو یہ دہشتگردوں کی فنڈنگ روکتے اور اسلحہ دینا تو بند کرتے۔ اگر وہ یہ کام کر نہیں سکتے تو وہ کس کو پاگل بنا رہے ہیں؟؟

کون نہیں جانتا کہ جنیوا میں مذاکرات کے نام پر رچایا جانے والا ڈرامہ کیا ہے، کون نہیں جانتا کہ دہشتگردوں سے شام میں اہم علاقے چھن چکے ہیں اور اس وقت بشار الاسد کی رٹ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ داعش اور جھبۃ النصرہ کو کس نے پیدا کیا؟، کس نے بوکو حرام کو جنم دیا، کس نے طالبان اور لشکر بنائے؟، کون انہیں فنڈنگ دیتا رہا اور اب بھی دیتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اس معاملے پر واضح اور دوٹوک فیصلے کرنا ہوں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو 15 سے 20 ارب ڈالر دینے کیلئے راضی ہوگیا ہے اور جلد ایک سعودی وفد پاکستان آرہا ہے۔ یہ پیسے بھلے قرضے کی شکل میں ہی کیوں نہ ملیں، لیکن اس کی بہرحال قیمت مانگی جائے گی۔ پاکستان کو شام کے معاملے سے دور رہنا ہوگا، ورنہ روس کے ساتھ قربتیں پھر نفرت اور دوری میں تبدیل ہوجائیں گی اور ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوجائیگا جسے بند کرنا کسی کے اختیار میں نہیں ہوگا۔ اس جنگ کے شعلوں سے کوئی محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم افغان جنگ کے اثرات ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اُس وقت یہ عظیم جہاد ہوا کرتا تھا، جسے امریکہ اور سعودی عرب سمیت خطے کے عرب ممالک سپورٹ کیا کرتے تھے، لیکن آج وہی عظیم جہاد دہشتگردی میں بدل گیا ہے۔ حیرت اس بات کی ہے کہ نائن الیون سے لیکر آج تک امریکہ اور اس کے اتحادی دہشتگردی کی کوئی تعریف نہیں کر پائے۔ اب یہ بھی سوچنے والی بات ہے کہ یہ تعریف کر نہیں پائے یا اس لئے نہیں کرسکے کیونکہ جو بھی دہشتگردی کی تعریف سامنے آئے گی، اس میں یہ خود کو براہ راست ملوث پائیں گے۔
خبر کا کوڈ : 518987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش