0
Tuesday 1 Mar 2016 23:18

ترکی کی خطرناک خارجہ پالیسی

ترکی کی خطرناک خارجہ پالیسی
تحریر: حامد شہبازی

ترکی نے شام میں "حکومت کی تبدیلی" پر مبنی خونی راستے کا انتخاب کرکے، کردوں اور روس سے ٹکر لے کر خود کو انتہائی خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ موجودہ ترک حکمرانوں نے اپنی پالیسی کو تنازعات کی شدت میں اضافے اور خطے کو شدید چیلنجز سے روبرو کرنے پر استوار کر رکھا ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ ایسی پالیسی انہی افراد نے اپنا رکھی ہے جنہوں نے ایک دہائی قبل ترکی کی جدید، تخلیقی اور کامیاب خارجہ پالیسی کی بنیاد ڈالنے میں اہم اقدامات انجام دیئے تھے۔ یہ افراد درحقیقت ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان اور وزیراعظم احمد داود اوگلو کی ٹیم ہے۔ وہ کون سے غلط اقدامات ہیں، جن کے باعث ترکی شدید بحرانی کیفیت کا شکار ہوچکا ہے، نقصان دہ اور منفی اثرات سے متاثر ہوئے بغیر اس بحرانی کیفیت سے باہر نکلنا ترکی کیلئے ناممکن دکھائی دیتا ہے؟ رجب طیب اردوگان اور داود اوگلو اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں ترکی کو ختم نہ ہونے والے بحران کا شکار کر دیں گے۔ ترکی میں انجام پانے والے حالیہ بم دھماکے اس نامعقول پالیسی کے منفی اثرات کا چھوٹا سا حصہ ہے۔ اگر ترکی گذشتہ عشرے کے سنہری دور کی جانب پلٹنا چاہتا ہے تو اسے جلد از جلد خود کو شام کی دلدل سے باہر نکالنا ہوگا اور داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کی حمایت بند کرنا ہوگی، جنہوں نے خطے کو خونی بحرانوں کا شکار کر دیا ہے۔ ایسا سنہری دور جس کے دوران ترکی خطے اور عالمی سطح پر باعزت ہوچکا تھا، مغربی طاقتوں اور اس کے اتحادی ممالک جیسے اسرائیل کے ظالمانہ اقدامات کے خلاف شجاعانہ موقف اپنا کر نہ صرف ستم دیدہ اور مظلوم ممالک بلکہ طاقتور ممالک کے دل میں بھی احترام حاصل کرچکا تھا۔

درحقیقت شام سے متعلق ترکی کی خارجہ پالیسی ہر چیز سے زیادہ عالمی سطح پر ترکی کا امیج خراب ہونے کا باعث بنی ہے۔ اگرچہ شام میں جاری بحران کا حقیقی ذمہ دار ترکی نہیں، لیکن رجب طیب اردوگان نے اس بحران کے شدید ہونے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ترکی نے شام میں سرگرم تکفیری شدت پسند گروہوں کی مدد کرکے ایسے بحران کی شدت میں اضافہ کیا ہے، جس کا نتیجہ بیگناہ افراد کے قتل اور بے گھر ہو جانے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اس بحران نے شام کو کھنڈر میں بدل دیا ہے اور فرقہ وارانہ تنازعات کی شدت میں اضافہ کر دیا ہے۔ انقرہ کی اپنائی گئی پالیسیوں کے نتیجے میں ترکی کے بعض ایسے ممالک سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں، جو اس کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں، جیسے ایران، عراق، روس، چین، کرد علاقے اور حتی شام۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یورپی یونین اور امریکہ ترکی کے قریبی اتحادی ہونے کے باوجود اس کے بعض اقدامات پر اعتراض اور پریشانی کا اظہار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ ترکی نے ان ممالک کی پریشانی دور کرنے کی بجائے سعودی عرب کے ساتھ انتہائی غیر واضح اور خطرناک اتحاد قائم کر لیا ہے، جس کی مستقبل کی پالیسیاں انتہائی مبہم ہیں۔ دوسری طرف ترکی نے روس سے ٹکر لے کر خود کو انتہائی خطرناک اور نقصان دہ صورتحال کا شکار کر لیا ہے، جس میں سو فیصد نقصان ترکی کو ہی ہے۔

اگر ترکی خود کو اس دلدل سے باہر نکالنا چاہتا ہے تو اسے یہ حقیقت قبول کرنا پڑے گی کہ مستقبل قریب میں صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی ممکن نہیں، لہذا اسے شام کی موجودہ حکومت کے خلاف دشمنانہ پالیسی کو ترک کرنا ہوگا۔ روس، امریکا، چین اور بعض دوسرے ممالک صحیح طور پر اس حقیقت کو جانچ چکے ہیں کہ صدر بشار الاسد کی اقتدار سے علیحدگی کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ہوسکتا ہے کہ صدر بشار الاسد کے بعد برسراقتدار آنے والا حکمران شام کی بحرانی صورتحال کی شدت میں مزید اضافے کا باعث بن جائے۔ شام حکومت کی سرنگونی پر مبنی پالیسی کا تسلسل ترکی کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوسکتا اور حقیقت یہ ہے کہ ترکی اس جوئے میں کچھ پانے سے زیادہ کچھ کھو دے گا۔ اسی طرح انقرہ کو چاہئے کہ وہ شام کے مسئلے کا پرامن راہ حل تلاش کرنے کیلئے ایسے ممالک سے تعاون کرے، جو حقیقتاً شام میں موجود خانہ جنگی اور سکیورٹی بحران کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسری طرف ترکی کو سعودی عرب کی جانب سے دمشق کو فتح کرنے کیلئے سنی ممالک کی مسلح افواج پر مشتمل ایک بین الاقوامی سنی فوج کی تشکیل پر مبنی خطرناک منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے ہر قسم کے تعاون سے گریز کرنا چاہئے۔ ترکی کو چاہئے کہ وہ اپنی ماضی کی پالیسی کی جانب لوٹ آئے، جو خطے میں فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے پر مبنی تھی۔ ترک معاشرہ سنی اکثریت پر مشتمل ہے، جس میں شیعہ اور علوی باشندے سنی باشندوں کے ساتھ پرامن زندگی بسر کر رہے ہیں۔ خطے اور عالمی سطح پر ترکی کا احترام گذشتہ ایک عشرے کے دوران اس کی جانب سے شیعہ اور سنی تعصب سے عاری پالیسی اختیار کرنے کا مرہون منت ہے۔ لہذا ترکی کو سعودی عرب کی متعصبانہ پالیسیوں کی پیروی نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنی شیعہ کمیونٹی کا اعتماد کھو دے گا، جبکہ سعودی عرب کی متعصبانہ نگاہ حتٰی سنی معاشروں میں بھی قابل قبول نہیں۔

اسی طرح اگر ترکی اپنا کھویا ہوا احترام اور حیثیت واپس لوٹانا چاہتا ہے تو اسے ایران کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری لانا ہوگی۔ خطے کے استحکام اور خطے میں موجود تنازعات اور بحرانوں کے پرامن حل میں ایران کا کردار کسی وضاحت کا محتاج نہیں اور یہ کردار ترکی کی اسٹریٹجک پالیسیوں اور معیشت کیلئے انتہائی اہم ہے۔ ترک حکام نے خطے سے متعلق اپنی نامعقول پالیسیوں خاص طور پر شام میں برسراقتدار صدر بشار الاسد کی حکومت گرانے پر اصرار کے باعث ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو خراب کر لیا ہے۔ دوسری طرف ترکی کو چاہئے کہ وہ فرقہ وارانہ تنازعات کے خاتمے کیلئے عراق حکومت سے قریبی تعاون کرے۔ ترکی کی جانب سے خود کو عراق کے سنی باشندوں کا حامی ظاہر کرنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا، کیونکہ ٹوٹے ہوئے عراق کا فائدہ ترکی کو بھی نہیں ہوگا۔ ترکی کے بغداد کے ساتھ اعلٰی سطحی اقتصادی تعلقات قائم ہیں جبکہ کردستان میں دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے پیش نظر ترکی عراق میں موجود فرقہ وارانہ تنازعات کے حل کیلئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ترکی کو اپنی خارجہ پالیسی میں اصلاح کیلئے سعودی عرب سے اسٹریٹجک تعلقات بھی ترک کرنا ہوں گے۔ سعودی عرب ان تمام اقدار کا مخالف ہے، جنہیں ترکی نے اپنی پہلی ترجیحات قرار دے رکھا ہے، جیسے اعتدال پسندانہ اسلام، مذہبی رواداری، قومی رواداری، فرقہ واریت کا خاتمہ، دوسرے ممالک کے اندرونی مسائل میں عدم مداخلت، ثقافتی عوامل اور نرم طاقت کا استعمال وغیرہ۔ ریاض نے ترک حکام کے ذہن میں یہ غلط تصور ڈال رکھا ہے کہ ترکی سنی باشندوں کے ہیرو میں تبدیل ہوسکتا ہے اور اس طرح انہیں بشار الاسد، ایران، عراق اور یمن کے شیعہ باشندوں کے خلاف متحد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگر ترکی دوسری خلیجی ریاستوں سے تعاون کی بنیاد فرقہ واریت سے ہٹ کر دوسرے عوامل پر استوار کرے تو اس کے خطے کیلئے انتہائی مثبت اثرات ظاہر ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح ترکی کو چاہیئے کہ وہ روس سے اپنے تعلقات کو پہلی ترجیح قرار دے اور روس کے مقابلے میں نیٹو کا سہارا لینے سے باز رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے روس نے شام میں فوجی مداخلت کا آغاز کیا ہے، اس ملک میں ترکی کا اثر و رسوخ اور آزادانہ اقدامات کا دائرہ بہت کم ہوگیا ہے۔ دوسری طرف انقرہ روس کو سفارتی میدان میں بھی شکست دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ شام میں جاری بحران کے سیاسی راہ حل کے حصول میں روس کی پوزیشن ترکی سے زیادہ مضبوط ہے، چاہے انقرہ اس حقیقت کو قبول کرے یا نہ کرے۔ اگر ترکی اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں لائے تو روس کے ساتھ اس کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے۔ اسی طرح تمام کرد باشندوں سے قریبی تعلقات قائم کرنا بھی ترکی کے مفاد میں ہے۔ ماضی میں ترکی نے معقولانہ پالیسیوں کے ذریعے عراقی کردوں سے اتنے اچھے تعلقات استوار کئے کہ وہ تقریباً اس کے اتحادی جانے جاتے تھے۔ لیکن رجب طیب اردوگان کی پالیسیوں کے باعث ترکی اور کرد قوم پرست جماعت پی کے کے میں شدید تناو پیدا ہوگیا۔ ترکی نے اب تک شام میں سرگرم کرد تنظیموں سے تعاون کرنے سے گریز کیا ہے، جبکہ یہ کرد گروہ اور تنظیمیں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ میں انتہائی موثر ہتھیار ثابت ہوسکتی ہیں۔ اس بات کا امکان بھی پایا جاتا ہے کہ ترکی کردوں کے خلاف ایک بڑی جنگ کا آغاز کر دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ فوجی میدان میں ان پر غلبہ پا جائے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ سیاسی میدان میں اسے ضرور شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خطے میں کرد باشندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اور گذشتہ 25 برس کے دوران کردوں کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کردوں نے خطے میں رونما ہونے والی ہر بدامنی اور تنازعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی برادری میں اپنی مکمل خود مختاری کا مطالبہ تیز کیا ہے اور اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ اگر ترکی کسی بھی خطے میں کردوں کی خود مختاری کے خلاف کوئی عملی اقدام انجام دے گا تو اس کے نتیجے میں کردوں کو اپنے سیاسی مطالبات پیش کرنے کا بہانہ ہاتھ آ جائے گا، لہذا ایسا کوئی بھی اقدام کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے نتیجے میں ترکی اور کردوں کے درمیان تعلقات مزید کشیدگی کا شکار ہو جائیں گے۔ ترکی کی خارجہ پالیسی میں مثبت تبدیلیاں صرف اس صورت میں ممکن ہیں، جب ترک حکام سوچ سمجھ کر عاقلانہ فیصلے کریں اور قومی مفادات کو اپنے ذاتی یا گروہی مفادات پر قربان نہ کریں۔ ایک وقت ایسا تھا جب رجب طیب اردوگان "ملک کے اندر اور سرحدوں سے باہر امن" کا نعرہ لگایا کرتے تھے اور اس پر عمل پیرا بھی تھے۔ لیکن اب وہ یہ نعرہ ترک کرچکے ہیں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دشمنانہ پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔
خبر کا کوڈ : 524820
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش