0
Friday 11 Mar 2016 14:53

سعودی عرب کی بدلتی خارجہ پالیسی

سعودی عرب کی بدلتی خارجہ پالیسی
تحریر: محمد صرفی

موجودہ سعودی فرمانروا ملک سلمان بن عبدالعزیز کی سلطنت کے آغاز سے ہی سعودی عرب نے اپنی خارجہ پالیسی میں بنیادی تبدیلیاں انجام دیں اور خطے سے متعلق ایسی پالیسیاں اختیار کیں، جن کی مثال سعودی عرب کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس نئی خارجہ پالیسی کے تحت پہلا قدم "فیصلہ کن طوفان" کی شکل میں یمن کے خلاف سعودی فوجی جارحیت کی صورت میں ظاہر ہوا اور سعودی عرب نے اپنے ہمسایہ ملک کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اس خارجہ پالیسی کے تسلسل کے طور پر اب سعودی عرب نے شام میں زمینی فوجی کارروائی کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ شام کے خلاف سعودی عرب کی زمینی فوجی کارروائی بہت بعید نظر آتی ہے، لیکن سعودی عرب کی تاخیر کی وجہ زمینی فوجی بھیجنے میں خوف نہیں بلکہ اس کی وجوہات زمینی حقائق اور شام کے میدان جنگ کی عملی صورتحال کی جانب پلٹتی ہیں۔ اس وقت سعودی عرب خطے کی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں میں مصروف ہے، جس کے دوران سنی عرب ممالک کی مسلح افواج ایک اسلامی اتحاد کی شکل میں اکٹھی ہوئی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان جنگی مشقوں میں تقریبا 3.5 لاکھ سپاہی شریک ہیں۔

سعودی عرب کی جدید خارجہ پالیسیوں کے آغاز سے ہی یہ حدس و گمان موجود تھا کہ ایسی پالیسیاں زیادہ دیر جاری نہیں رہ سکیں گی۔ اکثر سیاسی ماہرین کی رائے یہ تھی کہ سعودی عرب کو بہت جلد شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے پر مجبور ہوجائے گا اور ماضی کی طرح دوبارہ پراکسی جنگوں کا سہارا لے گا کیونکہ سعودی عرب نے ہمیشہ اپنی اسٹریٹجی کی بنیاد دفاع پر رکھی ہے نہ جارحیت پر۔ لیکن یہ حدس و گمان آہستہ آہستہ ماند پڑتے گئے، کیونکہ سعودی عرب نے نہ صرف جدید پالیسیوں کو ترک نہیں کیا بلکہ روز بروز اس کا دائرہ وسیع تر کرتا جا رہا ہے۔ امریکی پالیسیوں میں تبدیلیاں اور ایران کے ساتھ امریکہ کا جوہری معاہدہ اس بات کا باعث بنے کہ سعودی عرب زیادہ شدت پسندانہ پالیسیاں اختیار کرے۔ امریکی پالیسیاں کچھ ایسی ہیں کہ وہ کم از کم سعودی عرب کیلئے رکاوٹ نہیں بنتیں۔ سعودی عرب نے اپنی تاریخ میں پہلی بار امریکی اسٹریٹجک مفادات سے ہٹ کر اپنے طور پر فیصلہ کیا ہے اور شام میں فوجی مداخلت کا ارادہ کیا ہے۔

حال ہی میں سعودی عرب نے مخالف موقف اختیار کرنے پر لبنان کو دی جانے والی امداد منقطع کر دی۔ سب کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوچکا ہے کہ کیا مستقبل میں سعودی عرب شام کے بارے میں مطلوبہ موقف نہ اپنانے پر مصر کو بھی ایسی ہی سزا دے گا یا نہیں؟ ریاض چاہتا ہے کہ ایک طاقتور علاقائی کھلاڑی کا کردار ادا کرے۔ سعودی عرب مغربی طاقتوں اور ایران کے درمیان منعقد ہونے والے جوہری معاہدے کو اپنے خلاف تصور کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خطے سے متعلق امریکی پالیسیاں بڑی حد تک تبدیل ہوچکی ہیں۔ ریاض کی نظر میں شام، یمن اور عراق کے بارے میں امریکی پالیسیاں اب تک ایران کے حق میں رہی ہیں اور سعودی عرب کو ان سے نقصان ہوا ہے۔ مزید برآں، شام میں روس کی فوجی مداخلت پر بھی امریکا نے چپ سادھ رکھی ہے۔ لہذا سعودی عرب خود کو خطے میں ایک روسی – ایرانی محاذ کے روبرو محسوس کرتے ہوئے شام میں نئے سرے سے طاقت کا توازن برقرار کرنے کا خواہاں ہے۔ یہ امر پورے خطے کو متاثر کرے گا اور لبنان پر اس کے اثرات قابل مشاہدہ ہیں۔

مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں بعض ماہرین کا عقیدہ ہے کہ سعودی عرب کی جدید پالیسی ایک طرح کی بے سابقہ اور خطرناک مہم جوئی ہے، جو سعودی حکومت کو متعدد دلدلوں اور معیشتی و فوجی بحرانوں میں پھنسا دے گی۔ دوسری طرف عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت بھی انتہائی نچلی سطح تک گر چکی ہے، جس کی وجہ سے سعودی معیشت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ان ماہرین کی نظر میں یمن کے خلاف جاری سعودی جنگ ایک "تھکا دینے والی جنگ" ہے۔ لیکن سعودی عرب میں بعض ایسے ماہرین اور تجزیہ نگاران بھی ہیں، جن کی رائے قدرے مختلف ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ اگر موجودہ دور سے قبل سعودی عرب کی پالیسیوں پر نظر دوڑائی جائے تو ہم دیکھیں گے کہ وہ پالیسیاں ڈیڈلاک کا شکار ہوچکی تھیں۔ یمن پر حوثی قبائل مسلط ہوچکے تھے، خطے میں ایران کا اثرورسوخ بہت حد تک بڑھ چکا تھا اور خطے کی رجعت پسند عرب حکومتیں عرب اسپرنگ کے نتیجے میں سرنگون یا کمزور ہوچکی تھیں۔ لہذا سعودی عرب ایسے اقدامات انجام دینے پر مجبور تھا، جس کی وجہ سے سعودی حکومت نے مصر میں انجام پانے والی فوجی بغاوت کی حمایت کی اور یمن کے خلاف بھرپور جنگ کا آغاز کر دیا۔ سعودی عرب میں ایک حلقہ ایسا بھی ہے، جس کی نظر میں دوسرے ممالک میں عدم مداخلت پر مبنی سعودی روایتی پالیسی اس ملک کیلئے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے اور ریاض اس پالیسی کے نتیجے میں علاقائی سطح پر کمزور ہوگیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 525717
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش