0
Thursday 7 Apr 2016 16:53

کالا دھن قلعی کرا لو (حصہ اول)

کالا دھن قلعی کرا لو (حصہ اول)
تحریر: عمران خان

پانامہ لیکس میں شریف فیملی کا نام سامنے آنے کے بعد وزیراعظم نوازشریف نے الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن قائم کیا ہے۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 1971ء، 1989ء، 1999ء میں پیپلز پارٹی نے دو مرتبہ اور آمر نے ایک مرتبہ انکے خاندانی کاروبار کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تمام تر حکومتی مشینری نے ملکر ان کے خاندان کا احتساب کیا، تاہم کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ اس خطاب میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سعودی بینکوں سے قرض لیکر انہوں نے سٹیل کا کارخانہ لگایا، اور بعدازاں اسے فروخت کرکے ان کے بیٹوں نے کاروبار کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجھ پر الزامات لگانے اور انگلیاں اٹھانے والے جوڈیشل کمیشن کے سامنے پیش ہوں، وزیراعظم نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ کسی بھی عدالت میں ہمارے خلاف لگائے گئے الزامات کو ثابت نہیں کیا جاسکا۔ پانامہ لیکس کے تمام معاملے کی تحقیقات یہ جوڈیشل کمیشن کرے گا۔ وزیراعظم پاکستان کو اپنی صفائی میں اس خطاب کی ضرورت کیوں پیش آئی، جوڈیشل کمیشن کے قیام کا کیا مقصد ہے، اور کیا واقعی حکمران خاندان کے ہاتھ صاف ہیں، پہ بات کرنے سے پہلے پانامہ لیکس کے معاملے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

پانامہ لیکس کیا ہے؟

پانامہ لیکس کو اب تک خفیہ دستاویزات کا سب سے بڑا انکشاف کہا جارہا ہے۔ جو پانامہ کی ایک لاء فرم ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ سے متعلق ہے۔ یہ دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم ہے۔ جو دنیا بھر میں ان لوگوں کیلئے آف شور کمپنیاں بناتی ہے، جو اپنے کالے دھن کو سفید بھی کرنا چاہتے ہیں اور خود کو اپنے ذرائع آمدن کو پوشیدہ رکھ کر ٹیکس سے بھی گلوخلاصی چاہتے ہیں۔

موزیک فانسیکا اینڈ کو:

1977ء میں پانامہ کے دو وکیلوں جارجن موزیک (Jurgen Mossak) اور رومن فانسیکا نے ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کے نام سے لاء فرم بنائی۔ ابتدائی دنوں میں یہ فرم صرف جرائم پیشہ افراد کیلئے ’’آف شور کمپنیاں‘‘ بناتی تھی۔ اسی کی دہائی میں پانامہ نے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے ٹیکس فری اصلاحات متعارف کرائی تھیں۔ جس کے تحت کوئی بھی شخص پانامہ میں اپنی کمپنی بناکر کوئی بھی کاروبار کرسکتا تھا اور بینکوں میں سرمایہ بھی محفوظ کرسکتا تھا۔ حکومت اس سے ذرائع نہیں پوچھتی تھی۔ موزیک فانسیکا اینڈ کو نے جرائم پیشہ افراد کو ترغیب دی، اور دھڑا دھڑ ان کے اکاونٹس بنائے۔ کالے دھن کو سفید کرنے والی اس قانونی فرم نے اتنی ترقی کی کہ آج یہ دنیا کی چوتھی بڑی لاء فرم ہے۔ دنیا میں اس وقت فرم کے پچاس کے قریب دفاتر اور 500 اعلیٰ پائے کے مستقل وکلاء ہیں۔ اب اس کے کلائنٹس میں صرف مافیاز اور منشیات فروش شامل نہیں ہیں، بلکہ یہ اب دنیا جہان کے امراء کی لاء فرم ہے۔ یہ ان کیلئے آف شور کمپنیاں بھی بناتی ہے۔ ان کیلئے عارضی دفاتر کا بندوبست بھی کرتی ہے۔ جعلی اسٹاف بھی بھرتی کرتی ہے۔ الغرض شائد ہی کوئی ترقی پذیر ملک یا ریاست ایسی ہو، جہاں اس فرم نے اپنے پنجے نہ گاڑھے ہوں۔

آف شور کمپنیاں:

’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ جیسی لاء فرمز کی تخلیق ایسی کمپنیاں ہیں جن کے مالکان پردے میں رہتے ہیں۔ برطانیہ، ماریشس اور قبرص سمیت لاطینی امریکہ کے کئی ممالک نے اپنے ساحلوں سے دور جزائر میں بیرونی سرمایہ کاری کے حصول کے لئے آف شور کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ان ممالک نے یہ کمپنیاں ایسے علاقوں یا جزائر میں قائم کرنے کی قانونی اجازت دے رکھی ہے، جہاں ان کے ٹیکس کے قوائد و ضوابط اور قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں آف شور کمپنیوں میں لگایا گیا سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ چونکہ سرمایہ ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا ہے، لہذٰا اس سرمایہ کے ذرائع کی بھی چھان بین نہیں کی جاتی۔ پاکستان کے ممتاز قانونی ماہر اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کے مطابق آف شور کمپنیاں قانونی ہیں، تاہم ان میں لگائے گئے سرمائے کا جائز ہونا ضروری ہے۔ ان کمپنیوں میں بھی ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی رقم سے سرمایہ کاری نہیں کی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ آف شور کمپنیوں کی دستاویزات وکلاءکے پاس ہوتی ہیں اور وکیل ہی تمام ڈاکو منٹیشن کرتے ہیں۔ جو لوگ کسی وجہ سے اپنا نام چھپانا چاہتے ہیں، وہ ایسی کمپنیاں خرید کر سرمایہ کاری کرتے ہیں یا پھر کالے دھن کے ذریعے یہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالے دھن سے آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری کے بارے میں وہ ممالک بھی کارروائی کرسکتے ہیں، جن کے جزائر میں یہ کمپنیاں قائم ہوتی ہیں۔ سید علی ظفر نے مزید کہا کہ پاکستانی قانون کے مطابق ان پاکستانیوں سے باز پرس کی جاسکتی ہے، جو آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لئے رقم کن ذرائع سے حاصل کی گئی ؟ یہ سوال ہر پاکستانی سے کیا جاسکتا ہے۔ آف شور کمپنیوں کے مالک عوامی اور سرکاری عہدیدار ہوں توان سے قومی احتساب بیورو (نیب) بھی تفتیش کرسکتا ہے اور اگر یہ اثاثے چھپائے گئے ہوں یا پھر ناجائز ذرائع سے حاصل کئے گئے ہوں تو سرکاری اور عوامی عہدیداروں کو قید با مشقت کے علاوہ نااہلی کی سزا بھی دی جاسکتی ہے جبکہ ٹیکس چھپانے کے جرم میں 3سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

پانامہ لیکس سکینڈل:

جرمنی کے شہر میونخ کے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار زیتوشے زائتونگ کے دفتر میں ایک شخص نے کال کی اور اپنی شناخت ظاہر کئے بغیر لاکھوں دستاویز کی سافٹ کاپی فراہم کرنے کی پیشکش کی۔ یہ دستاویزات موزیک فانسیکا اینڈ کو فرم کے مین سرور سے چرائی گئی تھیں۔ ’’موزیک فانسیکا اینڈ کو‘‘ کا خفیہ ڈیٹا اخبار تک پہنچا تو ادارے کیلئے بہت بڑی مشکل کھڑی ہوگئی، کیونکہ یہ معلومات غلط ہونے کی صورت میں اخبار پر تاریخ کا سب سے زیادہ ہرجانے کا دعویٰ بھی ہوسکتا تھا۔ علاوہ ازیں یہ سب سے بڑا سکینڈل بھی تھا، جس میں دنیا بھر کے معروف، اہم لوگ، ان کے خاندان شامل تھے۔ جن میں شاہی خاندان، بزنس گروپس، سرکاری عہدیدار، کھلاڑی، حکمران، این جی اوز اور اس کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات بھی شامل تھیں۔ اخبار نے ان دستاویزات کی تحقیق کیلئے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیشن جرنلزم کے ساتھ رابطہ کیا، اور دنیا کے 76 ممالک کے صحافیوں نے تحقیقات شروع کر دیں۔ جنہوں نے اپنی شبانہ روز محنت سے تحقیق کے بعد ان دستاویزات کی صداقت پر مہر ثبت کردی۔ جس کے بعد اخبار اسے منظرعام پر لے آیا۔ (جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 531595
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش