0
Saturday 30 Apr 2016 21:26

سعودی عرب کا بن لادن گروپ دیوالیہ ہونیکے قریب!

سعودی عرب کا بن لادن گروپ دیوالیہ ہونیکے قریب!
تحریر: طاہر یاسین طاہر

ملکوں کی معیشت میں بڑی تعمیراتی کمپنیاں، فیکٹریاں، بینک اور دیگر مالیاتی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ملک اگر صحرائی ہو اور اس کی طرف عقیدت سے آنے والے زائرین کی تعداد سالانہ کروڑوں میں ہو اور اس میں آئے دن اضافہ ہی ہوتا جائے تو وہاں سڑکوں، ہوٹلوں اور انفراسٹرکچر کے دیگر شعبوں و منصوبوں پر حکومت کی جانب سے خاص توجہ دینا مجبوری بھی ہے اور ضرورت بھی۔ ہم مگر اس امر کو نظر انداز کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ضروری ہے۔ یہ امر البتہ اہمیت کا حامل ہے کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں تعمیراتی کمپنیوں نیز تیل تلاش کرنے والی کمپنیوں میں لاکھوں غیر ملکی مزدور کام کرتے ہیں، جن میں سے کثیر تعداد ایشیائی ممالک کے شہریوں کی ہے۔ یہ خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں کہ عرب ممالک میں پاکستانی و دیگر ممالک کے مزدوروں کے ساتھ غیر انسانی سلوک بھی کیا جاتا ہے اور بعض کمپنیاں ایسی بھی ہیں، جو وہ مقررہ تنخواہ ہی نہیں دیتی ہیں جو کہ مزدور یا ٹیکنیکل سٹاف کے کسی ممبر کو ٹریول ایجنٹ کے ذریعے بتائی جاتی ہے۔ تھوڑی سی چھان بین کی جائے تو آپ کے اردگرد ہی ایسے افراد آپ کو مل جائیں گے، جو ہوش ربا تفصیلات بتائیں گے۔

اس سب کے باوجود ایشیائی ممالک کے افراد اگر یورپ نہ جا سکیں تو ان کی پہلی ترجیح سعودی عرب یا پھر دبئی ہوتی ہے۔ ابوظہبی، شارجہ، مسقط، قطر، عمان، بحرین وغیرہ میں کام کرنے والی کمپنیوں کے ویزہ جات کی طرف توجہ اس کے بعد کی جاتی ہے، یعنی یہ دوسری ترجیح ہوتی ہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد اس سب کے باوجود کہ عرب ممالک میں انھیں ایک کفیل کے ماتحت کام کرنا ہوگا اور ان کی حیثیت ویسے شہری کی سی نہیں ہوگی، جیسی کسی ایشیائی یا عرب باشندے کو یورپ جا کر حاصل ہو جاتی ہے، لوگ سعودی عرب جانا پسند کرتے ہیں۔ ہاں جانے کا فیصلہ کر لینے کے بعد، بالخصوص ڈرائیور، انجینئیرز، مزدور، میسن وغیرہ اس بات کا کھوج لگاتے ہیں کہ کسی ایسی کمپنی کا انتخاب کیا جائے یا کسی ایسی کمپنی کا ویزہ حاصل کیا جائے، جس کی شہرت اچھی ہو اور جو مزدوروں کو رہائش، کھانا، صحت کی سہولت اور وقت پر تنخواہ دیتی ہو، یہ تنخواہ اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہو، مگر وقت پر ملتی ہو۔ ان ساری جزئیات کو سوچنے کے بعد سعودی عرب کے لئے لوگوں کی پہلی ترجیح اسامہ بن لادن کے خاندان والی’’بن لادن‘‘ کمپنی کے ویزے کا حصول ہوتا ہے۔

اگرچہ یہ امر بھی درست ہے کہ ماضی میں بن لادن کمپنی ایشیائی محنت کشوں میں بڑی مقبول تھی اور اس کمپنی میں کام کرنے والے مزدور اپنے عزیز و اقارب کو اس کمپنی کا ویزہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی دیا کرتے تھے، وقت مگر ایک سا نہیں رہتا۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کی خبر نے اخبار نویس کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔ خبر کے مطابق ’’سعودی عرب کی ایک بڑی تعمیراتی کمپنی بن لادن گروپ نے سعودی حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمتوں اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کے بعد اپنے 50 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی شاہی خاندان بن لادن گروپ کو کئی دہائیوں سے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے ٹھیکے دیتا رہا ہے، جس میں مسجد الحرام کا توسیعی منصوبہ بھی شامل ہے۔ تاہم اب سعودی حکومت کو عالمی منڈی میں عرصے سے تیل کی کم قیمتوں کی وجہ سے مالی مشکلات کا سامنا ہے اور اس نے متعدد تعمیراتی منصوبوں پر کام روک یا اسے منسوخ کر دیا ہے۔ کمپنی کے بعض منصوبوں میں کام کرنے والے ملازمین نے کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے الوطن اخبار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملازمت سے نکالے گئے ملازمین غیر ملکی ہیں۔ الوطن کے مطابق نکالے گئے ملازمین کو ملک سے نکلنے کا کہا گیا ہے، لیکن ملازمین نے تنخواہ کی ادائیگی تک ملک چھوڑنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان میں سے بعض ملازمین کو کئی ماہ سے تنخواہ نہیں ملی اور یہ کمپنی کے مرکزی دفتر کے سامنے ہر روز احتجاج کرتے ہیں۔ بن لادن گروپ اسی خاندان کی ملکیت ہے، جس سے شدت پسند تنظیم القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن دلان کا تعلق تھا۔ سعودی عرب کی کابینہ نے رواں برس ہی ملکی معیشت کی تیل سے ہونے والی آمدن پر بڑی حد تک انحصار کو کم کرنے کی کوشش کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔ سعودی عرب میں حکومتی آمدن کا تقریباً 80 فیصد حصہ تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم پر مشتمل ہے اور گذشتہ برس سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے اس کی معیشت متاثر ہوئی ہے۔ سعودی کابینہ کے منصوبے سے چند دن قبل یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں تھیں کہ سعودی عرب تیل سے حاصل ہونے والی آمدن میں کمی کے باعث بین الاقوامی بینکوں کے ساتھ دس ارب ڈالر قرضے کا معاہدہ کرنے کے قریب ہے۔"

یہ خبر اس حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ ساتھ میرے ہزاروں ہم وطن بھی عرب ممالک اور بالخصوص بن لادن کمپنی میں ملازم ہیں۔ جیسا کہ سطور بالا میں ذکر کیا کہ عرب حکومتیں غیر عرب ملازمین کو وہ بنیادی انسانی حقوق تک بھی نہیں دیتیں کہ جو کافر حکومتیں بہرحال غیر ملکیوں کو دیتی ہیں۔ بن لادن گروپ کی جانب سے پچاس ہزار ملازمین کو کمپنی سے فارغ کرنے کے ساتھ ساتھ ملک سے چلے جانے کا کہنا بے شک ایک ستم ہے کہ ان میں سے بیشتر کو کئی ماہ کی تنخواہ ہی نہیں ملی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کمپنی ان پچاس ہزار ملازمین کو نہ صرف ان کی روکی بلکہ غصب کی ہوئی تنخواہیں دے بلکہ کمپنی اور سعودی حکومت مل کر ان پچاس ہزار ملازمین کو چھ چھ ماہ کا بونس بھی دے اور اس کے بعد ان کو نوکری سے فارغ کرے، تاکہ یہ غریب اپنے اپنے وطن واپس آکر کم از کم وہ قرض تو ادا کرسکیں، جو وہ رشتہ داروں اور دوستوں سے لے کے بہتر مستقبل کی خاطر اس کمپنی میں بھرتی ہوگئے تھے اور ان کے ساتھ بن لادن کی کمپنی نے وہی کیا جو اسامہ بن لادن نے سارے عالمِ اسلام کے ساتھ کیا ہے۔ کیا یہ بن لادن گھرانے کی سرشت ہے کہ وہ لوگوں کے لئے تکلیف کا ہی باعث بنتے ہیں۔؟
خبر کا کوڈ : 536120
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش