0
Saturday 6 Aug 2016 11:09

عرب اسرائیل روابط(4)

عرب اسرائیل روابط(4)
تحریر: صابر کربلائی

سعودی شہزادے ترکی الفیصل کے گذشتہ چند سالوں کے اقدامات پر غور کیا جائے تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ وہ کس قدر اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کے خواہاں ہیں، ترکی الفیصل مرحوم سعود الفیصل جو کہ وزیر خارجہ تھے، کے بھائی اور سعودی عرب میں مشہور و معروف شخصیت ہیں۔ ترکی الفیصل نے مختلف عہدوں پر کام کیا ہے جبکہ وہ چار سال تک سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ ترکی الفیصل گذشتہ چند سالوں میں واحد شخصیت ہیں جو اسرائیلی عہدیداروں سے ملاقاتیں اور مذاکرات کرتے رہے ہیں۔ ترکی الفیصل نے 2014ء میں اسرائیل میں ہونے والی ایک کانفرنس بعنوان امن میں ایک خط ارسال کیا، جس میں لکھا کہ میری خواہش ہے کہ میں ریاض سے ایک جہاز اڑاتا ہوا القدس میں اتار دوں اور وہاں سے ایک ٹیکسی لے کر قبۃ الصخرۃ کی زیارت کے لئے جاؤں اور اس کے بعد حضرت ابراہیم الخلیل کے مقام مقدس کی زیارت کو جاؤں اور پھر واپس اسی طرح بیت لحم آؤں، جہاں چرچ کا دورہ کروں اور اس کے بعد صیہونیوں کے ہولوکاسٹ میوزیم کا دورہ کرتے ہوئے اختتام کروں۔

ٹھیک اسی سال اسرائیل کی ایک نام نہاد انصاف پسند رہنما زیپی لیونی کے ساتھ ترکی الفیصل کی ملاقات جرمنی کے شہر میونخ میں ہوئی، یہ ملاقات ایک کانفرنس میں ہوئی، جب لیونی فلسطین اور اسرائیل کے مابین ایک قرارداد کے بارے میں گفتگو کر رہی تھی اور اس وقت وہ صائب عرکات کے ساتھ نشست پر بیٹھی تھیں، اس موقع پر لیونی نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل صرف دو ریاستی حل میں ہے، اچانک سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے کھڑے ہو کر لیونی کو خراج تحسین پیش کرنا شروع کر دیا اور جواب میں لیونی نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ تم (ترکی الفیصل) میرے ساتھ یہاں پوڈیم پر بیٹھ کر اس بارے میں گفتگو کرو۔ اسی کانفرنس کے دوران ترکی الفیصل کو متعدد مرتبہ اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک کے ہمراہ بیٹھے بھی دیکھا گیا۔ اسی طرح 2010ء میں ترکی الفیصل اور اس وقت کے اسرائیلی ڈپٹی وزیر خارجہ Danny Ayalon کے مابین ہاتھ ملانے کا واقعہ بھی بہت حد تک ذرائع ابلاغ پر نشر ہوا تھا۔ ایک اہم ترین واقعہ 2014ء میں رونما ہوا، جب ترکی الفیصل نے اسرائیلی انٹیلی جنس سروسز کے سربراہ میجر جنرل عاموس یادلین کے ساتھ برسلز میں ملاقات اور تبادلہ خیال کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل اور عربوں کے مابین کافی حد تک معاملات مشترک ہیں اور اس عرب اسرائیل تعلقات کے حوالے سے یہ ملاقات ایک مثبت پیشرفت رہی ہے۔

سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی تاریخ بیان کی جائے تو کافی طویل تاریخ موجود ہے اور بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں کہ جس میں واضح طور پر ہر ذی شعور یہ سمجھ سکتا ہے کہ آخر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کیوں؟ حالیہ دنوں ایک مرتبہ پھر ایک ایسی تصویر منظر عام پر آئی ہے کہ جس نے ایک مرتبہ پھر سعودی حکمرانوں پر سوالیہ نشان اٹھا دیئے ہیں، سعودی افواج کے سابق آفیسر میجر جنرل انور العشقی کہ جو ماضی میں بھی اسرائیلی خفیہ اداروں کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، حالیہ دنوں اسرائیل کا دورہ کرنے کے بعد واپس لوٹ آئے ہیں، جس کی تصاویر ذراع ابلاغ نے شائع کر دی ہیں۔ اس دورہ میں انہوں نے بہت سے اہم اداروں کے سربراہوں اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلٰی اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتیں کی ہیں اور اس موقع پر ان کے ہمراہ سعودی عرب کی جامعات کے مایہ ناز پروفیسر حضرات اور اعلٰی علمی شخصیات بھی موجود تھیں، اس وفد کی تصاویر کے شائع ہونے کے بعد سعودی عرب کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور فلسطینی تنظیموں بالخصوص حماس نے بھی سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ ا ستوار ہوتے ان تعلقات کو شدید تنقید اور فلسطینیوں کی جد وجہد آزادی کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

مسلم دنیا میں بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد آخرکار سعودی حکمرانوں نے اس وفد کی اسرائیل میں آمد سمیت تمام تر ملاقاتوں کے بارے میں سرکاری بیان میں کہا ہے کہ سعودی حکومت اس میں شامل نہیں اور نہ ہی یہ اقدام سعودی حکومت کے علم میں لا کر انجام دیا گیا ہے، جبکہ جنرل انور العشقی جو کہ سعودی بین الاقوامی تعلقات کی کونسل کے اہم عہدے پر فائز ہیں اور ساتھ ہی ساتھ شاہی خاندان کے معتبر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ سعودی حکومت پر اگر کوئی سوشل میڈیا پر بھی تنقید کرے تو اسے ہزاروں کوڑے اور نہ جانے کیا کیا سزائیں دی جاتی ہیں، جیسا کہ پاکستان کے ایک دانشور اور اسکالر زید حامد کے ساتھ پیش آیا کہ جنہیں صرف سوشل میڈیا پر سعودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کے جرم میں عمرے کی ادائیگی کے لئے جانے پر قید کر لیا گیا اور ان کی ایک ٹوئٹ کے بدلے میں ایک سو کوڑے مارے گئے۔ ایسا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی سعودی عرب سے پورا وفد لے کر اسرائیل جائے اور وہاں ملاقاتیں کرتا پھرے اور سعودی حکمران کہتے ہوں کہ ان کے علم میں نہ تھا۔ بہرحال یہ پوری امت کے ساتھ ایک مذاق سے کم نہیں۔

دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ حالیہ دور مں عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم تو کر رہے ہیں اور جب تنقید کا سامنا ہو تو کہتے ہیں کہ اس دوستی کا مقصد فلسطینیوں کی مشکلات کو دور کرنا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ان عرب حکمرانوں کی پھینکی ہوئی ناکارہ ہڈیوں پر پلنے والے نام نہاد اسلامی اسکالر پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بیٹھ کر اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کا دفاع کرتے ہوئے بالکل یہی فلسفہ بیان کرتے ہیں جو اسرائیل بیان کرتا ہے کہ ان تعلقات کا مقصد فلسطینیوں کی مشکلات میں کمی لانا ہے۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فلسطینیوں کی مشکلات کا حل اسرائیل کے ساتھ مذاکرات اور دوستی میں تھا تو یہ کام تو انہی عرب حکمرانوں کے کہنے پر فلسطین کی تحریک آزادی کے عظیم مجاہد یاسر عرفات نے بھی کیا تھا، لیکن انجام میں یاسر عرفات کو کیا ملا؟ اسرائیل کا مزید قبضہ اور آخر کار زہر دے کر انہیں بھی شہید کر دیا گیا۔ بہرحال عرب حکمران یہ سوچ پیدا کر رہے ہیں کہ عربوں کے ان تعلقات سے فلسطینیوں کو فائدہ حاصل ہوگا، یقیناً یہ ایک دھوکہ اور فریب ہے، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان تعلقات کا جہاں فلسطین کی تحریک آزادی کو نقصان ہو رہا ہے، وہاں بالآخر ان عرب حکمرانوں کو بھی نقصان ہوگا، جو یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اسرائیل دوستی فلسطینی عوام کی مشکلات میں کمی کا باعث بن سکتی ہے۔

سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے رفتہ رفتہ تعلقات نہ صرف فلسطین بلکہ خود سعودی عرب کے لئے بھی سنگین صورتحال اختیار کر لیں گے اور اس سے بڑھ کر جو پوری امت مسلمہ کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا، وہ یہ ہے کہ سرزمین حجاز چونکہ مسلمانوں کے لئے مقدس مقام ہے اور یہاں کے حکمران رفتہ رفتہ اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے تو یہ مسئلہ ایک سنگین صورتحال اختیار کر لے گا، کیونکہ دنیا بھر کے مسلمان حجاز مقدس کو اسلام کا مرکز مانتے ہیں اور اگر اسی مرکز پر بیٹھے حکمران ہی اسرائیل جیسی خونخوار اور غاصب ریاست کے ساتھ تعلقات استوار کر لیں گے اور تسلیم کریں گے تو پھر یقیناً دنیا کے دیگر مسلم حکمران بھی ان کی نقل کرتے ہوئے اس اقدام میں کوئی ننگ و عار محسوس نہیں کریں گے اور بالآخر فلسطین فلسطینیوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور قبلہ اول بیت المقدس سمیت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ (خاکم بدھن) تک غاصب صیہونیوں کی رسائی ہوگی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرب دنیا کے حکمران ایران دشمنی میں اس قدر آگے نہ بڑھیں کہ مظلوم فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو بھی پائمال کر دیں، بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مسلم ممالک فلسطین کے لئے متحد ہو جائیں اور اگر واقعی مدد کرنا چاہتے ہیں تو پھر فلسطینیوں کی مکمل مدد کریں اور اس مدد کے لئے اسرائیل کی دوستی یا تعلقات کی ضرورت نہیں، بلکہ ایک مضبوط ارادے اور عزم وہمت کی ضرورت ہے، جو شاید مسلم دنیا کے حکمرانوں میں ناپید ہوچکی ہے۔
(ختم شد)
خبر کا کوڈ : 557706
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش