0
Monday 22 Aug 2016 18:44

زیارات معصومینؑ کی مخالفت، ذہنی فتور ہے

زیارات معصومینؑ کی مخالفت، ذہنی فتور ہے
تحریر: محمد حسن جمالی

روز مرہ زندگی کے معمولات، معاملات اور عبادات کو سوچ وبچار، تامل اور تفکر کی بنیاد پر سرانجام دینی چاہیئے۔ یہ حکم عقل بھی ہے اور شرع بھی۔ زندگی کی ساری فعالیت اور سرگرمیاں ارزشمند اور قیمتی ہونے کا راز سوچ و تدبر ہے۔ انسان اور حیوان کے درمیان بہت سارے مشترکات ہیں۔ علم حسی، علم خیالی اور علم وہمی میں حیوان بھی انسان کے ساتهہ شریک ہیں، جو چیز انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے وہ جوہرہ عقل ہے، علم عقلی ہے کہ جسے علم اکمل سے یاد کیا جاتا ہے۔ انسان عقل کی نعمت سے مالامال ہے۔ اسی عقل کے ذریعے انسان سوچتا ہے، تفکر اور تدبر کرتا ہے۔ اشیاء کی حقیقت عقل کی وساطت سے درک کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وجہ تخلیق موجودات، فلسفہ موجودات، أسباب و علل موجودات اور فوائد و ثمرات موجودات کو انسان عقل کے ذریعے سمجھنے کی سعی کرتا ہے۔

تعمیری اور تخریبی سوچ کے آثار اور علامات: بنیادی طور پر سوچ دو طرح کی ہوتی ہے، تعمیری سوچ اور تخریبی سوچ۔ ہر مفکر، فیلسوف، نظریہ پرداز، سیاستدان، محقق، مصنف، شاعر، خطیب اور عالم کی سوچ مذکورہ دو صورتوں سے خالی نہیں ہوتی۔ ان کی سوچ یا تعمیری ہوتی ہے یا تخریبی۔ تعمیر و تخريب باب تفعیل کے مصدر ہیں۔ تعمیر یعنی بنانا، تعمیر کرنا۔ تعمیری سوچ سے مراد ہر وہ سوچ ہے جس کی بدولت عملی میدان میں انسان کو ترقی ملے، بلندی کی جانب پیش قدمی ہو، منزل کا حصول آسان ہو، بہتری، کامیابی، فلاح اور بہبود انسان کا مقدر بنے، تعمیری کام کی کثرت ہو جائے۔ تعمیر کے مقابل میں تخریب ہے، یعنی بگاڑنا، خراب کرنا۔ تخریبی سوچ ہر اس منفی سوچ کو کہا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان میدان عمل میں تنزلی، خسارے اور نقصان کا شکار رہے۔ جس کا نتیجہ یاس و ناامیدی، پشیمانی، حسرت اور افسوس ہو۔

ایک دوسرے کا احترام کرنا، ایک دوسرے کے ساتهہ اظہار ہمدردی ومحبت کرنا، ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونا، مشکلات میں ڈٹ جانا، پریشانیوں پرصبر کرنا، لوگوں کو معاف کرنا، سچ بولنا، سخاوت، وفاداری کا مظاہرہ کرنا تعمیری سوچ کا نتیجہ ہے اور قومی و لسانی تعصب کو پروان چڑھانا، کنجوسی کا مظاهرہ کرنا، تعلیمی درسگاہوں کو صرف ذریعہ معاش قرار دینا بلکہ دینی مدارس کو ذاتی جاگیر سمجهنا، اپنے کو سب سے اعلی و ارفع تصور کرنا، مدارس کے طلباء کو حقارت سے دیکھنا، ان کو اہمیت نہ دینا، ان کو فکری جمود و رکود کا مصداق قرار دینا، مغربی تعلیم حاصل کرنے والوں میں روشن فکری و خیالی کو منحصر کرنا، صرف مغربی علوم کے حصول کو کامیابی کی سند قرار دینا، ایک دوسرے سے حسد کرنا، دوسروں کو پست و حقیر سمجھنا، بدگمانی کرنا، بلاجواز دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنانا، غیبت کرنا، بغض و کینہ دل میں رکهنا، بے جا غصہ کرنا، مغلوب ہوجانا، بخل، ریاکاری، اور خود غرضی وغیرہ تخریبی سوچ کی علامات ہیں۔

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: ہمارے محبوب پیغمبر اکرم ص تعمیری سوچ کے مجسم تھے۔ آپ کے بلند اخلاق، اوصاف حمیدہ، پاکیزہ کردار، گفتار، رفتار، آپ کا حسن سلوک، مہربانی اور عطوفت اسی تعمیری سوچ کا نتیجہ تهی۔ آپۖ نے اپنی انہی خصوصیات کی بنا پر بہت سے دلوں کو اپنی طرف جذب کیا اور انہیں ہدایت کے چشمہ سے سیراب کیا۔ ارشاد ہو تا ہے۔''فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰه لِنْتَ لَهمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْ مِنْ حَوْلِکَ''پس آپ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان کے لیے نرم خو اور مہربان ہیں اگر آپ سخت اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ ۖ کے اردگرد سے دُور ہو جاتے۔ حضرت علی علیہ السلام آنحضرتۖ کی انہی خصوصیات کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں کہ ''وَاَطْهرَ المُطَهرِينَ شِيمَةً، وَاَجْوَدَ المُسْتمْطَرِينَ دِيمَةً ''عادات کے اعتبار سے آپۖ تمام پاکیزہ افراد سے پا کیزہ اور باران رحمت کے اعتبار سے ہر سحاب رحمت سے زیادہ کریم و جواد تھے۔ حضر ت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ''اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس وقت بھجیا جب لوگ گمراہی و ضلالت میں حیران و سرگردان تھے اور فتنوں میں ہا تھ پائوں مار رہے تھے، نفسانی خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموں میں لغزش پیدا کر دی تھی اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلائوں کی وجہ سے حیران و پریشان تھے، ''فَبَالَغَ صلی الله عيله وآله وسلَّم فِی النَّصِيحَةِ ومَضٰی عَلَی الطّريقَةِ ، وَدَعَا اِلیَ الحِکْمَةِ والمَوْعِظَةِ الحَسَنَةِ''، چنانچہ نبی اکرم ۖنے نصیحت اور خیر خواہی کا حق ادا کر دیا، سیدھے راستے پر چلے اور لوگوں کو حکمت و دانائی اور اچھی نصیحتوں کی طرف دعوت دیتے رہے، ''آپ کی تعمیری سوچ نے ہمیشہ آپ کو دوسروں کی اصلاح، ہدایت اور دوسروں کی روحی علاج و معالجے میں مشغول رکهی۔ اس سلسلے میں امیر المومنینؑ نے فرمایا کہ طبیب دَوَّاربِطِبِّه قَدْ اَحْکَمَ مَرَ اهمَه ،وَاَحْمَیٰ مَوَا سِمَه يضَعُ ذٰلِکَ حَيثُ الحَاجَةُ اِلَيه، مِنْ قُلُوبٍ عُمْیٍ، وَآذانٍ صُمٍّ،وَاَلْسِنَةٍ بُکْمٍ مُتتبع بِدَوَائِه مَوَاضِعَ الغَفْلَةِ وَمَوَاطِنَ الحَيرَةِ''، آپ ص وہ طبیب تھے جو اپنی طبابت کو لیے ہو ئے چکر لگا رہا ہو ،جس نے اپنے مرہم کودرست کر لیا ہو اور داغنے کے آلات کو تپا لیا ہو، وہ اندھے دلوں، بہرے کانوں گونگی زبانوں میں جہاں ضرورت ہوتی ہے، ان چیزوں کو استعمال میں لاتا ہو اور دوا لیے ایسے غفلت زدہ اور حیرانی و پریشانی کے مارے ہووں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔

معاشرے میں تخریبی سوچ کے مظاہر: اسکا مطلب ہے کہ سعادت اور کامیابی کا انحصار تعمیری سوچ پر ہے۔ تعمیری سوچ الفتیں، محبتیں اور دوستیاں بڑهاتی ہے۔ اعتماد اور حوصلے میں اضافہ کرتی ہے۔ انسان کو اپنی خلقت کے اصل اغراص و مقاصد سے نزدیک کرتی ہے۔ تعمیری سوچ چین اور سکون سے بھرپور زندگی انسان کو فراہم کراتی ہے۔ تخریبی سوچ انسان کو ذہنی مریض بناتی ہے، مایوسی پیدا کرتی ہے، رزق میں بے برکتی لاتی ہے، نفرتوں کے جنگل اگاتی ہے، بھائی کو بھائی سے جدا کرتی اور رشتوں میں تفریق کراتی ہے غرض تمام مسائل ومشکلات کی جڑ تخریبی سوچ ہے ۔ ہر فتنہ و فساد اسی سے جنم لیتا ہے۔ آج ہمارے معاشرے میں تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سوچ کو غلبہ حاصل ہے اور یہ ایک وبائی مرض کی شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان میں کوئی ادارہ ایسا دکھائی نہیں دیتا جو اس مرض سے مکمل طور پر محفوظ ہو۔ تعلیم وتربیت کے مراکز سے لیکر سیاسی , اقتصادی, بلکہ تمام اجتماعی امور ومعاملات تخریبی سوچ کے حامل افراد کی زیرنگرانی چل رہی ہیں۔ جس کا واضح ثبوت تمام اداروں میں دونمبری قوانین کا اجرا ہے۔ اداروں میں قابلیت اور میریٹ کا معیار ناپید ہونا ہے۔ رشوت، سود، کرپشن، جھوٹ، دھوکہ دہی، بے جا الزامات، چوری ڈکیتی تنقید بےجا اور فحاشی ملک کی پہچان بننا ہے۔ لوگوں کے دل و دماغ سے ظلم و ستم کی قباحت مٹ چکنا ہے، اقلیتی گروہ کے حقوق پر مختلف طریقوں سے ڈاکہ مارنا ہے۔

دراصل یہ تخریبی سوچ کا مظہر ہے کہ آج پاکستان کی سرزمین پر سب سے زیادہ مظالم کا شکار ملت تشیع رہی ہے اور ہے اس ملت کو دوست اور دشمن دونوں نے اپنے ستم کا نشانہ بنایا ہے، جس کی واضح مثال مقامات مقدسہ کی زیارت کے عاشقین، زوار کو راستے میں تنگ کرنا ہے۔ کچهہ عرصے سے پاکستانی زائرین کو کوئٹہ اور تفتان باڈر پر اذیتیں پہنچائی جارہی ہیں۔ تخریبی سوچ کا حامل ایک ٹولہ مختلف بہانوں سے زائرین کو روک کر خوب لٹا رہے ہیں۔ اخلاقی تمام حدوں کو پھلانگ کر ان کے ساتهہ بداخلاقی، بد زبانی اور بہیمانہ سلوک کیا جا رہا ہے۔ پوری منصوبہ بندی کے ساتهہ زائرین کو جسمی اور روحی طور پر آزار و اذيتیں دے کر زیارات جیسی مقدس عبادت سے روکنے کی سازش ہورہی ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سازشی ٹولے اس بات کو پلے باندھیں کہ زائرین کرام مستحکم قلبی ایمان واعتقاد کے ساتهہ مقامات مقدسہ کی زیارت کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ وہ اپنی جان کا نزارنہ پیش کریں گے مگر زیارات کا سفر کسی بھی صورت میں نہ ترک کیا ہے نہ کررہے ہیں اور نہ کریں گے۔

وہابیت، تخریبی سوچ کی حامل تحریک: زیارت ہماری عبادات کی روح وجان ہے۔ دنیا کی ہر قوم اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتی ہے اور ان کی زیارت کے لئے جاتی ہے۔ جہان کے تمام مسلمان بھی اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتے چلے آرہے اور اسی طرح احترام کرتے رہیں گے اور ان کی قبروں کی زیارت کو جاتے رہیں گے، خواہ وہابیوں کا ایک معمولی گروہ مخالفت کرتا رہے اگرچہ وہ حقیقی مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ البتہ وہابیوں کے بعض علماء نے قبر پیغمبر ۖکی زیارت کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تنہا قبر پیغمبرۖ کی زیارت کے لئے نہ آئیں، بلکہ حج و عمرہ اور مسجد النبی میں عبادت کی غرض سے آئیں اور قبر پیغمبرۖ کی بھی زیارت کر لیں، بن باز ( وہابیوں کا مشہور فقیہ ) نےالجزیرہ جریدہ کی تحریر کے مطابق کہا کہ جو بھی پیغمبرۖ کی مسجد کی زیارت کرنا چاہے تو اس کے لئے مستحب ہے کہ روضہ میں دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد رسول اللہ ۖ پر سلام بھیجے اور یہ بھی مستحب ہے کہ بقیع میں جائے اور وہاں پر مدفون شہیدوں کو بھی سلام کرے۔ اہلسنت کے چاروں مشہور فقیہ، الفقہ علی المذاہب الاربعہ کے مطابق کسی بھی قید و شرط کے بغیر پیغمبرۖ کی زیارت کو مستحب سمجھتے تھے، اس کتاب میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ۖ کی قبر کی زیارت سب سے بہترین عمل ہے کہ جس کے متعلق متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں۔

گذشتہ لوگوں کو محترم سمجھنے کے فوائد:
گذشتہ لوگوں کی قبروں کا احترام مخصوصا بزرگوں کی قبروں کو محترم سمجھنا ایک پرانا شعار رہا ہے، لوگ ہزاروں سال سے اپنے بزرگوں کی قبروں کا احترام کرتے چلے آرہے ہیں کہ جس کے مفید آثار اور فلسفہ ظاہر و آشکار ہے۔
پہلا فائدہ: یہ ہے کہ ان لوگوں کی حرمت باقی رہتی ہے بلکہ ان لوگوں کی قدر کرنا انسانی عزت اورشرافت کا حصہ ہے، جو جوانوں کو ان کی راہوں پر چلتے رہنے کی طرف دعوت دینے کا بہترین وسیلہ ہے۔
دوسرا فائدہ: ان خاموش قبروں سے عبرت حاصل کرنا جو اپنی بے زبانی سے نصیحت کرتی ہیں، دل سے غفلت کے غبار کو پاک کرنا، دنیا کے خطرناک زرق و برق سے ہوشیار رہنا اور نفسانی خواہشات پر قابو پانا ہے، جیسا امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مردے بہترین واعظ اور نصیحت کرنے والے ہیں۔
تیسرا فائدہ: وارثین کی تسلی خاطر ہے اس لئے کہ وہ اپنے عزیزوں کے قبروں کے پاس پرسکون ہوجاتے ہیں، گویا وہ اپنے عزیزوں کے پاس ہونے کا احساس کرتے ہیں جو ان کے غموں کی بہترین دوا ہے اسی وجہ سے وہ لوگ جو لاپتہ ہوجاتے ہیں انکی شبیہ بنائی جاتی ہے اور اس کے کنارے ان کی یاد منائی جاتی ہے۔
چوتھا فائدہ: گذشتہ بزرگوں کی قبروں کو محترم سمجھنے کے ذریعہ ہرقوم وملت کی فرہنگی اور ثقافتی میراث کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اسی وجہ سے پرانی قومیں ابھی تک زندہ ہیں، جہان کے مسلمانوں کے پاس ایک عظیم فرہنگ ہے۔

قبروں کی زیارت میں شرک کا توہم، تخریبی سوچ کا نتیجہ ہے:
بار ہا ایسا ہوا ہے کہ بعض ناآگاہ لوگوں نے حضرات معصومین علیہم السلام کے زائرین کو مشرک کہا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اگر ان لوگوں کو زیارت کے متن سے آگاہی ہوجاتی تو ہرگز ایسے الفاظ اپنی زبان سے جاری نہ کرتے۔ کوئی بھی عقلمند پیغمبر ۖ یا حضرات معصومین علیہم السلام کی عبادت نہیں کرتا، اصلاً یہ موضوع ان میں سے کسی ایک کے ذہن میں بھی نہیں آتا، بلکہ تمام مومنین بزرگوں کے احترام اور شفاعت کی خاطر ان کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ اغلب اوقات وہ زیارت پڑھنے سے پہلے سو مرتبہ اللہ اکبر کہتے ہیں، گویا وہ سو مرتبہ تکبیر کہہ کر ہر قسم کے شرک کا اعلان کرتے ہیں۔
جیسا کہ ہم مشہور زیارت امین اللہ میں کہتے ہیں کہ اشھد انک جاھدت فی اللہ حق جھادہ و عملت بکتابہ واتبعت سنن نبیہ حتی دعاک اللہ الی جوارہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے راہ خدا میں جھاد کرنے کی طرح جھاد کیا اور اس کی کتاب پر عمل کیا یہاں تک کہ اس نے آپ کو اپنے جوار میں طلب کر لیا۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر توحید ہوسکتی ہے۔ بدون تردید زیارات کو شرک سے تعبیر کرنا تخریبی سوچ کا نتیجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 562353
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش