0
Tuesday 27 Sep 2016 17:35

مباہلہ عظمت اسلام کی نشانی

مباہلہ عظمت اسلام کی نشانی
تحریر: محمد جان حیدری

24 ذی الحجہ عید مباہلہ کا دن ہے، اس دن رسول خدا (ص) نے نصاریٰ نجراں سے مباہلہ کیا اور اسلام کو عیسایت پر کامیابی حاصل ہوئی۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے نجراں کے نصاریٰ کی طرف خط لکھا، جس میں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ نصاریٰ نجراں نے اس مسئلہ پر کافی غور و فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ ساٹھ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے، جو حقیقت کو سمجھنے اور جاننے کے لئے مدینہ روانہ ہو۔ نجران کا یہ قافلہ بڑی شان و شوکت اور فاخرانہ لباس پہنے مدینہ منورہ میں داخل ہوتا ہے۔ میر کارواں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے گھر کا پتہ پوچھتا ہے، معلوم ہوتا کہ پیغمبر اپنی مسجد میں تشریف فرما ہیں۔ کارواں مسجد میں داخل ہوتا ہے۔ پیغمبر نے نجران سے آئے افراد کے نسبت بے رخی ظاہر کی، جو کہ ہر ایک کیلئے سوال بر انگیز ثابت ہوئی۔ ظاہر سی بات ہے کارواں کے لئے بھی ناگوار گذرا کہ پہلے دعوت دی، اب بے رخی دکھا رہیں ہیں! آخر کیوں۔؟

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی علی (ع) نے اس گتھی کو سلجھایا۔ عیسائیوں سے کہا کہ آپ تجملات اور سونے جواہرات کے بغیر، عام لباس میں آنحضرت (ص) کی خدمت میں حاضر ہوں، آپکا استقبال ہوگا۔ اب کارواں عادی لباس میں حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ان کا گرم جوشی سے استقبال کیا اور انہیں اپنے پاس بٹھایا۔ میر کارواں ابو حارثہ نے گفتگو شروع کی: آنحضرت کا خط موصول ہوا، مشتاقانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تاکہ آپ سے گفتگو کریں۔
جی ہاں وہ خط میں نے ہی بھیجا ہے اور دوسرے حکام کے نام بھی خط ارسال کرچکا ہوں اور سب سے ایک بات کے سوا کچھ نہیں مانگا ہے، وہ یہ کہ شرک اور الحاد کو چھوڑ کر خدائے واحد کے فرمان کو قبول کرکے محبت اور توحید کے دین اسلام کو قبول کریں۔(1)
اگر آپ اسلام قبول کرنے کو ایک خدا پر ایمان لانے کو کہتے ہو تو ہم پہلے سے ہی خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔
اگر آپ حقیقت میں خدا پر ایمان رکھتے ہو تو عیسٰی کو کیوں خدا مانتے ہو اور سور کے گوشت کھانے سے کیوں اجتناب نہیں کرتے۔
اس بارے میں ہمارے پاس بہت سارے دلائل ہیں؛ عیسٰی مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ اندھوں کو بینائی عطا کرتے تھے، پیسان سے مبتلا بیماروں کو شفا بخشتے تھے۔
آپ نے عیسٰی علیہ السلام کے جن معجرات کو گنا وہ صحیح ہیں، لیکن یہ سب خدای واحد نے انہیں ان اعزازات سے نوازا تھا، اس لئے عیسٰی کی عبادت کرنے کے بجائے اسکے خدا کی عبادت کرنی چاہئے۔

پادری یہ جواب سن کے خاموش ہوگیا اور اس دوراں کارواں میں شریک کسی اور نے ظاہراً شرحبیل نے اس خاموشی کو توڑ۔
عیسٰی، خدا کا بیٹا ہے، کیونکہ انکی والدہ مریم نے کسی کے ساتھ نکاح کئے بغیر انہیں جنم دیا ہے۔
اس دوران اللہ نے اپنے حبیب کو اسکا جواب وحی فرمایا: عیسٰی کی مثال آدم کے مانند ہے؛ کہ اسے (ماں، باپ کے بغیر) خاک سے پیدا کیا گیا۔(2)
اس پر اچانک خاموشی چھا گئی اور سبھی بڑے پادری کو تک رہیں ہیں اور وہ خود شرحبیل کے کچھ کہنے کے انتظار میں ہے اور خود شرحبیل خاموش سرجھکائے بیٹھا ہے۔ آخر کار اس رسوائی سے اپنے آپ کو بچانے کیلئے بہانہ بازی پر اتر آئے اور کہنے لگے ان باتوں سے ہم مطمئن نہیں ہوئے ہیں،اس لئے ضروری ہے کہ سچ کو ثابت کرنے کے لئے مباھلہ کیا جائے۔ خدا کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہو کر جھوٹے پر عذاب کی درخواست کریں۔ ان کا خیال تھا کہ ان باتوں سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن ان کے ہوش آڑ گئے، جب انہوں نے سنا: اے عیسائیو! اپنے بیٹوں، خواتین اور اپنے نفوس کو لے کر آو؛ اسکے بعد مباھلہ کرتے ہیں اور جھوٹے پر الٰہی لعنت طلب کریں گے۔(3)

اس پر طے یہ ہوا کہ کل سورج کے طلوع ہونے کے بعد شہر سے باہر (مدینہ کے مشرق میں واقع) صحرا میں ملتے ہیں۔ یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ لوگ مباھلہ شروع ہونے سے پہلے ہی اس جگہ پر پہنچ گئے۔ نجران کے نمائندے آپس میں کہتے تھے کہ: اگر آج محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ) اپنے سرداروں اور سپاہیوں کے ساتھ میدان میں حاضر ہوتے ہیں، تو معلوم ہوگا کہ وہ حق پر نہیں ہیں اور اگر وہ اپنے عزیزوں کو لے آتے ہیں تو وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں۔ سب کی نظریں شہر کے دروازے پر ٹکی ہیں؛ دور سے مبہم سایہ نظر آنے لگا، جس سے ناظرین کی حیرت میں اضافہ ہوا، جو کچھ دیکھ رہے تھے، اسکا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ ایک ہاتھ سے حسین علیہ السلام کو آغوش میں لئے ہوئے ہیں اور دوسرے ہاتھ سے حسن علیہ السلام کو پکڑ کر بڑھ رہے ہیں۔ آنحضرت کے پیچھے پیچھے انکی دختر گرامی سیدۃ النساء العالمین حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا چل رہی ہیں اور ان سب کے پیچھے آنحضرت کا عموزاد بھائی، حسنین کا بابا اور فاطمہ کا شوہر علی ابن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔ صحرا میں ہمھمہ اور ولولے کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ کوئی کہہ رہا ہے دیکھو، پیغمبر اپنے سب سے عزیزوں کو لے آیا ہے۔ دوسرا کہہ رہا ہے کہ اپنے دعوے پر اسے اتنا یقین ہے کہ ان کو ساتھ لایا ہے۔

اس بیچ بڑے پادری نے کہا: میں تو ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں جو اگر پہاڑ کی طرف اشارہ کریں، وہ بھی اپنی جگہ سے کھستا ہوا نظر آئے گا، اگر انہوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہم اسی صحرا میں قہر الٰہی میں گرفتار ہوجائیں گے اور ہمارا نام صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا۔ دوسرے نے کہا تو پھر اس کا سد باب کیا ہے؟ جواب ملا ان کے ساتھ صلح کریں گے اور کہیں گے کہ ہم جزیہ دیں گے، تاکہ آپ ہم سے راضی رہیں اور ایسا ہی کیا گیا۔(4) اس طرح حق کی باطل پر فتح ہوئی۔ مباھلہ پیغمبر (ص) کی حقانیت اور امامت کی تصدیق کا نام ہے۔ مباھلہ پیغمبر کے اھل بیت کی جانب سے اسلام پر آنے والی ہر آنچ پر قربان ہونے کیلئے الٰہی منشور کا نام ہے۔ تاریخ میں ہم اس مباھلے کی تفسیر کبھی امام علی کی شہادت، کبھی امام حسن کی شہادت، کبھی امام حسین کی شہادت کبھی امام علی زین العابدین کی شہادت، کبھی امام محمد باقر کی شہادت، کبھی امام جعفر صادق کی شہادت، کبھی امام موسٰی کاظم کی شہادت، کبھی امام علی رضا کی شہادت، کبھی امام محمد تقی کی شہادت، کبھی امام علی النقی کی شہادت، کبھی امام حسن عسکری کی شہادت اور کبھی امام مھدی کی غیبت سے ملاحظہ کرتے ہیں کہ اس دن سے لے کر اسلام کی بقا کیلئے یہی مباھلہ کے لوگ، اسلام کی بقا کیلئے قربان ہونے کیلئے سامنے آتے نظر آتے رہے ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کی ہر سازش کو ناکام بناتے رہے۔ اللہ کی بارگاہ میں دست بہ دعا ہیں کہ ہمیں مباھلہ میں فتح پانے والے اسلام پر عمل کرنے اور پیغمبر کی تعلیمات کو عام کرنے والے ائمہ معصومین علیہم السلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِندَ اللّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثِمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ {آل عمران /59}
(2) تاریخ اسلام گروہ گروہ مصنفین ج 2 ص 67
(2)۔ فَمَنْ حَآجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَةُ اللّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ {آل عمران/61}
(4) سیرہ پیشوایان مھدی پیشائی ص 166
خبر کا کوڈ : 570902
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش