Tuesday 27 Dec 2016 02:52
تحریر: نادر بلوچ
27 دسمبر 2007ء کی ظلمت بھری شام کو بھلا کیسے ذہن سے محو کیا جاسکتا ہے، اس دن ہر سو بےبسی کی کیفیت تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قیامت برپا ہوچکی ہے، ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر تھے۔ مجھے نو سال پہلے کی یہ ظلمت بھری شام آج بھی یاد ہے، جب ایم فل ایڈمشن کیلئے این ٹی ایس ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھا، میں ان دنوں بہاولپور میں مقیم تھا، ٹی وی چینل وغیرہ کچھ نہیں دیکھتا تھا، نہ ہی کسی قسم کا کوئی خبرنامہ سنتا تھا، بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ ایم فل میں ایڈمشن ہو جائے۔ ان دنوں ڈاکٹر بابر حسین جو آج کل ملتان میں ایک اسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے ساتھ ملکر ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا، ڈاکٹر صاحب خود کیمسٹری میں ایم فل کرنا چاہ رہے تھے۔ اس لئے مغرب کے بعد ان کے گھر پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے ٹیسٹ کی تیاری میں کٹ جاتے تھے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی اس ظلم بھر شام کی، 27 دسمبر کی شام کو جیسے ہی یونیورسٹی چوک پہنچا تو عجیب صورتحال کا نظارہ کرنا پڑا، دکانوں کے شٹل اور ہر وقت کھلے رہنے والے ہوٹل تیزی کے ساتھ بند ہو رہے تھے، لوگوں میں ایک ہی بےچینی تھی کہ وہ جلد از جلد گھر پہنچیں۔ میں سائیکل پر یہ مناظر دیکھ رہا تھا، مجھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیوں لوگ بھاگ رہے ہیں؟، ہمت کرکے ایک بندے سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کیا ہوا، کیوں اچانک دکانیں بند کرکے بھاگ رہے ہیں، اس نے بھاگتے ہوئے ایک ہی جملہ کہا کہ بھائی بےنظیر قتل ہوگئی ہے، بس یہ جملہ سننا تھا کہ میرے جسم میں عجیب قسم کی کیفیت طاری ہونا شروع ہوگئی، سمجھ نہیں آرہی تھی کہ واپس اپنے کمرے میں چلا جاوں یا پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جاوں اور انہیں بتاوں کہ آج ہم ٹیسٹ کی تیاری نہیں کرسکتے۔ ہمت کرکے ڈاکٹر بابر حسین کے گھر پہنچا تو انہوں نے دوازہ کھولتے ہی آواز بلند کی کہ یار نادر آج ہم زیادہ بیٹھ کر پڑھیں گے، بس جلدی جانے کی بات نہ کرنا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے کی طرف دیکھا تو فوراً بولے یار نادر کیا ہوا، کیوں پریشان دکھائی دے رہے ہو، تمہارے چہرے پر یہ پریشانی کے آثار کیوں ہیں؟، خیریت تو ہے ناں، ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی سانس میں تمام سوال کر ڈالے، جواب میں میرے منہ سے ایک ہی جملہ نکلا کہ ڈاکٹر صاحب بےنظیر قتل ہوگئی۔
ابھی یہ جملہ ادا ہوا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے یار ایسا نہیں ہوسکتا، کچھ دیر پہلے میں نے انہیں ٹی وی پر لیاقت باغ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سنا ہے، ان کا خطاب مکمل ہوا تو میں ٹی وی بند کرکے ٹیسٹ کی تیاری کیلئے بیٹھا ہوں، تمہیں کسی نے غلط خبر دی ہوگی، جلدی اندر آجاو، ابھی ٹی وی آن کرکے دیکھتے ہیں۔ بس ڈاکٹر صاحب نے ٹی وی آن کیا تو ہر چینل پر لائیو نشریات چل رہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید ہوگئی ہیں، اس وقت میاں نواز شریف بھی اسپتال پہنچ چکے تھے۔ ہر طرف آہ و بکا تھی، ٹی وی پر بتایا جا رہا تھا کہ اب لاش گڑھی خدا بخش منتقل کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے، دوبئی سے آصف علی زرداری اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے ہمراہ پاکستان کی طرف نکل رہے ہیں، کل نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت چاہی اور اپنے کمرے میں آگیا۔ ساری رات سوچتے سوچتے گزر گئی کہ اس خاندان کو کس کی نظر لگ گئی کہ باپ پھانسی پر چڑھ گیا، بھائی قتل کر دیئے گئے اور آخر میں بی بی خود بھی شہید کر دی گئی۔
28 دسمبر کی صبح ہوئی اور اخبارات اٹھا کر دیکھے تو ہر شہر میں بربادی کے قصے بیان تھے، گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، بینک لوٹ لئے گئے، ٹرینیں روک لی گئیں، فضائی آپریشن متاثر ہوا، اخبار کا ہر صفحہ بی بی کی شہادت پر ماتم کناں تھا۔ اس سانحہ کے بعد 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، توقع تھی کہ بی بی کے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائیگا، لیکن پانچ برس گزرنے کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی چیئرپرسن کا قاتل نہ ڈھونڈ سکی۔ آج 27 دسمبر 2016ء کی یخ بستہ شب میں تحریر لکھتے ہوئے یہی کہوں گا کہ پنکی تجھے جدا ہوئے 9 برس بیت گئے، لیکن تیرے قاتلوں کا پتہ نہ چل سکا، تیرے نام پر پانچ برس تک حکومت کی گئی، لیکن تیرے قاتلوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا، پنکی آج بھی تیرے نام پر سیاست زندہ ہے، پیپلزپارٹی زندہ ہے، لیکن افسوس کہ تیرے نام لیوا ڈیلور کرنے کے بجائے تیرے نام پر زندہ ہیں۔
پنکی تیرے بعد اب تیرے بلاول سے امید ہے، لیکن لگتا ہے وہ ابھی مکمل آزاد نہیں ہوا۔ کاش پنکی تیری طرح تیرا بیٹا بھی جرت مند بنے، تیری طرح دہشتگردوں کو للکارے، ملک کی خاطر جیئے اور ملک کی خاطر مرنے کا عزم دہرائے، اپنے ساتھ کرپشن کا دھبہ نہ لگنے دے اور آج تیرے خون سے عہد وفا کرے کہ اس کی سیاست کا محور و مرکز فقط عوام کی خدمت ہوگا، وہ پارٹی سے ان گندے انڈوں کو نکال باہر کرے، جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی اس حال کو پہنچی ہے، نئی نوجوان نسل کیلئے گنجائش پیدا کرے۔ ہاں پنکی اگر یہ سب کچھ ہوگیا تو واقعی یہ تیرا لخت جگر تیرے نقش قدم پر تصور کیا جائیگا، ورنہ اس میں اور دوسرے سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
27 دسمبر 2007ء کی ظلمت بھری شام کو بھلا کیسے ذہن سے محو کیا جاسکتا ہے، اس دن ہر سو بےبسی کی کیفیت تھی، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ قیامت برپا ہوچکی ہے، ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر تھے۔ مجھے نو سال پہلے کی یہ ظلمت بھری شام آج بھی یاد ہے، جب ایم فل ایڈمشن کیلئے این ٹی ایس ٹیسٹ کی تیاری میں مصروف تھا، میں ان دنوں بہاولپور میں مقیم تھا، ٹی وی چینل وغیرہ کچھ نہیں دیکھتا تھا، نہ ہی کسی قسم کا کوئی خبرنامہ سنتا تھا، بس ایک ہی دھن سوار تھی کہ ایم فل میں ایڈمشن ہو جائے۔ ان دنوں ڈاکٹر بابر حسین جو آج کل ملتان میں ایک اسپتال میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے ساتھ ملکر ٹیسٹ کی تیاری کر رہا تھا، ڈاکٹر صاحب خود کیمسٹری میں ایم فل کرنا چاہ رہے تھے۔ اس لئے مغرب کے بعد ان کے گھر پر ڈیڑھ سے دو گھنٹے ٹیسٹ کی تیاری میں کٹ جاتے تھے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی اس ظلم بھر شام کی، 27 دسمبر کی شام کو جیسے ہی یونیورسٹی چوک پہنچا تو عجیب صورتحال کا نظارہ کرنا پڑا، دکانوں کے شٹل اور ہر وقت کھلے رہنے والے ہوٹل تیزی کے ساتھ بند ہو رہے تھے، لوگوں میں ایک ہی بےچینی تھی کہ وہ جلد از جلد گھر پہنچیں۔ میں سائیکل پر یہ مناظر دیکھ رہا تھا، مجھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے، کیوں لوگ بھاگ رہے ہیں؟، ہمت کرکے ایک بندے سے پوچھ ہی لیا کہ بھائی کیا ہوا، کیوں اچانک دکانیں بند کرکے بھاگ رہے ہیں، اس نے بھاگتے ہوئے ایک ہی جملہ کہا کہ بھائی بےنظیر قتل ہوگئی ہے، بس یہ جملہ سننا تھا کہ میرے جسم میں عجیب قسم کی کیفیت طاری ہونا شروع ہوگئی، سمجھ نہیں آرہی تھی کہ واپس اپنے کمرے میں چلا جاوں یا پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جاوں اور انہیں بتاوں کہ آج ہم ٹیسٹ کی تیاری نہیں کرسکتے۔ ہمت کرکے ڈاکٹر بابر حسین کے گھر پہنچا تو انہوں نے دوازہ کھولتے ہی آواز بلند کی کہ یار نادر آج ہم زیادہ بیٹھ کر پڑھیں گے، بس جلدی جانے کی بات نہ کرنا۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے کی طرف دیکھا تو فوراً بولے یار نادر کیا ہوا، کیوں پریشان دکھائی دے رہے ہو، تمہارے چہرے پر یہ پریشانی کے آثار کیوں ہیں؟، خیریت تو ہے ناں، ڈاکٹر صاحب نے ایک ہی سانس میں تمام سوال کر ڈالے، جواب میں میرے منہ سے ایک ہی جملہ نکلا کہ ڈاکٹر صاحب بےنظیر قتل ہوگئی۔
ابھی یہ جملہ ادا ہوا ہی تھا کہ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے یار ایسا نہیں ہوسکتا، کچھ دیر پہلے میں نے انہیں ٹی وی پر لیاقت باغ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سنا ہے، ان کا خطاب مکمل ہوا تو میں ٹی وی بند کرکے ٹیسٹ کی تیاری کیلئے بیٹھا ہوں، تمہیں کسی نے غلط خبر دی ہوگی، جلدی اندر آجاو، ابھی ٹی وی آن کرکے دیکھتے ہیں۔ بس ڈاکٹر صاحب نے ٹی وی آن کیا تو ہر چینل پر لائیو نشریات چل رہی تھیں اور بتایا جا رہا تھا کہ محترمہ بےنظیر بھٹو شہید ہوگئی ہیں، اس وقت میاں نواز شریف بھی اسپتال پہنچ چکے تھے۔ ہر طرف آہ و بکا تھی، ٹی وی پر بتایا جا رہا تھا کہ اب لاش گڑھی خدا بخش منتقل کرنے کے انتظامات کئے جائیں گے، دوبئی سے آصف علی زرداری اپنے بیٹے اور بیٹیوں کے ہمراہ پاکستان کی طرف نکل رہے ہیں، کل نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ڈاکٹر صاحب سے اجازت چاہی اور اپنے کمرے میں آگیا۔ ساری رات سوچتے سوچتے گزر گئی کہ اس خاندان کو کس کی نظر لگ گئی کہ باپ پھانسی پر چڑھ گیا، بھائی قتل کر دیئے گئے اور آخر میں بی بی خود بھی شہید کر دی گئی۔
28 دسمبر کی صبح ہوئی اور اخبارات اٹھا کر دیکھے تو ہر شہر میں بربادی کے قصے بیان تھے، گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی، بینک لوٹ لئے گئے، ٹرینیں روک لی گئیں، فضائی آپریشن متاثر ہوا، اخبار کا ہر صفحہ بی بی کی شہادت پر ماتم کناں تھا۔ اس سانحہ کے بعد 2008ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی حکومت قائم ہوئی، توقع تھی کہ بی بی کے قاتلوں کو تختہ دار پر لٹکایا جائیگا، لیکن پانچ برس گزرنے کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی چیئرپرسن کا قاتل نہ ڈھونڈ سکی۔ آج 27 دسمبر 2016ء کی یخ بستہ شب میں تحریر لکھتے ہوئے یہی کہوں گا کہ پنکی تجھے جدا ہوئے 9 برس بیت گئے، لیکن تیرے قاتلوں کا پتہ نہ چل سکا، تیرے نام پر پانچ برس تک حکومت کی گئی، لیکن تیرے قاتلوں کا کوئی سراغ نہ مل سکا، پنکی آج بھی تیرے نام پر سیاست زندہ ہے، پیپلزپارٹی زندہ ہے، لیکن افسوس کہ تیرے نام لیوا ڈیلور کرنے کے بجائے تیرے نام پر زندہ ہیں۔
پنکی تیرے بعد اب تیرے بلاول سے امید ہے، لیکن لگتا ہے وہ ابھی مکمل آزاد نہیں ہوا۔ کاش پنکی تیری طرح تیرا بیٹا بھی جرت مند بنے، تیری طرح دہشتگردوں کو للکارے، ملک کی خاطر جیئے اور ملک کی خاطر مرنے کا عزم دہرائے، اپنے ساتھ کرپشن کا دھبہ نہ لگنے دے اور آج تیرے خون سے عہد وفا کرے کہ اس کی سیاست کا محور و مرکز فقط عوام کی خدمت ہوگا، وہ پارٹی سے ان گندے انڈوں کو نکال باہر کرے، جن کی وجہ سے پیپلزپارٹی اس حال کو پہنچی ہے، نئی نوجوان نسل کیلئے گنجائش پیدا کرے۔ ہاں پنکی اگر یہ سب کچھ ہوگیا تو واقعی یہ تیرا لخت جگر تیرے نقش قدم پر تصور کیا جائیگا، ورنہ اس میں اور دوسرے سیاستدانوں میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 594908
یہ بھی تو قابل تامل ہے کہ خود بے نظیر بھٹو نے پارٹی اور قوم کو کیا دیا؟
وہی موروثی سیاست آگے بڑھی، اشرافیہ کا بول بالا ہوا اور وہی جاگیرداری سسٹم اور زردار طبقہ مضبوط ہوا۔ بے نطیر نے بھی تو فقط بھٹو کی بیٹی ہونے کی نسبت کو کیش کیا ہے، اس کے علاوہ اور کیا خوبی تھی محترمہ میں۔ کیا بھول گئے ہیں کہ وی پی سنگھ کو خالصتان کی خفیہ دستاویزات کس نے فراہم کی تھیں اور مرتضٰی بھٹو کا قتل کس کے دور اقتدار میں ہوا تھا اور نصرت بھٹو کو گوشہ نشین کس نے کیا تھا؟
جب ہمارے دانشور دانشمندی کے نام پر شخصیت پرستی اور پارٹی پرستی کا پرچار کرتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔
وہی موروثی سیاست آگے بڑھی، اشرافیہ کا بول بالا ہوا اور وہی جاگیرداری سسٹم اور زردار طبقہ مضبوط ہوا۔ بے نطیر نے بھی تو فقط بھٹو کی بیٹی ہونے کی نسبت کو کیش کیا ہے، اس کے علاوہ اور کیا خوبی تھی محترمہ میں۔ کیا بھول گئے ہیں کہ وی پی سنگھ کو خالصتان کی خفیہ دستاویزات کس نے فراہم کی تھیں اور مرتضٰی بھٹو کا قتل کس کے دور اقتدار میں ہوا تھا اور نصرت بھٹو کو گوشہ نشین کس نے کیا تھا؟
جب ہمارے دانشور دانشمندی کے نام پر شخصیت پرستی اور پارٹی پرستی کا پرچار کرتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔
منتخب
26 Apr 2024
26 Apr 2024
25 Apr 2024
25 Apr 2024
25 Apr 2024
25 Apr 2024
24 Apr 2024
24 Apr 2024
24 Apr 2024
24 Apr 2024
اگلا المیہ ملاحظہ کیجیے"پاکستان پیپلز پارٹی پانچ برسوں میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے اصل قاتلوں کا تعین بھی نہیں کرسکی" محترمہ نے اپنی ای میل میں جن لوگوں پر شک کا اظہار کیا تھا‘ وہ جن لوگوں کو اپنے لیے خطرہ قرار دیتی رہیں ان کی جماعت نے ان کے ساتھ اتحاد بھی بنایا اور انھیں حکومت میں بھی شامل کیا‘ پارٹی جنرل پرویز مشرف سے حلف بھی اٹھاتی رہی اور گارڈ آف آنر بھی پیش کرتی رہی‘محترمہ بے نظیر بھٹو کی پارٹی کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟۔"