4
0
Wednesday 4 Jan 2017 16:46

جنرل (ر) راحیل شریف کی 9 جنوری کو وطن واپسی، پاکستان سے پوری بریگیڈ تیار کرکے لے جانیکا امکان

جنرل (ر) راحیل شریف کی 9 جنوری کو وطن واپسی، پاکستان سے پوری بریگیڈ تیار کرکے لے جانیکا امکان
رپورٹ: ایس ایم عابدی

دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے نام نہاد عسکری اتحاد کو منظم کرنے کیلئے پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سے تمام معاملات حتمی مراحل میں داخل ہوگئے ہیں، وہ اپنے دورہ سعودی عرب سے 9 جنوری کو وطن واپس آ رہے ہیں اور فوری طور پر اپنے ساتھ لے جانے کیلئے دو سے تین تک سابق آرمی لیفٹیننٹ جنرل، متعدد بریگیڈیئر (ر) اور کئی دیگر سابق فوجی افسران کو نئی کمان کیلئے بھرتی کریں گے، ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اگلے 3 ماہ کے اندر پاکستان سے کم و بیش ایک بریگیڈ کے لگ بھگ سابق آرمی افسر جمع کرکے جنوری فروری میں انہیں بھیجنے کا کام نہ صرف شروع کر دینگے، بلکہ مارچ کے آخر تک یہ مرحلہ مکمل ہو جائے گا۔ مقامی روزنامہ کے مطابق امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 9 جنوری کو پاکستان واپس آتے ہی وہ اپنے کام کا آغاز کر دیں گے، انہیں دہشت گردی کے خلاف اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے، جس کا قیام 15 دسمبر 2015ء کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن نائف نے کیا تھا، اس کمان کا جوائنٹ کمانڈ سینٹر جے سی سی (JCC) سعودی عرب کے شہر ریاض میں ہوگا۔

کمانڈ میں شامل مسلم ممالک کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے وہ مسلم ممالک ہونگے جس کے پاس باقاعدہ فوجی اسٹرکچر موجود ہے، جن میں سعودی عرب، بحرین، بنگلہ دیش، مصر، اردن، نائیجریا، عمان، ترکی، متحدہ عرب امارات اور پاکستان کے نام شامل ہیں۔ دوسری صف میں وہ ممالک شامل ہوں گے، جن کی باقاعدہ تربیت یافتہ فوج اور کمان ابھی مکمل نہیں۔ ان کے نام تنیش، چاؤ، کومرو، کو ڈی آئی ڈی، ڈی جی مشری، اریٹیریا، گبون، کینیا، کویت، لبنان، مالدیپ، مالی، موریطانیہ، مراکش، نائیجیریا، سینیگال، سری لیون، صومالیہ، سوڈان، ٹوگو، تیونس، یمن، تیسری صف میں وہ ممالک ہیں جن کی رکنیت زیر غور اور زیر تکمیل ہے، ان کے نام یہ ہیں افغانستان، آذربائیجان، انڈونیشیا، تاجکستان وغیرہ۔ ان ممالک کی شمولیت یا عدم شمولیت کا فیصلہ اگلے چند ہفتے میں ہو جائے گا۔ سعودی سربراہی میں بننے والے ممالک کے جوائنٹ کمانڈ سینٹر کو پاکستان کے جی ایچ کیو کے رول ماڈل پر بنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ پاکستان باقاعدہ فوجی دستے بھی اس سے قبل سعودی عرب جاتے رہے ہیں، 1980ء میں پاکستانی دستے سعودی عرب کی افواج کے ساتھ افرادی قوت کے طور پر شامل رہے، تاہم اسلحہ اور ساز و سامان سعودی عرب نے فراہم کیا تھا۔ 1990ء کی دہائی میں یہ دفاعی معاہدہ ختم ہوگیا اور پاکستان کی بری افواج کے دستے واپس آگئے۔ بعد ازاں صدام حسین نے جب حملہ کیا تو پاکستان سے کچھ فوجی دستے پھر سعودی عرب میں پہنچے، تاہم اس بار پاکستان کے ریگولر فوجی دستے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض نہیں جائیں گے، بلکہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف سعودی عرب سے 9 جنوری کو واپس پاکستان آنے کے بعد پہلے مرحلے پر ریٹائر فوجی جرنیلوں اور ریٹائرڈ اعلٰی افسروں کو منتخب کریں گے، دوسرے مرحلے پر ریٹائرڈ اعلٰی اور چھوٹے افسروں و ریٹائرڈ فوجیوں کا ایک بریگیڈ کھڑا کرنے کی کوشش کا آغاز کر دیں گے، جو سعودی بادشاہت کے دشمنوں کے خلاف اسلامک ملٹری الائنس میں مرکزی کردار ادا کرے گا، تاہم دیگر بڑے ملکوں کی افواج میں سے بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر اور سپاہی لئے جائیں گے۔ جن تین ملکوں کو سب سے زیادہ ترجیح دی جائے گی، ان میں سعودی عرب اور پاکستان کے علاوہ ترکی، مصر اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔

واضح رہے کہ سعودی افواج کے بعض اہم شعبے میں پہلے ہی سے اعلٰی پیشہ ورانہ تربیت کا فریضہ پاکستان انجام دیتا رہا ہے، تاہم یہ خبر عام ہے کہ اس بار پاکستان سے بالخصوص دہشت گردی کے خلاف مہم مثلاً سوات اور وزیرستان میں ضرب عضب کے ریٹائرڈ ہیرو جمع کرکے اسلامی ممالک کی جائنٹ کمانڈ میں شامل کئے جائیں گے۔ جنرل راحیل شریف کی جانب سے سعودی اتحاد افواج میں شمولیت پر پاکستانی عوام میں شدید غصہ پایا جاتا ہے، عوام نے اس بات پر شدید غصہ کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ جنرل راحیل کا یہ اقدام پاکستان کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی کا سبب بنے گا، عوامی حلقوں کے مطابق جنرل راحیل شریف نے فوج کی سربراہی سے لے کر اب تک نیک نامی میں اپنا نام ثبت کیا ہے اور قوم نے ان کو جو عزت دی ہے وہ بے مثال ہے، پاکستانی قوم نے انتہاء پسندوں کے خلاف آپریشن کی وجہ نے جنرل راحیل کو عزت بخشی، تاہم اب جنرل راحیل دہشت گردوں کے سرپرست آل سعود کی حفاظت کیلئے بنائے جانے والے فوجی اتحاد کا حصہ بن کر جہاں اپنی رسوائی کا سبب بن رہے ہیں، وہیں پاکستانی عوام کے جذبات بھی مجروح کر رہے ہیں، واضح رہے کہ سعودی نائب ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی سربراہی میں بننے والا سعودی فوجی اتحاد اس وقت قائم کیا گیا کہ جب یمن میں تحریک انصاراللہ کے ہاتھوں سعودی فوج کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پاکستان سمیت مختلف ممالک نے یمن پر چڑھائی کی سعودی دعوت کو مسترد کر دیا تھا۔
خبر کا کوڈ : 597064
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
ان صاحب نے شاید حوثیوں کو ایم کیو ایم سمجھ رکھا ہے، اچھا ہے جتنے لے کر جاسکتے ہیں ضرور جائیں
Pakistan
یہ صاحب بریگیڈ لے جا کر بھی کیا کر لیں گے، مجھے تو لگ رہا ہے کہ اگر انہوں نے یمن میں حوثیوں سے جھڑپ کی تو شاید پاکستان میں بہت لاشیں آئیں گی۔
الطاف
Iran, Islamic Republic of
راحيل صاحب كو آل سعود كے بجائے خالق قوی و عزیز کی رضا حاصل کرنی چاھیۓ، ورنہ ایسا نہ ھو کہ ظالمون کے ساتھ وہ بھی جنھم کا ایندھن بنے۔
Iran, Islamic Republic of
پاکستان کے سابق جرنیل اور افسر تو اپنی لمبی جوڑی توندوں کو نہیں سنبھال سکتے، وہ یمن کے دشوار گزار علاقوں میں کیا لڑیں گے۔ رہ گئے بچارے سپاہی تو فوجی فاؤنڈیشن ریالوں کے چکر میں انکو جہاں چاہے لے جاسکتی ہے۔
منتخب
ہماری پیشکش