0
Friday 6 Jan 2017 19:52

سلیوٹ، شہید اعتزاز حسن

سلیوٹ، شہید اعتزاز حسن
تحریر: ارشاد حسین ناصر

کربلا ایک ایسی درسگاہ ہے، جس سے درس لینے والے کبھی مات نہیں کھاتے، اس لیئے کہ کربلا مر کر جینے کا نام ہے، اگر کوئی کربلائی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ موت کو گلے لگانے کیلئے تیار ہے، اگر کوئی کربلائی ہے تو اس کا مطلب ہے اس کو زندگی سے نہیں ارفعٰ مقصد سے پیار ہے، اگر کوئی کربلائی ہونے کا دعویدار ہے تو اس کا مطلب ہے اسے کربلا کے تپتے صحرا پہ اپنے سرخ خون سے اسلام زندہ باد لکھنے کا ہنر معلوم ہے، یزیدیت کا سلسلہ کربلا سے شروع ہو کر آج تک چل رہا ہے۔ کربلا سے پہلے یزیدیت، سفیانیت کی شکل اور نام سے موجود تھی، یہ بات بھی یاد رہے کہ یزیدیت ہر دور میں کسی نہ کسی نام اور شکل میں موجود تھی، جس کا کام حق کی مخالفت ہی تھا۔ پاک سرزمین، پاکستان میں یزیدیت کے پروردہ امام حسیؑن کے نام لیواؤں کو کہیں گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں، تو کہیں پتھراؤ، لاٹھی چارج، آنسو گیس اور بم دھماکوں سے شہید کرتے ہیں، کہیں مجلس حسیؑن روکی جاتی ہے، کہیں امام بارگاہ کو شہید کیا جاتا ہے، کہیں جلوس پر حملہ کیا جاتا ہے، کہیں نمازیوں کے مقدس و پاک لہو سے خانہ خدا کا فرش سرخ کیا جاتا ہے، کہیں ہم دیکھتے ہیں کہ معصوم اور کم سن بچوں کو بارود کی بارش سے مسل دیا جاتا ہے، ایسی ہی ایک سازش اور ناکام کوشش صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ہنگو کے علاقہ ابراہیم زئی میں تین سال پہلے آج کے دن، یعنی 6 جولائی 2014ء کو ہوئی۔ ابراہیم زئی ایک شیعہ نشین فعال ایریا ہے، جس پر طالبان نے کئی بار حملے کیئے ہیں اور اس خطے میں ہونے والی طالبان کیساتھ لڑائیوں میں اس خطے کے لوگوں نے بہادری اور جراتمندی کیساتھ جانوں کی پروا کیے بغیر خود کو اگلے مورچوں میں پیش کیا ہے۔

اس ملک میں جہالت کے پروردوں، تعصب کے شکار اندھیرے کے پجاریوں نے، یہاں پر بوائز ہائی اسکول ابراہیم زئی کے طالبعلموں کو خون میں نہلانے اور والدین کو غم کی وادی میں لے جانے کا منصوبہ بنایا۔ جسے ایک پندرہ سال کے انتہائی جراتمند طالبعلم اعتزاز حسن نے ناکام بنا دیا تھا، عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسے مواقع پر بڑے بڑوں کی ہوا اکھڑ جاتی ہے، مگر یہ طالبعلم اتنا حاضر دماغ تھا کہ اسے فیصلہ کرنے میں دیر نہ لگی، اگر وہ ذرا سا بھی تردد کا شکار ہوتا تو شائد دشمن اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا، مگر اس کی حاضر دماغی اور جذبہ ایثار و قربانی نے اسے اس عمل پر آمادہ کیا کہ اس کا نام ہمیشہ کیلئے تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا گیا، وہ خود تو جان دے گیا مگر سینکڑوں معصوموں کو کملانے سے بچا گیا۔ وہ معصوم پھول جو اس وقت دعا میں شریک تھے، ان کی تعداد 800 کے قریب تھی، بارود سے لدے ہوئے جہنم کے خریدار کے ساتھ اعتزاز حسن کی مڈھ بھیڑ اور دوسرے ساتھی طالبعلموں کو بچانے کیلئے اس پر شیر کی طرح جھپٹنا، آج ہر پاکستانی کیلئے فخر کا باعث ہے۔ یہ ایک ایسی مثال ہے جس کو ہم کربلائی گھرانوں میں تربیت پانے والوں میں ہی دیکھتے ہیں، نیول بیس کراچی ہو، جہاں شہید لیفٹیننٹ یاسر عباس نے جرات مندی و جوانمردی کا مظاہرہ کر کے دشمنوں کو للکارا اور شہادت کا باب رقم کیا، ایسی شہادت جس کی مثالیں پاکستان میں بہت کم ملتی ہیں اور یہ بات آن ریکارڈ ہے کہ خودکش حملہ آوروں کے بارے ایک سوچ اور فکر پروان چڑھائی گئی ہے کہ ان کو روکنا ناممکن ہے، کیا اعتزاز حسن کی اس عضیم قربانی کو سامنے رکھ کے بھی یہی کہا جائے گا کہ خودکش حملہ آور کو روکنا ناممکن ہے، اس سے قبل بھی اسی علاقے کے کئی دلاوروں نے بھی ان خود بمباروں کو روکا ہے۔

لاہور کی مسجد کشمیریاں اندرون موچی گیٹ میں بھی ایسی ہی ایک کوشش کو ناکام بنانے والے کا تعلق اسی ضلع کوہاٹ سے تھا اور جہاں تک مجھے یاد ہے، اسلام آباد بارہ کہو مسجد علی میں چند سال قبل عید نماز میں گھسنے والے خود کش بمبار کا مقابلہ بھی ایسے ہی ایک جوان نے کیا تھا، جو اس علاقے سے تعلق رکھتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کربلا کے عظیم درس کا نتیجہ ہے، یہ کربلائی فکر اور اس کی تربیت کا نتیجہ ہے، ورنہ بائیس کروڑ انسانوں کے اس ملک میں کوئی اور بھی مثال سامنے آتی۔ کربلائی مائیں ہی ایسے سپوتوں کو جنم دیتی ہیں، جو انسانیت کیلئے باعث افتخار بن جاتے ہیں، جنہیں تاریخ کبھی بھی بھلا نہیں پاتی۔ ہم نے کئی ایک ایسے معرکوں کو لائیو کاسٹ ہوتے دیکھا ہے، جن میں دہشت گردوں نے حملے کیئے اور ہماری فورسز بالخصوص پولیس بھاگ کھڑی ہوئی یا انہیں جان کے لالے پڑ گئے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ گذشتہ 35 برس سے دہشت گردوں کے لشکر، حالت جنگ میں ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دہشت گردی کو ایک انڈسٹری کی شکل دی ہے، معذرت کیساتھ، بعض اہل فکر کی رائے ہے کہ ہمارے ملک کے ارباب بست و کشاد اور صاحبان طاقت و قوت اس انڈسٹری سے وابستہ ہیں اور دنیا میں جہاں کسی کو افرادی قوت درکار ہوتی ہے، اسے بھیجتے ہیں۔ سعودیہ، بحرین، شام، یمن اور خلیجی ممالک سمیت ہمارے ہمسایہ افغانستان کی مثالیں اس کی گواہ ہیں۔ دنیا کی مختلف طاقتیں فوائد اٹھا رہی ہیں، ہم جس ملک میں سانس لیتے ہیں اس کا جو حال ہو چکا ہے اس کیلئے اب دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ آپ خود سوچیں کہ جہاں ہر سو خوف ہو، وحشت ہو، دکھ ہوں درد ہوں اور بے اعتمادی ہو، وہاں سے لوگ بھاگ رہے ہوں، دوسرے ملک اور صوبوں میں ہجرت کر رہے ہوں، تو حیران نہیں ہونا چاہیئے۔

اگر ہم نتائج اور عمل کو دیکھیں اور جائزہ لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہشت گردی کیخلاف کاروائی نام نہاد آپریشن ہے۔ یہ نام نہاد کراچی آپریشن، یہ نام نہاد نیشنل ایکشن پلان، یہ نام نہاد ضرب عضب پتہ نہیں کہاں کہاں کامیابیوں کے جھنڈے گاڑے جا رہے ہیں؟ معلوم نہیں کہاں ان ملک دشمنوں اور انسانیت کے لبادے میں سفاکیت کے پروردوں کی کمر توڑی جا رہی ہے، جس سے بھاگ کے وہ اب آسان اہداف کی طرف رخ کیے ہوئے ہیں۔ کبھی کبھی تو بہت سے کرداروں اور الف لیلوی داستانوں کے خالقوں کی کہانیوں سے گھن آنے لگتی ہے۔ آخر ایسا کیوں کرتے ہیں، لوگوں کو دھوکہ دینے کیلئے، انہیں اندھیرے میں رکھنے کیلئے، انہیں حقائق سے کوسوں دور دھکیلنے کیلئے سکرپٹ تیار کیئے جاتے ہیں۔ وہ دعوے جو ایک پاپولر جرنیل کی زبانی سننے کو ملتے تھے، اب کیا ہوئے؟ وہ نعرے جو میڈیا میں لگائے جا رہے تھے، ان کا کھوکھلا پن سب پہ عیاں ہو چکا ہے، بے گناہوں کو پابند سلاسل کرنا معمول بن چکا ہے، قاتلوں کا گروہ کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ مظلوموں اور مقتولوں کو اپنی آواز بلند کرنے کا حق نہیں دیا جا رہا، انصاف کا گلہ گھونٹنے کیلئے قاتلوں کو مقتولوں پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ جس سے واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ملک اور یہاں کے عوام کے دکھ ابھی کم نہیں ہوئے، اس ملک پر نحوست کی کالی گھٹائیں سایہ فگن ہیں جیسے آج سے قبل تھیں۔ جو نیشنل ایکشن پلان اتنی لے دے کے بعد پارلیمنٹ سے منظور کیا گیا تھا، اس کا دائرہ حکمرانوں اور فورسز کی اپنی ترجیح تک محدود ہو چکا ہے اور اس کا شکار ایسی قوتیں ہو رہی ہیں، جنہیں سیکیورٹی فورسز کا پشتبان کہا جا سکتا ہے، جبکہ اس کے مدِ مقابل وہ لوگ جو اس نیشنل ایکشن پلان کے تحت شکنجے میں لائے جانے تھے، انہیں کھلا چھوڑ دیا گیا، جو اس ملک کی سلامتی کے ساتھ بہت بڑا ظلم کرنے کے مترادف ہے۔

اس سے بھی زیادہ دکھ اس بات پہ ہے کہ یہ سب وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی ذمہ داری ایسی سازشوں اور کاروائیوں کو روکنا اور انکا سدباب کرنا ہے، جو کچھ ہو رہا ہے وہ سندھ میں ہی ہے، سندھ میں بھی کراچی زد پہ ہے، جبکہ سب سے بڑا صوبہ پنجاب جس میں دہشت گردوں کے حامی، مددگار، جنہیں سہولت کار کا درجہ حاصل ہے، انہیں ہاتھ بھی نہیں لگایا گیا، بلکہ اتنا چیخنے چلانے کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ پھانسیوں کا جو سلسلہ آگے بڑھنا چاہیئے تھا اور ہمارے اجتماعی قتل کے مجرموں کو سر عام پھانسیوں پر لٹکانا چاہیئے تھا، اب تک کراچی، پنجاب، کوئٹہ اور جی بی سمیت، ہر ایریا میں کئی کئی لوگوں کو شہید کرنے والوں کو جیلوں میں مہمان کے طور پہ رکھا گیا ہے۔ بلوچستان کی صوررتحال اس قدر خراب ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ یہاں تکفیریوں، کالعدم گروہوں کا کھلا گٹھ جوڑ ہے، انہیں صوبے بھر میں گھومنے کی آزادی ہے، جبکہ اس صوبے میں ہم نے 100، 100 لاشیں اٹھائی ہیں، ان کا کوئی قاتل ہمارے سیکیورٹی اداروں کو ابھی تک نہیں ملا۔ جبکہ یہاں کے اہل تشیع و ہزارہ کی مشکلات میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ اس برس بھی کوئٹہ تفتان کے راستے زیارات پر جانے والوں کیلئے شدید مشکلات ہیں، جبکہ اسی راستے سے ایران کے ذریعہ ترکی اور یورپ جانے والوں کو کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں، یہ لوگ اسی روٹ پہ تمام سفر کر کے ایران تفتان بارڈر پہ پہنچ بھی جاتے ہیں اور اس سے آگے بھی نکل جاتے ہیں۔ بہت سے ایرانی فورسز کے ہاتھوں پکڑے جاتے ہیں ایرانی فورسز روزانہ کی بنیاد پہ ایسے انسانی سمگلروں کو سینکڑوں کی تعداد میں پاکستانی لیویز اور سیکیورٹی فورسز کے سپرد کرتے ہیں۔

یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس روٹ پہ زائرین کی مشکلات ہمارے اداروں اور ان سے وابستہ بعض گروہوں کی ایجاد کردہ ہیں، جنہیں لگام دیئے بغیر زائرین کی مشکلات ختم نہیں ہونگی۔ ہم جو کربلائی ہیں، حسینی ہیں، ہمیں تو ہر دم آمادہ رہنا ہے، ہم مشکلات اور مصائب میں اور نکھر جاتے ہیں، ہمیں اسیر کرنے سے، ہمیں غائب کرنے سے، ہمیں منظر سے ہٹانے سے کوئی اور کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ہم میں سے ہر ایک اعتزاز حسن بنتا رہیگا اور ملک کو بچانے کیلئے خود کو پیش کرتا رہیگا۔ شہید اعتزاز حسن کی عظیم قربانی کا تقاضا ہے کہ اسے نصاب میں شامل کیا جائے، تاکہ ہماری ملت اور آئندہ نسل اسے فالو کرے، اسے اختیار کرے اور ملک پر آنے والی کسی بھی مشکل میں اپنے آپ کو پیش کرنے میں حیل و حجت کا شکار نہ ہو۔ حکمرانو! اس پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہماری نسلوں کو غلط اور جھوٹی تاریخ پڑھا کے اس خطے پر حملے کرنے والے لٹیروں کو ہیرو بنا کر پیش کرنے کی بجائے، آج کے ہیرو، جس کی زندہ قربانی ہم سب کے سامنے ہے اسے پڑھایا جائے، نصاب کا حصہ بنایا جائے۔

شہید محسن نقوی نے شائد اسی مرد مجاہد کیلئے کہا تھا۔

قاتل مرا نشاں مٹانے پہ ہے بضد
میں بھی سناں کی نوک پہ سر چھوڑ جاؤں گا
تو نے مجھے چراغ سمجھ کر بجھا دیا
لیکن ترے لیئے میں سحر چھوڑ جاؤں گا
لشکر کریں گے میری دلیری پہ تبصرے
مر کر بھی زندگی کی خبر چھوڑ جاؤں گا
یہ رونقیں یہ لوگ یہ گھرچھوڑ جاؤں گا
خبر کا کوڈ : 597643
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش