0
Tuesday 17 Jan 2017 00:41

تختِ لاہور اور پنجاب کی پسماندگی

تختِ لاہور اور پنجاب کی پسماندگی
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

شریف برادران کی کسان کش پالیسیوں کی وجہ سے پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے لئے بہت گنجائش پیدا ہوچکی ہے۔ جھنگ سے سادات فیملی کے مخدوم فیصل صالح حیات کی پیپلزپارٹی میں شمولیت کے بعد مسلم لیگ نون کے لئے معاملہ مزید سنجیدہ ہو رہا ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے جاگیردار خاندانوں کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے امکانات زیرِبحث ہیں۔ کرپشن کے الزامات سے زیادہ حکمران خاندان کی گردن کا سریا، اس بات کا باعث ہے کہ پنجاب کے نوابوں کی نئی نسلیں پارٹی تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ رائے عامہ بھی متاثر ہو رہی ہے۔ لیکن کلی طور پر مسلم لیگ نون کے اثرورسوخ میں زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔ جنوبی پنجاب پہ بھی خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اسی لئے وزیراعلٰی پنجاب نے رکن قومی اسمبلی اویس احمد لغاری، رکن پنجاب اسمبلی نشاط احمد، سابق رکن پنجاب اسمبلی سمیع ﷲ چودھری اور بہاولپور کے میئر عقیل انجم ہاشمی نے ملاقات کی ہے۔ کسانوں کے لئے زیادہ مشکلات کا باعث کھاد کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ اسی تناظر میں شہباز شریف نے کہا ہے کہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے کاشتکاروں کے مفادات کا ہر سطح پر بھرپور تحفظ کیا، زرعی شعبے کی ترقی اور کاشتکاروں کی فلاح کے اقدامات خلوص نیت سے کر رہے ہیں، عوام کے مسائل محض بیانات سے حل نہیں ہوتے، بلکہ اس کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے، حکومت کی ٹھوس معاشی پالیسیوں کے باعث قومی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور 2013ء کے مقابلے میں آج کا پاکستان زیادہ محفوظ اور ترقی یافتہ ہے۔

یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ پنجاب کے وزیراعلٰی پورے پاکستان کی ترقی کا نعرہ بلند کر رہے ہیں، لیکن ان کی خواہش کے باوجود وفاق کسانوں کو ریلیف دینے کے لئے آمادہ نہیں تھا۔ مسلم لیگ نون شریف فیملی کا پاور بیس ہے، طاقت کا مرکز لاہور ہے، اسی لئے صوبے بھر کا بجٹ صرف لاہور پر ہی خرچ کر دیا جاتا ہے اور باقی 35 اضلاع ملکر بھی لاہور کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہتے ہیں، لیکن وزارت اعلٰی کا تاج لاہور کے بادشاہ کے سر ہی سجتا ہے، جبکہ کھربوں روپے صرف کرنے کے باوجود لاہور شہر کے مسائل میں بھی  مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس کے باوجود رواں سال سے اب تک لاہور کیلئے 6 کھرب 53 ارب 20 کروڑ 92 لاکھ روپے جاری کئے جا چکے ہیں۔ اسکے مقابلہ میں دیگر شہروں کیلئے صرف 2 کھرب 65 ارب 96 کروڑ 91 لاکھ روپے رکھے گئے، جبکہ دیگر 35 اضلاع میں سینکڑوں ترقیاتی سکیمیں بند ہی کر دی گئیں اور انکا بجٹ بھی صوبائی دارالحکومت پر خرچ کیا جا رہا ہے، صوبہ بھر کے تمام تر وسائل، اختیارات اور روزگار کے مواقع بھی اسی شہر میں رکھے گئے ہیں، چنانچہ پورے پنجاب سے سینکڑوں لوگ اپنے کاموں اور روزگار کی تلاش میں لاہور آنے پر مجبور ہیں، نتیجہ میں شہر میں گوناگوں مسائل پیدا ہوگئے اور سڑکوں پر ٹریفک جام معمول بن چکا، جبکہ ہسپتالوں میں بھی رش بڑھنے کے باعث مریضوں کا علاج معالجہ دشوار تر ہوگیا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق لاہور کے ہسپتالوں میں 76 فیصد مریض قریبی اضلاع سے آتے ہیں، صوبہ بھر کے 152 میں سے 18 بڑے اور جدید سرکاری ہسپتال اسی شہر میں ہیں۔ صوبے کے دوسرے اضلاع میں تعلیمی سہولتوں کا بھی فقدان ہے۔ پنجاب میں سرکاری کالجز کی تعداد 710 ہے، جبکہ ان میں سے 54 لاہور میں ہیں۔ صوبہ کی 27 جامعات میں سے 9 بڑی یونیورسٹیز بھی یہیں پر ہیں۔ اسکے علاوہ سب سے بڑی انجینئرنگ یونیورسٹی، تینوں میڈیکل یونیورسٹیز اور 12 میں سے 3 میڈیکل کالج بھی صوبائی دارالحکومت ہی میں ہیں، ان تعلیمی اداروں میں اساتذہ بھی پورے اور معیار بھی بہتر ہے۔ اسی باعث دوسرے شہروں سے طلبہ لاہور کا رخ کرتے ہیں۔ یوں تعداد بڑھنے سے تعلیمی شعبہ میں بھی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ تمام میگا پراجیکٹس بھی لاہور میں چل رہے ہیں، میٹرو بس کے بعد اورنج ٹرین بن رہی ہے، جبکہ فلائی اوورز کی تعمیر ہو یا انہیں کارپٹڈ کرنے کا منصوبہ، دوسرے اضلاع سے کروڑوں اربوں کے فنڈز کاٹ کر یہاں خرچ کر دیئے جاتے ہیں۔ جہاں ترقیاتی منصوبے چل رہے ہوں، روزگار بھی وہیں ملتا ہے اور لاہور میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے، یہاں کاروباری منڈیاں بھی ہیں اور صنعتوں کا جال بھی، تجارتی مراکز بھی ہیں اور بڑے بڑے شاپنگ مال بھی، اسی لئے روزی روٹی کی تلاش بھی یہیں آکر ختم ہوتی ہے اور معاشی مسائل میں جکڑے لوگ اس شہر میں اپنا روزگار چلاتے ہیں۔ بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں، ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، ٹرانسپورٹ نظام اور دیگر سہولیات نے پورا لاہور بدل دیا ہے، مگر باقی سارے صوبہ میں تبدیلی محض ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ محتاط اندازے کے تحت پنجاب کی آبادی 10 کروڑ جبکہ لاہور کی ایک کروڑ ہے، جسے سب سہولیات میسر ہیں، لیکن باقی 9 کروڑ افراد کو فراموش ہی کر دیا گیا ہے۔ اسکے نتیجہ میں جنوبی ہی نہیں شمالی پنجاب بھی احساس محرومی کا شکار ہے۔

صحت کی سہولتیں ہوں یا تعلیم کی فراہمی، ٹرانسپورٹ کی دستیابی یا پھر صنعتوں کی روانی، پنجاب کے سارے شہر ملکر بھی لاہور کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تقابلی جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ صحت عوام کا بنیادی حق ہے۔ اس سلسلہ میں متعلقہ محکمے بھی موجود ہیں اور ہسپتال بھی قائم، لیکن سہولیات صرف لاہور میں ہیں۔ تبھی تو دور دراز علاقوں سے لوگ یہاں آتے ہیں اور رش بڑھنے سے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں۔ 8 برس کے دوران لاہور کی آبادی 43 فیصد بڑھی، مسافر زیادہ ہوئے تو گاڑیاں بھی بڑھ گئیں، اس وقت روزانہ7 لاکھ 50 ہزار گاڑیاں لاہور میں آتی اور یہاں سے جاتی ہیں، جبکہ شہر میں 50 ہزار گاڑیاں بطور پبلک ٹرانسپورٹ بھی چل رہی ہیں۔ صوبہ بھر میں مجموعی طور پر ایک کروڑ 64 لاکھ 35 ہزار گاڑیاں رجسٹرڈ ہیں، جن میں سے ایک کروڑ 2 ہزار 335 کی رجسٹریشن لاہور میں ہے، سال 2016ء کے دوران صوبہ میں گاڑیوں کی رجسٹریشن کی تعداد ایک لاکھ 20 ہزار رہی، جن میں سے 96 ہزار 225 کے کاغذات لاہور سے بنے۔ ادھر صوبائی سول سیکرٹریٹ لاہور میں قائم چیف سیکرٹری سمیت اعلٰی ترین بیورو کریسی بیٹھتی ہے، وزراء بھی اپنے حلقوں کے بجائے یہیں پائے جاتے ہیں، چنانچہ جب مسائل رلاتے ہیں تو حل کیلئے مجبور لوگوں کو لاہور ہی آنا پڑتا ہے۔ شہر میں ترقی اور طرزِ زندگی کا یہ فرق ایسے ہی نہیں بلکہ تمام اضلاع کے بجٹ سے بھی زیادہ فنڈز کا ثمر ہے، کیونکہ حکومت کی نظر صرف لاہور پر ہی ہے۔ اس حوالے سے سابق سینیئر بیوروکریٹ اوریا مقبول جان عباسی نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے صرف لاہور کو ترجیح دی اور باقی 35 اضلاع کو فوکس ہی نہ کیا، یہی وجہ ہے کہ روزانہ لاکھوں لوگ یہاں آتے ہیں، جبکہ اربوں کھربوں خرچ کرنے کے باوجود صوبائی دارالحکومت ترقی یافتہ بننے کے بجائے دن بدن مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے اور یہاں پر جرائم و کرائم کی داستانوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

سابق ڈی جی شماریات شمیم رفیق کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایک شہر پر توجہ دینے کے بجائے باقی شہر بھی بسانے چاہئیں، ایک جگہ پر ہی ترقی ہونے کے باعث حالات خراب ہونگے، حکومت کو موجودہ پالیسی پر نظرثانی کرکے دیگر شہروں کو بھی ترجیح دینا ہوگی۔ سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے کہا ہے کہ تختِ لاہور کی پالیسی نے 35 اضلاع کو مزید محرومیوں میں مبتلا کر دیا ہے، ایک ہی شہر میں سب وسائل فراہم کرنے سے کئی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمود الرشید کا کہنا ہے کہ حکومت کی اس امتیازی پالیسی کو سختی سے مسترد کرتے ہیں، لاہور کے ساتھ دیگر اضلاع پر توجہ دینی چاہئے۔ پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ایک شہر کی ترقی سے دیگر شہروں میں احساس محرومی بڑھا اور اسکے بہت خطرناک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ترجمان تحریک انصاف نعیم الحق کہتے ہیں کہ حکومت جس طرح سے فنڈز کا استعمال کر رہی ہے، اس سے نظر آتا ہے کہ پورے پنجاب کی مشینری صرف لاہور کیلئے ہے، دیگر شہروں کو نظرانداز کرنا حکومتی نااہلی ہے۔ رکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے کہا ہے کہ ہمارے علاقہ میں کئی ترقیاتی سکیموں کے فنڈز بھی حکومت نے لاہور پر لگا دیئے، یہاں کے عوام مر رہے اور دھکے کھا رہے ہیں، لیکن کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، ہر کام کیلئے لاہور آنا پڑتا ہے اور جب ہر فرد ادھر ہی آئیگا تو پھر لاہور میں بھی کوئی کام وقت پر نہیں ہوگا۔ ادھر صوبائی وزیر اطلاعات میاں مجتبٰی شجاع الرحمن نے کہا ہے کہ لاہور ایک میگا سٹی ہے اور یہاں بڑی تیزی سے ترقی ہو رہی ہے، اسی لئے وسائل سمیت سب کچھ یہاں ہے، تاہم حکومت دوسرے شہروں پر بھی توجہ دے رہی ہے۔
خبر کا کوڈ : 600749
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش