0
Wednesday 30 Mar 2011 01:00

پادری ٹیری جونز اور انسانی قدروں کی شکست

پادری ٹیری جونز اور انسانی قدروں کی شکست
تحریر:ثاقب اکبر
 کیا آخر ایک جنونی جیت گیا اور انسان دوستی، باہمی احترام، رواداری اور برداشت کی تمام انسانی اقدار شکست کھا گئیں۔ کیا امریکی ریاست فلوریڈا کا جنونی اور متنازع پادری ٹیری جونز قرآن حکیم جیسی مقدس کتاب کو نذرآتش کر کے کامیاب ہو گیا۔ اس سوال کا ایک جواب امریکی حکومت اور اُس کی قانون پر عملداری کے تصور کو دینا ہے اور دوسرا جواب انسانی وجدان اور ضمیر کے ذمے ہے۔ پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ قرآن پاک کے نسخے جلانے کے حوالے سے ڈوورلڈآﺅٹ ایچ سنٹر کے ناپاک منصوبے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا تھا کہ یہ پابندی فائر آرڈیننس کے تحت لگائی گئی ہے اور اگر اس پابندی کے باوجود پادری باز نہ آیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ 
دیکھنا یہ ہے کہ امریکہ اس منحوس پادری کے خلاف کیا قانونی کارروائی کرتا ہے۔ فلوریڈا کا بدنام جنوبی پادری جس نے آزادی کے تصور کو بظاہر آزادی سے پامال کیا ہے، گذشتہ برس بھی اس وحشیانہ اقدام کا اعلان کرتا رہا ہے البتہ عالمی رائے عامہ کے دباﺅ سے وہ وقتی طور پر اس سے باز آگیا تھا لیکن آخر کار اس نے اپنے شوم ارادے پر عمل کر ڈالا۔ جب سے ٹیری جونز نے اپنے اس ارادے کا اعلان کیا، عالمی رہنما اسے اس کے عواقب سے آگاہ کرتے رہے ہیں اور اس ارادے کے منفی پہلوﺅں کی طرف متوجہ کرتے رہے ہیں اور اب بھی پوری دنیا میں اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسے اقدام کی اجازت نہیں دے سکتا۔ پاکستان نے سرکاری طور پر اس اقدام کی مذمت کی ہے۔ پاکستان کی سینٹ نے متفقہ طور پر اس کے خلاف قراردا مذمت منظور کی ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے نے اس کے خلاف باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ پاکستان کے وزیر داخلہ رحمان ملک کے بقول قرآن پاک کی توہین کرنے والا امریکی پادری دہشت گرد ہے۔ بھارت کے وزیراعظم من موہن پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ قرآن پاک کی بےحرمتی کے منصوبے کو نہ روکا گیا تو کوئی مذہب بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ برطانوی حکومت نے جنوری میں اس جنونی پادری کے برطانیہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ برطانوی حکومت ہر قسم کی انتہا پسندی کی مخالفت کرتی ہے اور ٹیری جونز کی برطانیہ آمد سے کمیونٹیز میں اشتعال پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
 پوپ بینڈکٹ پادری ٹیری جانز کے قرآن حکیم کے بارے میں نظریات کی مخالفت کر چکے ہیں۔پ وپ کے اس بیان کی عالم اسلام میں حمایت کی گئی۔ ایرانی صدر ڈاکٹر محمود احمدی نژاد نے باقاعدہ اس سلسلے میں پوپ کو شکریے کا ایک خط لکھا، جو ایران کے نائب صدر نے انھیں پہنچایا۔ ان سب کے علاوہ بھی مختلف چرچوں کے سربراہوں، قدیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ الازہر کے سربراہ، ایران کے روحانی پیشوا آیة اللہ خامنہ ای اور دیگر رہنماﺅں نے اس اشتعال انگیز اور افسوس ناک اقدام کی مذمت کی ہے۔ پاکستان اور دیگر کئی ایک ممالک میں اس الم انگیز سانحے کے خلاف وسیع پیمانے پر عوامی احتجاج بھی ہوا، جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ پادری ٹیری جونز کے اس ناپاک اقدام کی مخالفت میں جس طرح تمام ادیان و مذاہب کے لوگ ایک نظر آتے ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی ضمیر ابھی زندہ ہے اور یہ ردعمل اسی ضمیر کی زندگی کا اظہار ہے۔ البتہ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ مغرب میں پے در پے اسلام اور اس کے مظاہر کے خلاف اس طرح کے واقعات حالیہ برسوں میں کیوں زیادہ ہو گئے ہیں اور ان کا پس منظر کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو مغربی معاشرہ کہاں پہنچے گا۔
 ہماری رائے میں یہ بہت سنجیدہ سوال ہے جس کا جائزہ مغربی دانشوروں کو لینا چاہیے۔ اس صورت حال کو سمجھنے کے لیے برطانوی کابینہ کی پہلی مسلمان وزیر سعیدہ وارثی کا ایک حالیہ بیان ہماری مدد کر سکتا ہے۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے خلاف حقارت آمیز رویہ اور کٹر پن برطانوی معاشرے کا جزو بن چکا ہے، جس کا شراب خانوں اور رات کی دعوتوں میں کھلم کھلا اظہار ہو رہا ہے۔ سعیدہ وارثی جو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی کابینہ میں وزیر بے محکمہ اور پارلیمان کے ایوانِ بالا کی رُکن ہیں نے انگلینڈ کے ذرائع ابلاغ کے بارے میں کہا کہ وہ مسلمانوں پر معتدل یا انتہا پسند کا ٹھپہ لگاتا ہے اور اکثر و بیشتر برطانیہ کی 20 لاکھ کی مسلمان آبادی کے خلاف حقارت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سعیدہ وارثی نے اگرچہ برطانوی پس منظر میں یہ بات کہی ہے لیکن یہی صورتحال امریکہ اور دیگر بہت سے مغربی ممالک میں بھی ہے۔ 
9/11 کے بعد امریکہ کے حکمران طبقے کی قیادت میں مسلمانوں کے خلاف یہی فضا پورے مغرب میں پیدا کی گئی ہے۔ یہ فضا دراصل امریکہ کے جدید استعماری مقاصد اور جنگی ضروریات کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ 9/11 کے بعد امریکہ نے جس طرح دیگر ملکوں پر جنگیں مسلط کی ہیں اور اپنی فوجوں کو حرکت دی ہے اس کے لیے ضروری تھا کہ ایک جنگی جنون پیدا کیا جائے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ سویٹزرلینڈ جیسے پرامن ملک میں بھی مساجد کے میناروں کے خلاف پراپیگنڈا کر کے اُن پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جبکہ دنیا میں گرجوں، گرودواروں، مندروں اور دیگر عبادت خانوں کی عمارتوں میں خاص قسم کے مینار ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس طرح امریکہ نے ریکارڈ اسلحہ بیچا ہے اور اپنی طاقت کا ایک رعب دنیا کے بعض خطوں میں پیدا کر دیا ہے۔ افسوس برطانیہ اور بعض دیگر ممالک نے اس وحشی گری میں امریکہ کے حکمران طبقے کا ساتھ دیا ہے۔ 
ہمارا سوال اس صورت حال پر بہت سنجیدہ ہے اور وہ یہ کہ ایسی فضا آخر کار انسانیت کو کن المیوں سے دوچار کرے گی۔ یہ درست ہے کہ زبانی طور پر یا تحریری طور پر مشرق و مغرب کے بہت سے سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنماﺅں نے ٹیری جونز کی مخالفت کی ہے لیکن یہ امر بھی حقیقت ہے کہ آزادی  اظہار کے نام پر برطانیہ اور دیگر مغربی حکومتوں نے سلمان رشدی کی سرپرستی، رسولِ اسلام کے کارٹونوں کے سلسلے کی حمایت کی گئی، مسجدوں کی تعمیر پر طرح طرح کی قدغنیں عاید کرنا شروع کر دی گئیں اور مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اذیتیں دی گئیں اور ان سے حقارت آمیز سلوک کیا گیا، یہاں تک کہ اب ایک بظاہر مذہبی رہنما کو قرآن حکیم جیسی مقدس کتاب کو نذرآتش کرنے کا حوصلہ پیدا ہو گیا۔ اسی صورتحال نے ہمیں یہ سوال پوچھنے پر مجبور کیا ہے کہ کیا آخر ایک جنونی کامیاب ہو گیا اور انسان دوستی، باہمی احترام، رواداری اور برداشت کی تمام انسانی اقدار شکست کھا گئیں۔ انسانوں اور قوموں کی نفسیات کے ماہرین ہمارے اس سوال کا گہری نظر سے جائزہ لیں۔ انتہا پسندی کی یہ لہر مغربی معاشرے پر کیا اثرات مرتب کرے گی۔ ہماری رائے میں مغربی معاشرے کو بےخدا ظالمانہ سرمایہ داری نظام کے بے رحم شکنجوں سے آزاد کروانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو عذاب اور وحشت میں جھونک کر جو لوگ سرمایہ اکٹھا کرنے کے درپے ہیں۔ وہ اہل مشرق کے دوست ہیں نہ اہل مغرب کے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی پیدا کی گئی فضا کے نتیجے میں ٹیری جونز پیدا ہوتے ہیں اور سستی شہرت حاصل کرتے ہیں اور اُن کی شیطانی روح اس بات پر مطمئن ہو جاتی ہے۔ کہ
 ع  "بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا"


خبر کا کوڈ : 62141
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش