0
Saturday 9 Apr 2011 20:59

لیبیا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

لیبیا کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا
تحریر:ہما مرتضٰی 
لیبیا میں ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ 41 سال سے تختِ حکمرانی پر براجمان کرنل معمر قذافی کے لیے حالات اب اس موڑ پر آپہنچے ہیں جنھیں سنبھالنا ان کے لیے ممکن ہی نہیں رہا۔ وہ کبھی مغرب کو سنگین نتائج سے ڈرا رہے ہیں تو کبھی اقتدار چھوڑنے پر آمادگی کا اشارہ دے رہے ہیں۔ ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ معمر قذافی کے دو بیٹے ملک میں جاری بحران کے خاتمے کے لیے آئینی جمہوریت متعارف کروانے پر غور کر رہے ہیں۔ اس میں قذافی کی اقتدار سے علیحدگی بھی ممکن ہے۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے لیبیا کے اعلیٰ سفارتکار کے حوالے سے رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق کرنل قذافی آئینی جمہوریت کی خاطر دست بردار ہو جائیں گے، تاہم اس رپورٹ پر قذافی کے دستخط نہیں تھے۔ دوسری جانب معمر قذافی نے کہا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر جانے کے بجائے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ اتحادی ممالک کے حملے شروع ہونے کے بعد معمر قذافی پہلی مرتبہ عوام کے سامنے آئے۔ اپنے حامیوں سے 37 منٹ کے خطاب میں معمر قذافی نے جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا تھا، البتہ ان میں پہلے کا سا دم خم محسوس نہیں ہو رہا تھا اور اب کے انھوں نے گالی گلوچ سے بھی کام نہیں لیا۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق لیبیا کے عوام دو طرفہ مصیبت میں گھرے ہیں۔ فضا سے مغربی ممالک کے طیارے آگ برسا رہے ہیں تو زمین پر لیبیائی فوج اور مخالفین میں جھڑپیں جاری ہیں۔ امن کے نوبل انعام یافتہ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی لیبیا کے خلاف اپنی نئی جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ وائٹ ہاﺅس میں انتہائی سخت انداز میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے اعلان کیا کہ مشرق وسطیٰ میں درپیش چیلنجوں کے حوالے سے لیبیا مرکزی کردار کا حامل ہے لہٰذا اب موقع ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر اپنی صوابدید اور مفادات کے مطابق عمل کرکے قذافی کو اقتدار سے الگ کرنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال میں لایا جائے۔ برطانیہ، فرانس، اٹلی اور کینیڈا پر مشتمل اتحادی فضائیہ کی جانب سے بن غازی، تریپولی اور دیگر مقامات پر شدید بمباری کی جا رہی ہے۔ سینکڑوں بے گناہ شہریوں کو قتل اور سینکڑوں ٹوموہاک میزائل فائر کر کے لیبیا کے دفاعی اور عسکری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
لیبیا میں معمر قذافی نے بھی ہوائی حملوں اور فوجی کارروائیوں کے ذریعہ ہزاروں شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ اتحادیوں کی ہم آواز عرب لیگ کی اپیل پر اقوام متحدہ کے ذریعہ فضائی پابندی عائد کرنے کے اعلان کے بعد بھی معمر قذافی نے آخری مرحلے میں انقلابیوں کے خلاف فوجی کارروائی جاری رکھ کر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ دوسری طرف امریکہ کو بھی یہ یقین ہو چکا ہے کہ قذافی پورے لیبیا پر پھر سے حاکم نہیں ہو سکتا اور مخالفین آخری حد تک جنگ جاری رکھیں گے۔ یہ محسوس کرنے پر کہ عوامی انقلاب کامیاب ہو جائے گا امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذریعہ لیبیا کے خلاف فضائی پابندی عائد کروائی اور فوجی کارروائی کی قرارداد پاس کروائی تاکہ آنے والی تبدیلی کہیں اس کے مفادات کے خلاف نہ ہو۔ اس کے بعد نیٹو کے بعض اراکین کے ہمراہ قذافی کے فوجی ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی گئی تھی۔ امریکہ چاہتا ہے کہ نیٹو کو اس آپریشن کی قیادت سونپ دی جائے تاہم فرانس کا موقف رہا کہ ایسا کرنے سے عرب ممالک میں منفی تاثر پیدا ہو گا جبکہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ نیٹو کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے لیبیا پر فضائی یلغار نیٹو ارکان ہی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
نیٹو کا کہنا ہے کہ لیبیا میں آپریشن نوے دن میں مکمل کر لیا جائے گا۔ ترکی نے لیبیا میں نیٹو کے زمینی فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام خطرناک ہو سکتا ہے۔ ترک وزیراعظم رجب طیب اردگان نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر نیٹو لیبیا میں داخل ہوتا ہے تو اس کا مقصد لیبیا کے لیبین باشندوں کا ملک ہونے کی تصدیق ہونا چاہیے، وہاں کے زیرزمین وسائل کی بانٹ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے لیبین بھائیوں کے پاس اپنے لیے پرامن اور مضبوط مستقبل کی تعمیر کے لیے ہر طرح کے امکانات موجود ہیں اور لیبیا کے عوام کو یہ موقع ملنا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ امریکہ کا آپریشن قذافی کے بعد خود لیبیا پر قبضے کی شکل میں ختم ہو، لیبین عوام کو جلدازجلد فیصلہ کر لینا چاہیے کیونکہ امریکہ ایک تیر سے دو شکار حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس جنگ سے وہ ایسے نتائج حاصل کرنا چاہتا ہے جو بش عراق اور افغانستان میں حاصل نہ کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ طیب اردگان نے ساری صورت حال اور امریکی اقدام کی ماہیت بہت خوبصورتی سے بیان کر دی ہے۔ تیونس میں جب تحریک کا آغاز ہوا تو یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے اچانک تھا لیکن جوں جوں تحریک تیونس کی سرحدوں سے باہر نکلنے لگی امریکہ نے حالات کا جائزہ لے کرمنصوبہ بندی شروع کر دی۔ اس نے تمام علاقوں میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مختلف آپشنز کا انتخاب کیا۔ مصر میں اس نے آغاز ہی میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اگلے مرحلے میں قیادت فوج کے سپرد کر دی جائے گی۔ جب قاہرہ کے میدان التحریر میں عوام باہر نکلے تو مصری افواج کے چیف امریکہ میں تھے۔ انھیں وہاں روک کر معاملہ طے کر لیا گیا۔ تحریک کو چار روز گزر گئے تھے کہ وہ واپس پہنچے اور اور پھر رفتہ رفتہ فوج کے اقتدار کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔ سعودی عرب میں "گاجر اور چھڑی" فارمولا اختیار کیا گیا۔ شاہ عبداللہ جو علاج کے لیے باہر تھے انھوں نے واپس پہنچتے ہی شاہی تجوریوں کا کچھ منہ کھول کر عوام کو لالی پاپ دینے کا اعلان کیا اور جن علاقوں میں عوام باہر نکلے ان کے لیے چھڑی کا بے رحمی سے استعمال کیا۔ بحرین کا علاج سعودی قیادت میں خلیج تعاون کونسل کی فوج کے ذریعے ڈھونڈا گیا۔ جن ملکوں میں وہ خود سے تبدیلی چاہ رہا تھا اُن میں لیبیا اور شام سرفہرست ہیں۔ شام میں مخالفین کی پیٹھ تھپکنا شروع کی گئی۔ لیبیا کے لیے اُس نے جو منصوبہ بنایا اُس میں ایک مرحلے میں اپنے بعض نمائندوں کو"حکومت مخالف راہنما" کے طور پر نمایاں کرنا شروع کیا اورساتھ ہی"اقوام متحدہ" کو استعمال کرکے لیبیا کی فضا کو نوفلائی زون قرار دلوایا۔"نوفلائی زون" کا معنی ہے کہ لیبیا کی فضائیہ کے لیے نو فلائی زون اور امریکہ و اتحادیوں کے لیے " لَو فلائی زون"۔ امریکہ کی کوشش ہے کہ لیبیا میں آنے والی تبدیلی پوری طرح اس کی گرفت میں ہو۔ ہمیں ترک وزیراعظم کا بیان اسی پس منظر میں پڑھنا چاہیے۔ افسوس عرب لیگ اور او آئی سی بھی امریکی مفادات کی ترجمان ہیں۔ لیبیا کے عوام کی انھیں کوئی فکر نہیں جو دونوں طرف سے پس رہے ہیں۔ 41سال سے قابض  بوڑھا وحشی حکمران بھی انھیں بے دردی سے کچل رہا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی بھی آسمان سے آگ برسا رہے ہیں۔ دنیا میں انسانی حقوق کے دعویدار ٹک ٹک دیدم دم نکشیدم کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اتنی قربانیاں دینے والے لیبیائی عوام کس قدر بصیرت اور عزم کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 64177
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش