0
Friday 4 Mar 2011 16:28

عراق کا تجربہ لیبیا میں

عراق کا تجربہ لیبیا میں
تحریر:محمد علی نقوی
امریکی اور صیہونی حکومت کہ جو علاقے اور دنیا میں تمام مشکلات و مسائل کی جڑ ہیں، علاقے میں آنے والی تبدیلیوں کا پہلا ہدف سمجھے جاتے ہیں اور اس بات کو اسرائیلی حکام نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے۔ اس بنا پر علاقے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی مہم جوئی خارج از امکان نہیں ہے۔ کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل ایک مشکل صورت حال سے دوچار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے علاقے کی قوموں کو اپنے مداخلت پسندانہ اقدامات کا بہانہ قرار دیا ہے اور علاقے کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے میں ان کی دھوکے اور فریب پر مبنی پالیسیاں بھی ان کے مداخلت پسندانہ اقدامات کے لیے ایک مقدمے کی حیثیت رکھتی ہیں۔
 لیبیا میں مظاہرین کے قتل عام کے جاری رہنے اور اقتدار سے علیحدہ نہ ہونے پر قذافی کے اصرار کے بعد امریکہ نے لیبیا میں فوجی مداخلت کے لیے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے منگل کے روز امریکی ایوان نمائندگان کی بین الاقوامی تعلقات کمیٹی میں کہا ہے کہ واشنگٹن معمر قذافی کی حکومت کو احتجاجی مظاہرین پر حملے سے روکنے کے لیے ہر اقدام کرے گا۔ اس دوران میڈیا نے یہ خبر بھی دی ہے کہ امریکہ کے کم از کم دو جنگي بحری جہاز بحیرہ روم میں لیبیا کے ساحل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ امریکہ کے اس اقدام کی نیٹو نے بھی حمایت کی ہے۔
لیبیا سمیت مشرق وسطٰی میں حالیہ مہینوں میں رونما ہونے والی تبدیلیاں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ مغرب نے علاقے پر اپنے تسلط کو جاری رکھنے کے لیے اپنا طریقۂ کار تبدیل کر لیا ہے اور اس نے اب پیچیدہ پالیسیاں اختیار کر لی ہیں۔ چند ماہ قبل تک امریکہ اور یورپ آمرانہ حکومتوں کی حمایت کو اپنے مفادات کے حق میں قرار دیتے تھے اور زین العابدین بن علی، حسنی مبارک، معمر قذافی، علی عبداللہ صالح اور سعودی عرب، اردن اور بحرین کے بادشاہوں کی بےچون و چرا حمایت کرتے تھے۔ اس پالیسی کو عرب دنیا میں سخت غصے اور نفرت کا سامنا کرنا پڑا اور عوامی قیام اور تحریکوں کے ذریعے یکے بعد دیگرے مغرب کے پٹھو ڈکٹیٹروں کو اقتدار سے نیچے گھسیٹ لیے گئے۔
ان حالات میں مغرب نے ڈکٹیٹروں کی حمایت پر مبنی پالیسی کو ترک کر کے عوامی احتجاج کی حمایت کی پالیسی اپنا لی۔ 
تیونس اور مصر میں کوشش کی گئی کہ آمرانہ نظام کے سربراہ کو تبدیل کر کے گزشتہ سسٹم اپنی جگہ پر باقی رکھا جائے۔ اس پراجیکٹ پر تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ لیبیا میں بھی عمل کیا جا رہا ہے۔ چونکہ قذافی نے حسنی مبارک اور زین العابدین بن علی سے زیادہ سختی دکھائی ہے، اس لیے لیبیا میں سیاسی و اقتصادی مفادات کا تحفظ امریکہ کے فوجی اقدام سے مشروط کیا گيا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ یوگو سلاویہ اور عراق کا تجربہ لیبیا میں دہرایا جا رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ پٹھو ڈکٹیٹر انسانیت مخالف پالیسیاں اپنا کر جان بوجھ کر یا لاعلمی میں اغیار کے فوجی حملے یا قبضے کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ یوگو سلاویہ اور عراق میں بھی پہلے عام شہریوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے بہانے بفر زون اور نوفلائی زون بنائے گئے اور اس کے بعد ان ملکوں پر سیاسی کنٹرول حاصل کرنے کے مقصد سے فوجی کارروائیاں انجام دی گئيں۔
لیبیا اپنے تیل کے عظیم ذخائر اور یورپ کے جنوبی ساحلوں کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے انتہائی اہم پوزیشن کا حامل ہے اور اسی بنا پر امریکہ اور نیٹو، انسان دوستانہ مقاصد کی چھتری تلے ایک اور اسلامی اور عرب ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ جب کہ ڈکٹیٹروں کے خلاف کارروائی کے بہانے غیرملکی فوجی مداخلت پر اسلامی کانفرنس تنظیم اور عرب لیگ نے اعتراض کیا ہے۔ حتی لیبیا میں قذافی کے بہت سے مخالفین بھی اپنے ملک پر مغرب کی جارحیت کے مخالف ہیں۔ کیونکہ عراق کے تجربے نے انہیں بتایا ہے کہ غیرملکیوں کی مدد سے ڈکٹیٹروں کی سرنگونی مستقبل میں امن و استحکام کے قیام کے مترادف نہیں ہو گی۔ اس لیے رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے خبردار کیا ہےکہ خطے کے ممالک کے دانشمندوں اور اقوام کو چاہیۓ کہ وہ تسلط کے نظام کو خطے کی اقوام کی عظیم تحریکوں کو ہائی جیک کرنے اور ان تحریکوں کو ان کے راستے سے ہٹانے کا موقع نہ دیں۔
خبر کا کوڈ : 57396
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش