0
Wednesday 26 Jul 2017 00:47

جنوبی ایشیاء میں جارحانہ انداز اختیار کرتا چین (1)

جنوبی ایشیاء میں جارحانہ انداز اختیار کرتا چین (1)
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

انڈیا اور چین کے درمیان تعلقات ان دنوں شدید تلخیوں کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تقریباً چار ہزار کلومیٹر لمبی سرحد کے کئی مقامات پر دیرینہ تنازع ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ایک بار جنگ بھی ہوچکی ہے۔ سرحدی تنازع حل نہیں سکا۔ جنوبی ایشیا میں چین کے پاکستان کے ساتھ گہرے ہوتے تعلقات نے بھارت میں خطرے کی گھنٹی بجائی ہے، تاہم یہ تعلقات علاقائی استحکام کے تناظر میں بالکل بھی خطرناک نہیں ہیں۔ درحقیقت چین اس خطے میں بحرانی کیفیات کو کم کرنے میں سب سے بہترین پوزیشن رکھتا ہے، چونکہ اس کے بیک وقت پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور بھارت کے ساتھ گہرے معاشی روابط استوار ہیں۔ اصل میں چین نے خطے میں موجود معاشی مفادات کی وجہ سے محض پاکستان کو سپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ ایک متوازن پوزیشن اختیار کر لی ہے۔ پاک چین ابھرتے تعلقات نے بھارتی خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان خدشات میں خاطر خواہ اضافہ چین کے پاکستان کو آبی سکیورٹی کے لئے دو بحری جہاز دینے اور 2015ء میں دو (چینی ساختہ) جوہری آبدوزوں کے کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے کے بعد دیکھنے میں آیا۔ مزید برآں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے چینی صدر ژی جن پنگ کے ساتھ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر سے گزرنے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اسی طرح جیشِ محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر پر اقوامِ متحدہ سے پابندیاں لگوانے کی بھارتی کوششوں کو چین نے بعض تکنیکی بنیادوں پر روک (ویٹو) رکھا ہے۔

نتیجتاً اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خطے میں موجودہ تزویراتی کھیل میں جہاں چین پاکستان کی سکیورٹی میں اضافہ کر رہا ہے، وہیں وہ بھارت امریکہ دفاعی معاہدے سے بھی خائف نظر آتا ہے۔ تاہم چین کا علاقائی بحران میں کردار اچھی طرح سمجھا اور ماپا جا سکتا ہے۔ بھارت کی طرف سے ممکنہ سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر 1960ء کی دہائی میں چین کا پاکستان کی طرف قدرتی رجحان تھا۔ تاہم چین کی جنوبی ایشیائی پالیسی میں تبدیلی ڈنگ ژیاؤ پنگ دور میں ہوئی، جب انہوں نے داخلی و خارجی پالیسی کو عالمی باالخصوص سرمایہ دارانی نظام سے ہم آہنگ کیا۔ 1990ء کے عشرے میں معاشی مفادات کی وجہ سے چین نے کشمیر سے متعلق پاکستانی سپورٹ والے نظریئے میں تبدیلی لاتے ہوئے اسکو متوازن بنایا۔ بھارت میں ہونے والے پٹھانکوٹ اور اڑی حملوں کے بعد چین نے ایک بار پھر اپنی متوازن پالیسی کو استعمال کیا اور پاکستان کا مکمل حمائتی ہونے کے بجائے جنوبی ایشیا میں کشیدگی میں کمی پر زور دیا۔ بیجنگ نے پٹھانکوٹ پر حملے کی مذمت کی اور کہا کہ یہ حملہ پاک بھارت تعلقات کو سبوتاژ کرنے کے لئے قصداً کیا گیا ہے، جو اس سے پہلے بہتر ہو رہے تھے۔ پاک چین تعلقات میں ایک اور دلچسپ رجحان تب دیکھا گیا، جب پنجاب کے وزیرِاعلٰی کے دفتر سے یہ بیان جاری ہوا کہ چین نے کسی بھی بیرونی خطرے کی صورت میں پاکستان کی بھرپور حمائت کا یقین دلایا ہے اور چین پاکستان کی کشمیر پالیسی کو مکمل سپورٹ کرتا ہے۔ تاہم چین نے وضاحتی بیان میں ایسے کسی بھی بیان کی تردید کی اور اس بات کو دوہرایا کہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے، جسے بات چیت اور گفت و شنید سے حل کیا جا سکتا ہے۔ پس یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی حمائت کی علی الاعلان پالیسی کے بجائے چین نے زمینی حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے بیچ مذاکرات پر زور دیا۔

چین کی جانب سے پاک بھارت کشیدگی میں کمی لانے پر زور دینے کی بڑی وجہ معاشی مفادات ہیں۔ 52 ارب ڈالر کا سی پیک منصوبہ، چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ ہے، جسکا مقصد ایشیاء کو معاشی و تجارتی طور پر یورپ سے ملانا ہے۔ علاقائی کشیدگیاں سی پیک کے راستے میں فصیل کی مانند ہیں، چونکہ یہ خطے کے اُس استحکام کو متاثر کرتی ہیں، جو سرمایہ کاری اور تجارتی منافع کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔ سادہ لفطوں میں کہا جا سکتا ہے کہ پاک بھارت کشیدگی اس راہداری کے ممکنہ معاشی فوائد کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چین کے لئے سب سے ناگزیر چیز یہ ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کو ذمہ دار ریاست کی طرح رہنے اور مشترکہ مسائل کو گفت و شنید سے حل کرنے پر قائل کرے۔ جیسے پاکستان اور چین مستقبل کے معاشی فوائد سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں، ویسے ہی چین نے بھارت کے ساتھ بھی معاشی نوعیت کی شراکت داری کی ہے اور 2014ء میں چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بن کر ابھرا ہے۔ بھارت اور چین کی دو طرفہ تجارت 2000ء میں محض 3 بلین ڈالر تھی، جو 2014ء میں بڑھ کر 70 بلین ڈالر تک جا پہنچی۔ تزویراتی پالیسیوں میں اختلافات ہونے کے باوجود معاشی انضمام سے چین کا ہاتھ خطے میں دیگر ملکوں کی نسبت اوپر ہی رہتا ہے۔ جیسے جیسے سی پیک آگے بڑھ رہا ہے، چین بھی سفارتی کھیل انتہائی احتیاط سے کھیل رہا ہے اور اس نے بھارت کو یقین دہانی کروائی ہے کہ سی پیک منصوبہ اس کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی اس سے کشمیر کے معاملے پر چینی موقف میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ چین گلگت بلتستان کو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل کئے جانے کا خواہاں ہے۔ چین کے نقطہ نظر سے وہ کسی ایسے علاقے میں سرمایہ کاری سے گریز کرے گا، جو پاکستان اور بھارت کے بیچ پہلے سے ہی متنازع ہو۔ پاکستان کے لئے گلگت بلتستان کو قومی دھارے میں شامل کرنے کا مطلب اپنے روائتی پوائنٹ، یعنی گلگت بلتستان ایک متنازع علاقہ ہے، جسکا براہ راست تعلق کشمیر معاملے سے ہے، سے ہٹنا ہوگا۔ یہ چیز بھارت کو اپنے زیرِانتظام کشمیر کو بھی پاکستان جیسا قدم اٹھانے کی طرف لے جائے گا۔

مختصراً چین کا گلگت بلتستان سے متعلق سٹینڈ پاکستانی پالیسی سازوں کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ چینی سکیورٹی مسائل کو کیسے حل کرتے ہیں۔ سی پیک منصوبوں کے ابھرنے سے پاک بھارت تجارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور چین کی جنوبی ایشیائی پالیسی محض تزویراتی نقاط پر نہیں، بلکہ معاشی و تجارتی معاملات سے منسلک رہے گی۔ چین کا معاشی طور پر پاکستان اور بھارت کے ساتھ رابطہ چین کو خطے میں مصروف رکھے گا اور اسکی ترجیحات جنوبی ایشیاء میں کشیدگی میں کمی لانا اور مسائل کو حل کرنا ہونگی۔ کبھی کوئی گھمبیر ٹکراؤ نہیں ہوا، لیکن اب یہ صورتحال بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔ گذشتہ مہینے بھوٹان کے ڈوکلام خطے میں بھارتی فوجیوں نے چینی فوجیوں کو سڑک تعیمر کرنے سے روکا۔ بھوٹان کا یہ علاقہ فوجی اعتبار سے بھارت کے لئے بہت اہم ہے۔ اس خطے پر چین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ چین کا ردعمل توقع کے عین مطابق سخت تھا۔ چین کے فوجیوں نے سکم سکٹر میں بھارتی علاقے کے اندر داخل ہو کر فوج کے دو عارضی بنکر بلڈوزر سے تباہ کر دیئے۔ یہی نہیں ناتھو لا درے سے کیلاش ناتھ کی سالانہ مذہبی یاترا پر جانے والے بھارتی زائرین کو بھی یاترا کی اجازت نہیں دی گئی۔ چین کی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت اپنی غلطی کو سمجھے اور اسے صحیح کرے۔ دونوں ملکوں کے درمیان یہ کشیدگی ایک عرصے سے رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہے۔ گذشتہ اپریل میں انڈیا کی حکومت نے تبت کے جلاوطن روحانی رہنما دلائی لامہ کو سکم جانے کی کی اجازت دی تھی۔ وہ سکم کی حکومت کی دعوت پر وہاں گئے تھے۔ چین سکم کے بعض علاقوں پر دعویٰ کرتا ہے اور دلائی لامہ کو علیحدکی پسند قرار دیتا ہے۔ بیجنگ نے دلائی لامہ کے دورے پر شدیر ردعمل ظاہر کیا تھا۔

حالیہ برسوں میں چین نے سرحدی علاقوں میں بہترین سڑکیں اور ریلوے لائنیں تعمیر کی ہیں۔ انڈیا نے بھی کچھ عرصے سے چین کی سرحد کے نزدیک سڑکیں بنانی شروع کی ہیں۔ چینی سرحد کی نگرانی اور کسی ٹکراؤ سے نمٹنے کے لئے گذشتہ تین برس میں خصوصی طور پر تقریبآ ڈیڑھ لاکھ اضافی فوجی بھرتی کئے گئے ہیں۔ انڈیا اور چین کے درمیان تلخی اس وقت سے شروع ہوئی، جب چین نے نیوکلیئر سپلائی گروپ این ایس جی میں انڈیا کی شمولیت کی مخالفت کی۔ انڈیا پاکستان میں زیر تعیمر چین کے اقتصادی زون کی بھی مخالفت کر رہا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چین نے جو سڑک تعمیر کی، وہ ایسے خطوں سے گزرتی ہے، جن پر بھارت کا دعویٰ ہے۔ انڈیا نے بھی کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا اور صورت حال کا جائزہ لینے کے لئے بری فوج کے سربراہ کو سکم کے سرحدی علاقوں کے دورے پر بھیج دیا۔ انڈیا کا کہنا ہے کہ چین سے پانچ برس قبل ایک تحریری مفاہت ہوئی تھی، جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ انڈیا، چین اور بھوٹان تینوں ملکوں کی سہ رخی باؤنڈری کا تعین تینوں ملکوں کی صلاح و مشورے سے کیا جائے گا۔ اس خطے میں تعمیری سرگرمیاں شروع کرکے چین نے اس مفاہمت کی خلاف ورزی کی ہے۔ انڈیا کے وزیر دفاع ارون جیٹلی نے کہا کہ چین سرحدوں کی موجودہ صورت حال کو یکطرفہ بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نے ڈوکلام کے راستے تبت کے شہر لہاسہ اور بھارت کی سرحد پر ناتھو لا درے کو جوڑنے والی ایک سڑک بنا رکھی ہے۔

بیجنگ ڈوکلام کے راستے ریلوے لائن بھی بچھا رہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارتی فوجیوں نے تبت کی علاقائی خود مختاری کے دفاع کے لئے چینی فوجیوں کو کام کرنے سے براہ راست روکا ہو۔ کچھ دنوں پہلے بری فوج کے سربراہ سے منسوب ایک بیان سامنے آیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انڈین فوج ایک ساتھ اڑھائی محاذ کھولنے کے لئے تیار ہے۔ چین کے سلسلے میں انڈيا کے رویئے میں اب وہ نرم روی نہیں دکھائی دیتی، جو پانچ دس برس پہلے ہوا کرتی تھی۔ ایک طرف چین نے اپنے دعوؤں پر زور بڑھا دیا ہے تو دوسری جانب انڈیا کے رخ میں بھی سختی بڑھتی جا رہی ہے۔ انڈیا کے قوم پرست ٹی وی چینلز ریٹائرڈ جنرلوں کے ساتھے جنگی ہسٹیریا پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کئی سابقہ سفارتکاروں اور دانشوروں نے جارحانہ رویے اور جنگی ہسٹیریا کی نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے رویئے سے برسوں کی محنت سے حاصل کیا گیا امن تباہ ہو جائے گا۔ مودی ایک سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لئے ستمبر میں بیجنگ جانے والے ہیں، لیکن دونوں ملکوں نے جو موقف اختیار کیا ہے، اس سے کشیدگی ختم ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 656186
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش