0
Friday 28 Jul 2017 14:42

امریکہ اور برطانیہ مسلمانوں کیلئے غیر محفوظ ممالک بن گئے، ہیٹ کرائم میں اضافہ

امریکہ اور برطانیہ مسلمانوں کیلئے غیر محفوظ ممالک بن گئے، ہیٹ کرائم میں اضافہ
ابوفجر کی رپورٹ

ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ میں مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک کا رحجان خطرناک حد تک بڑ ھ گیا ہے جبکہ برطانیہ میں بھی تیزاب گردی سمیت ہیٹ کرائم بڑھنے سے مسلمان پریشانی کا شکار ہیں۔ پیو ریسرچ سنٹر کی جانب سے امریکہ میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق امریکی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کے آغاز میں ہی یعنی پہلے دو مہینوں میں انہیں تلخ تجربات کا سامنا کرنا پڑا جہاں ٹرمپ انتظامیہ نے مسلمانوں کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تھا تاہم اگر مسلمان شکایتی لہجہ اپناتے ہیں تو انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ امریکی شہریوں نے انفرادی طور پر ان کیساتھ ہر ممکنہ تعاون بھی کیا اور اس تعاون نے امریکی مسلمانوں میں امید کی کرن جگائی ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ مسلمانوں کو بھی امریکی معاشرے میں مکمل طور پر قبول کرلیا جائے گا۔

سروے کے مطابق امریکی مسلمانوں کی آبادی کا تین چوتھائی حصہ ایسا ہے جو ٹرمپ کو اپنا ’’دوست‘‘ نہیں سمجھتا یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ ٹرمپ انہیں اپنا نہیں سمجھتے۔ پیو محققین کے مشیر اور پرنسٹن یونیورسٹی پولیٹیکل سائنس داں امان جمال نے بتایا کہ اس وقت امریکی مسلمانوں میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ دیگر امریکی شہریوں نے انہیں سمجھنا شروع کر دیا ہے اور ان کیساتھ اظہار ہمدردی بھی کر رہے ہیں۔ پیو نے 2007ء سے امریکی مسلمانوں سے متعلق اپنی تیسری سروے رپورٹ جبکہ رواں سال 20 جنوری کو ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد اپنی پہلی سروے رپورٹ پیش کی ہے۔ ٹرمپ جنہوں نے دہشتگردی کے خاتمہ کیلئے 6 مسلم ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلہ پر امتناع سے اپنی مہم کا آغاز کیا تھا۔ 23 جنوری تا 2 مئی کے درمیان تقریباً 100 بالغ امریکی شہریوں کی بذریعہ لینڈ لائن اور سیل فون رائے طلب کی گئی جس کیلئے انگریزی، عربی، فارسی اور اْردو زبان کا استعمال کیا گیا۔ گزشتہ کچھ ماہ مسلمانوں کے سکول اور مساجد کو نشانہ بنانے کے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔

پیو سروے میں مسلمانوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ سال مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک کے واقعات میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی جس میں مسلمانوں پر اعتبار نہ کرنا، انہیں دھمکانا یا پھر انہیں غیرمہذب اور نازیبا ناموں سے پکارنا وغیرہ شامل ہے۔ جہاں تک مسلم خواتین کا سوال ہے تو ان کا کہنا ہے کہ سڑک پر چلنے والے کسی مسلمان مرد کی شناخت آسان نہیں ہوتی لیکن مسلم خواتین جو عام طور پر حجاب کا استعمال کرتی ہیں، انہیں فوری پہچان لیا جاتا ہے اور ان کیساتھ بدتمیزی کے واقعات بھی رونما ہوئے جہاں انہیں ’دہشتگرد‘ تک کہا گیا۔

ادھر برطانیہ میں بھی صورتحال کچھ ایسی ہی ہے۔ "اسلام ٹائمز" کے لندن میں خصوصی جائزے کے مطابق برطانیہ میں صورتحال امریکہ کے برعکس ہے، یہاں برطانوی حکومت تو مسلم کمیونٹی کیساتھ ہے جبکہ انگلش عوام میں نفرت پائی جاتی ہے۔ برطانیہ کے مختلف شہروں، جن میں لندن، مانچسٹر، برمنگھم قابل ذکر ہیں، میں تیزاب گردی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ جبکہ ہیٹ کرائم کی شرح میں بھی دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ برطانیہ میں مانچسٹر دھماکے، لندن حملے اور بورو مارکیٹ میں فائرنگ کے ہونیوالے تازہ واقعات کے بعد شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ میں متعصب گوروں کی تنظیم "انگلش ڈیفنس لیگ" اس حوالے سے پیش پیش ہے اور مقامی افراد میں مسلمانوں کیخلاف نفرت کو فروغ دینے میں مصروف ہے لیکن سکیورٹی اداروں نے آنکھیں موند رکھی ہیں اور ای ڈی ایل کیخلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جا رہی۔

اس حوالے سے جائزہ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم ٹریزامے کے دل میں مسلمانون کیلئے نرم گوشہ نہیں البتہ دیگر ارکان اسمبلی اور اپوزیشن لیڈر جیرمی کوربن مسلمانوں کے حامی ہیں۔ لندن میں بھی امریکہ کی ہی طرح مسلم خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، راہ چلتے ہوئے دھکا دے دیا جاتا ہے یا آوازیں کسی جاتی ہیں جن میں مغلضات بکے جاتے ہیں۔ لندن میں پولیس کی صورت حال یہ ہے کہ پولیس کسی بھی پیشگی حملے کو نہیں روکتی بلکہ مسلمانوں کو صرف یہ کہتی ہے کہ اگر کوئی آپ پر تشدد کرے یا آپ کو ہراساں کرے تو ہمیں اطلاع دیں ہم کارروائی کریں گے، لیکن تاحال کسی مقامی انگریز کیخلاف خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔ امریکہ اور برطانیہ میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ جاری ہے جو مزید بڑھتا جا رہا ہے۔ جس کے تدارک کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمان ان ممالک کی ترقی میں کردار ادا کرنے کے بجائے اپنے ممالک میں کاروبار کریں اور اپنی معشیت کو مستحکم کریں۔
خبر کا کوڈ : 656797
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش