2
0
Wednesday 6 Sep 2017 21:55

برکس سربراہی اجلاس کا اعلامیہ، پاکستان کیلئے پیغام

برکس سربراہی اجلاس کا اعلامیہ، پاکستان کیلئے پیغام
تحریر: عرفان علی

بالآخر چین کی رضامندی سے نویں برکس سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد کا تذکرہ بھی کر دیا گیا۔ چین کے شہر ژیامن میں ہونے والا نواں سربراہی اجلاس پاکستان سمیت دنیا بھر میں جس ایک وجہ سے توجہ کا مرکز بنا ہے، وہ اسکے اعلامیہ میں بعض گروہوں کی جانب سے پورے خطے میں تشدد کے ذمے دار ہیں۔ اس سربراہی کانفرنس کے 71 نکاتی اعلامیہ کا 48 واں نکتہ کہتا ہے کہ:We, in this regard, express concern on the security situation in the region and violence caused by the Taliban, ISIL/DAISH, Al-Qaida and its affiliates including Eastern Turkistan Islamic Movement, Islamic Movement of Uzbekistan, the Haqqani network, Lashkar-e-Taiba, Jaish-e-Mohammad, TTP and Hizb ut-Tahrir.اس خطے میں سکیورٹی کی صورتحال اور ان گروہوں کی جانب سے تشدد پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ برکس اعلامیہ کے مطابق طالبان، داعش اور القاعدہ تین گروہ اور ان سے ملحق گروہ۔ اب ان ملحقہ گروہوں میں نہ صرف ازبکستان کی اسلامی تحریک المعروف آئی ایم یو، چین کے ترکستانی مسلمانوں کی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ المعروف ای ٹی آئی ایم اور حزب التحریر کا نام لیا گیا ہے بلکہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ لشکر طیبہ کا موجودہ نام جماعت الدعوہ ہے اور اس کی قیادت حافظ محمد سعید کرتے ہیں اور اس پر اقوام متحدہ کی طرف سے بھی پابندی عائد ہے۔ جیش محمد مسعود اظہر کی جماعت ہے، یہ بھی پاکستان میں کالعدم تنظیم قرار دی جاچکی ہے جبکہ حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کا ہی ایک دھڑا سمجھا جاتا ہے، جس کے اصل سربراہ جلال الدین حقانی انتقال کرچکے ہیں۔ قابل ذکر نکتہ یہ ہے کہ مسعود اظہر کو افغانستان کی طالبان کے دور حکومت میں بعض ہائی جیکرز نے بھارتی مسافر بردار طیارہ اغوا کرکے سودے بازی کے نتیجے میں بھارتی قید سے رہائی دلوائی تھی اور وہ پاکستان کے علاقے بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ مسعود اظہر اور حافظ سعید کی تنظیموں کے نام شامل کرنے کا مقصد بھارت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا تھا، جبکہ مشرقی ترکستان اسلامی تحریک چین کے لئے درد سر ہے۔

وہ تنظیمیں جن کی قیادت پاکستانی ہے یا جن کی قیادت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان ہی میں محفوظ ٹھکانوں میں موجود ہیں، ان کے نام اس اعلامیہ میں آنے سے پاکستانیوں سمیت پوری دنیا بشمول چینیوں نے یہ سمجھا ہے کہ یہ نکتہ پاکستان کے خلاف ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس پر اپنا ردعمل دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان پاکستان اور اس کے جماعت الاحرار جیسے ساتھی گروہ سمیت بہت سے دہشت گرد گروہ افغانستان سمیت اس خطے میں موجود ہیں، جو پاکستان میں پرتشدد کارروائیوں کے ذمے دار ہیں۔ داعش، ای ٹی آئی ایم اور آئی ایم یو کی افغانستان کے ان علاقوں میں موجودگی جہاں حکومت کا کنٹرول نہیں ہے، یہ پورے خطے کے لئے خطرہ ہیں اور ان پر پاکستان کو بھی سخت تشویش ہے۔ بھارت کا نام لئے بغیر ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو انتہاپسندی اور عدم برداشت پر مبنی نظریات کے بڑھتے ہوئے رجحان پر بھی تشویش ہے کہ جس کے تحت اقلیتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ ترجمان نے افغان طالبان، حقانی نیٹ ورک، حزب التحریر اور جیش محمد کا نام ہی نہیں لیا۔ لیکن پاکستان میں اس اعلامیہ کو ٹرمپ کے موقف سے ہم آہنگ قرار دیا گیا ہے کہ انتہاپسند گروہوں کے معاملے میں ٹرمپ حکومت اور چین کے موقف میں یکسانیت ہے، جبکہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد خود حیرت کا شکار ہے کہ جس چین کے بارے میں پاکستانی حکمران کہتے تھے کہ اس چین سے ہماری دوستی شہد سے زیادہ میٹھی، سمندر سے زیادہ گہری اور ہمالیہ سے زیادہ اونچی ہے، اس چین نے بعض پاکستانی تنظیموں کے نام شامل کرکے کیا پیغام دیا ہے۔؟

اس پیغام کو صرف پاکستانیوں نے محسوس نہیں کیا ہے بلکہ چین کی ریاستی سرپرستی میں چلنے والے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ آف کنٹیمپرری انٹرنیشنل ریلیشنز کے ڈائریکٹر ہیو شیشنگ بھی فکرمند ہیں کہ حقانی نیٹ ورک کا نام کیوں لیا گیا ہے، جبکہ ان کے مطابق حقانی نیٹ ورک افغانستان میں کارروائیاں کرتا ہے اور وہاں نیٹو فورسز کو نشانہ بناتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کا حصہ ہے اور وہی اصل میں افغان طالبان کی قیادت کرتا ہے، جبکہ چین افغانستان میں امن و مفاہمت کے لئے کام کر رہا ہے تو اسے افغان طالبان سے بھی روابط رکھنا لازمی ہیں اور افغان دھڑوں میں مفاہمت کے لئے چین ایسے بیان کے ہوتے ہوئے کیسے کوئی کردار ادا کرسکے گا؟ وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف ٹرمپ کا بیان ہے اور دوسری طرف یہ اعلامیہ، اس سے تو پاکستان پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ ہیو شیشنگ نے کہا کہ اب آنے والے دنوں میں چینی حکام کا زیادہ تر وقت پاکستانی حکام کو وضاحتیں دینے میں گذرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین کو پاکستان سے مشاورت کرنا چاہئے تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ لشکر طیبہ اور جیش محمد کے ناموں کے شامل ہونے پر انہیں اعتراض نہیں ہے لیکن پاکستان میں تو لشکر جھنگوی جیسے گروہ بھی ہیں، جنہوں نے چینی باشندوں کو قتل کیا ہے، لیکن انکے نام شامل نہیں کئے گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ نکتہ چین کے لئے بہت مہنگا ثابت ہوگا، کیونکہ اس سے پاکستان کو اپ سیٹ کیا گیا ہے جبکہ یہ بھارت کی فتح کے مترادف ہے کہ اس نے اس کے لئے بہت کام کرکے یہ نکتہ شامل کروایا۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی اقوام متحدہ کی کوششوں کو چین نے ناکام بنایا ہے، لیکن اب شاید بھارت مزید ایسے ثبوت دے چکا ہے کہ مستقبل میں چین اقوام متحدہ کی ایسی کوششوں کی مخالفت نہیں کرے گا۔

برکس کے اس اعلامیہ میں موصل کی آزادی پر عراقی عوام کو مبارکباد دی گئی ہے۔ ایران نیوکلیئر ڈیل اور اس کے جامع مشترکہ منصوبہ عمل کی مکمل حمایت کی گئی ہے۔ امریکہ پر نام لئے بغیر تنقید کی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی چین اور روس نے اقوام متحدہ میں برکس کے رکن تین دیگر ممالک یعنی بھارت، برازیل اور جنوبی افریقہ کے زیادہ بڑے کردار کی حمایت کی ہے۔ اس کردار سے کیا مراد لی جائے، سوائے اس کے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں انہیں مستقل رکنیت دی جائے! معاملہ صرف دہشت گرد گروہوں کے نام کی اعلامیہ میں شمولیت کا نہیں ہے بلکہ خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ برکس کے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے بھارت چین کو مزید پاکستان مخالف اقدامات پر بھی راضی کرسکتا ہے۔ دونوں ملکوں کے اپنے تنازعات موجود ہونے کے باوجود بھارت نے برکس کے سربراہی اجلاس کو سارک سربراہی اجلاس کی طرح سبوتاژ نہیں کیا ہے، جبکہ پاکستان سے ناراضگی کی بناء پر بھارت نے پچھلے سال سارک سربراہی اجلاس میں عدم شرکت کا اعلان کرکے کانفرنس ہی نہیں ہونے دی۔ تکفیری دہشت گردوں پر اظہار تشویش پر مبنی یہ نکتہ محب وطن پاکستانیوں کے لئے تو ہرگز تشویش کا باعث نہیں ہے، لیکن ریاست کے بعض طاقتوروں کو پاکستان کو ذلیل کروانے کا جو شوق ہے، اس کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں چین بھی صرف اس ایک ایشو کی وجہ سے پاکستان سے تعلقات کو ہمالیہ سے نیچے، شہد سے زیادہ میٹھی کی بجائے شوگر کے مرض کی طرح کی ’’مٹھاس‘‘ اور سمندر جیسی گہرائی کی بجائے کہیں کیچڑ جیسی گندگی میں نہ ڈال دے۔ آہستہ آہستہ پاکستانی حکمرانوں کے اتحادی اور دوست حکمران پاکستان کے خلاف ہوتے جا رہے ہیں۔ اس صورتحال پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کی طرح چین بھی کہیں پاکستان سے ٹائم پاس تعلقات پر نہ اتر آئے۔ دو طرفہ باعزت اور برابری کی بنیاد پر تعلقات، پاکستانی عوام کا ایسا خواب ہے کہ حکمران طبقہ اسے شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام ہوتا جا رہا ہے۔

چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور یا سی پیک پر چینی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لئے ایک طرف امریکہ سے خطرات لاحق ہیں کہ وہ نیابتی جنگ شروع کرکے چینیوں کو نقصان پہنچا کر یہاں سے بھاگنے پر مجبور نہ کر دے تو دوسری طرف خود چینیوں کی بدلتی ہوئی سوچ بھی پاکستانیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ چین میں مقیم پاکستانی دوست چینی اسکالرز کی تشویش سے وقتاً فوقتاً ہمیں بھی آگاہ کرتے رہتے ہیں کہ چینی انتہاء پسندی و دہشت گردی کے ایشو پر بہت زیادہ سنجیدہ ہیں اور اس پر کسی سمجھوتے کے موڈ میں نہیں ہیں اور وہ پاکستانی دوستوں سے یہی پوچھتے نظر آتے ہیں کہ سی پیک میں چینی سرمایہ کاری تو محفوظ رہے گی ناں! بال پاکستانی ریاست کے طاقتوروں کے کورٹ میں ہے کہ ان گروہوں سے متعلق کوئی فیصلہ کرلیں یا پھر چین جیسے دوستوں سے دوری کو برداشت کریں۔ شام کے مسئلے پر بھی چین کی پالیسی، انتہاء پسند دہشت گردوں کی مخالفت پر مبنی ہے، شام میں چین کے شہری بھی ہیں، شاید عراق میں بھی ہوں، کیونکہ داعش میں چینی بھی شامل ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق اب بعض علاقوں کے مسلمان چینیوں کو پاسپورٹ جاری کرنے کے عمل کو بھی بہت سخت کر دیا گیا ہے۔ ای ٹی آئی ایم کے طالبان سے تعلقات تو سبھی کو معلوم تھے اور اب داعش سے تعلقات منظر عام پر آنے کے بعد چین اور زیادہ فکرمند ہے۔ ای ٹی آئی ایم کا لشکر جھنگوی سے اور لشکر جھنگوی کا جیش محمد سے تعلق ثابت کرنا کوئی زیادہ مشکل کام ویسے بھی نہیں ہے۔ اس لئے برکس کے ااعلامیہ کا مذکورہ نکتہ نمبر اڑتالیس نوشتہ دیوار ہے۔ کاش کہ اسے سمجھا جائے اور پاکستان کو ان گروہوں سے واقعی پاک کر دیا جائے کہ جس پر چین کو بھی تشویش ہونے لگی ہے، شاید اب کاسمیٹک قسم کے اقدامات سے کام نہ چلے۔
خبر کا کوڈ : 667013
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بٹ صاحب
Iran, Islamic Republic of
خدا قوت عرفان بھائی
ایک بار پھر علاقائی صورتحال پر روشنی ڈالی آپ نے۔۔ خدا کرے کہ پاکستان بھی ترقی پذیر ممالک کی صف سے نکل کر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوسکے۔۔ اگر پاکستانی حکمران ٹولہ ایسا چاہے۔۔
Pakistan
Insha Allah
May Allah Almighty bless this oppressed nation of Pakistan
ہماری پیشکش