0
Sunday 29 Oct 2017 20:23

سابق قطری وزیراعظم حمد بن جاسم کا انکشافات پر مبنی انٹرویو

سابق قطری وزیراعظم حمد بن جاسم کا انکشافات پر مبنی انٹرویو
تحریر: سید اسد عباس

قطر کے سابق وزیراعظم حمد بن جاسم نے 12 جون 2017ء کو ایک امریکی ٹی وی چینل چارلی روز کو ایک انٹرویو دیا، جس میں ان سے متعدد سوالات کئے گئے۔ بنیادی سوالات قطر پر لگائی جانے والی پابندیوں کے حوالے سے تھے۔ سابق قطری وزیراعظم نے جہاں اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا جواب دیا، وہیں ان کی گفتگو میں بہت سے اہم انکشافات بھی شامل تھے، جو اس وقت تک اقوام عالم سے چھپائے جا رہے تھے۔ قطر کے سابق وزیراعظم کی جانب سے ان باتوں کو قبول کرنا اور حقائق سے پردہ اٹھانا بہت اہم ہے۔ شام کی حکومت کے خلاف خلیجی ریاستوں اور امریکہ کا اتحاد اس انٹرویو کا اہم جزو تھا۔ اسی طرح اس انٹرویو میں انہوں نے طالبان کے ساتھ امریکی ایما پر مذاکرات، مصر میں اخوان کی حکومت کے خاتمے اور سیسی کی مدد کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے حماس سے رابطہ امریکہ کے کہنے پر کیا، جس کی مدد کا الزام آج ہم پر دھرا جا رہا ہے۔ قطر کے سابق وزیراعظم جو ان تمام امور میں ایک ذمہ دار کی حیثیت سے شریک رہے، کی جانب سے ان حقائق کے انکشاف کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دنیا میں مغرب اور ان کے خلیجی حواری کیا کھیل، کھیل رہے ہیں اور مشرق وسطٰی نیز دیگر اسلامی ممالک میں آنے والی تبدیلیوں اور انقلابات میں ان کا کس قدر حصہ ہوتا ہے۔

قطر کے سابق وزیراعظم حمد بن جاسم نے امریکی ٹی وی اینکر کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’شام کی جنگ یا انقلاب میں ہم سب نے غلطیاں کیں، بشمول آپ کے ملک کے۔ ہم شام میں دو عملی گروہوں کے تحت کام کر رہے تھے، ایک گروپ اردن میں کام کر رہا تھا اور ایک ترکی میں۔ پہلا گروہ اردن میں تشکیل پایا، جس میں سعودیہ، عرب امارات، قطر، اردن اور امریکہ کام کر رہے تھے اور ہم سب مل کر ایک ہی گروہ کی مدد کر رہے تھے۔ ترکی میں بھی ہم نے یہی کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہمیں اندازہ ہوا کہ (شام میں لڑنے والے) بعض گروہوں کا ایجنڈا کچھ اور ہے تو ہم نے ان کی مدد ترک کر دی۔ آپ کی حکومت نے بھی بعض گروہوں کی مدد کی، تاہم وقت کے ساتھ آپ نے وہ مدد ترک کر دی۔" ٹی وی اینکر کے سوال کے جواب میں سابق قطری وزیراعظم نے کہا کہ ’’ایران کے ساتھ اقتصادی روابط کی بات کی جائے، جو کہ بہت اہم ہیں، تو خلیج کی ریاستوں کے ایران کے ساتھ تعلقات کے تناسب سے قطر کا ایران سے اقتصادی تعلق ہزار فیصد میں سے فقط ایک فیصد تھا۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو نائن الیون کے بعد ہم شروع سے امریکہ کے اتحادی رہے۔ جب اسامہ بن لادن نے کہا کہ کسی اسلامی ملک میں غیر ملکی افواج نہیں ہونی چاہیں اور سعودیہ سے امریکی افواج نکلیں تو ایک رات میں ہم نے امریکہ کی افواج کو اپنے ملک میں جگہ دی۔ ہم نے ہر قسم کی تنقید کو برداشت کیا۔ اس سے قبل امریکہ کا سب سے بڑا بیس ہمارے ملک میں موجود تھا۔ اس وقت سے ہم امریکہ کے ساتھی تھے۔ ہم نے افغانستان میں، عراق اور یمن میں آپ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، اپنے وسائل کو استعمال کیا۔ اچانک ہمیں کہا جا رہا ہے کہ آپ دہشت گردوں کی مدد کر رہے ہیں، کون سے دہشت گردوں کی ہم مدد کر رہے ہیں۔؟"

قطری وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے مصر میں اخوان کی منتخب حکومت کا خاتمہ کرنے والے جنرل سیسی کی حکومت کو مدد کی، ہم نے تیونس میں اسلامی حکومت کے خاتمے کے باجود نئی حکومت کی مدد کی، بلکہ تیونس کو ملنے والی سب سے بڑی امداد قطر کی جانب سے دی جا رہی ہے۔ انہوں نے یہ باتیں اخوان سے اپنے تعلقات کا جواب دیتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان ممالک میں ہمیشہ اخوان کی نہیں بلکہ استحکام کی مدد کی ہے۔ ان کے مطابق ایران خطے میں اس استحکام کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس کے حوالے سے میرا ان سے اختلاف ہے۔ حماس سے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے قطری وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے حماس اور غزہ کے لوگوں سے تعلقات واضح ہیں، نہ صرف قطر، خلیج کے دیگر ممالک بھی غزہ کے لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین میں منعقد ہونے والے پہلے انتخابات میں امریکیوں نے ہم سے کہا کہ ہم حماس سے بات کریں، انہیں الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کریں اور ہماری استدعا پر حماس نے انتخابات میں حصہ لیا۔ طالبان کے پانچ افراد جو امریکہ نے ہمیں دیئے اور جو لوگ افغانستان میں طالبان کے ساتھ گفت و شنید کرتے ہیں، وہ افراد بھی ہم نے امریکیوں کی درخواست پر یہاں رکھے تھے۔ اگر آپ لوگ انہیں واپس لینا چاہتے ہیں یا کہیں اور رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔

25 اکتوبر 2017ء کو ایک مرتبہ پھر حمد بن جاسم قطری ٹی وی پر ظاہر ہوئے اور انہوں نے اپنے ملک پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا۔ ان کا یہ انٹرویو عرب دنیا میں بہت وائرل ہوچکا ہے، اس انٹرویو میں انہوں نے شام جنگ میں ترکی، قطر، اردن، سعودیہ، عرب امارت، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے کردار کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر حقائق کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ روز اول سے مذکورہ بالا ممالک نے جبھۃ النصرہ جو القاعدہ کی ہی ایک شاخ ہے، کو اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس آپریشن کا نام Hunting Prey تھا، جس میں شکار بشار الاسد تھا۔ حمد بن جاسم نے کہا کہ 2011ء میں، میں سعودیہ گیا اور اس وقت کے شاہ عبداللہ سے ملا، انہوں نے مجھے کہا کہ آپ شام کے اس مشن کو چلائیں، اس کے انچارج بنیں، اس حوالے سے ہمارے پاس دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ تاہم جو کچھ بھی اردن اور ترکی کے راستے شام میں گیا، وہ ہماری جانب سے گیا۔ دیگر بھی بہت سے ایسے شواہد سامنے آچکے ہیں، جو سابق قطری وزیراعظم حمد بن جاسم کی بات کی تائید کرتے ہیں، جن میں این ایس اے کی خفیہ دستاویزات بھی شامل ہیں، جو حال ہی میں منظر عام پر آئیں۔ ان اعترافات کے بعد شک نہیں رہ جاتا کہ مشرق وسطٰی میں ہونے والی خانہ جنگیوں میں امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادی کیسی گھناونی سازشیں بن رہے ہیں۔ قطر اور ترکی کو ان سازشوں کا احساس ہوگیا ہے اور انہوں نے اپنے گذشتہ کاموں سے توبہ بھی کر لی ہے، جس کے لئے یقیناً انہیں قربانی بھی دینی پڑی، تاہم سوچنا تو یہ ہے کہ آخر کب تک یہ شیوخ خود بھی بدھو بنیں گے اور ہمارے نوجوانوں نیز حکمرانوں کو بدھو بناتے رہیں گے۔ کب تک وہ ان کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھیلیں گے۔ یمن کے خلاف جنگ، دہشت گردی کے خلاف اتحاد کی اب کیا حیثیت اور حقیقت رہ جاتی ہے، جب ایک اتحادی ملک اور اس کا وہ شخص جو اس سب کا ذمہ دار تھا کہہ رہا ہے کہ ہم ہی اسلحہ مہیا کر رہے تھے تو دہشتگردی کے خلاف یہ اکتالیس ممالک کے اکٹھ کا ڈرامہ آخر کس لئے اور ہمارے سابق آرمی چیف کس مقدس مشن پر اپنا وطن عزیز چھوڑ کر وہاں جا بیٹھے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 680119
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش