0
Thursday 2 Nov 2017 17:34

حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد اور لشکر جھنگوی سمیت 20 دہشتگرد تنظیموں کی فہرست پاکستان کے حوالے

حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد اور لشکر جھنگوی سمیت  20 دہشتگرد تنظیموں کی فہرست پاکستان کے حوالے
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء کیلئے بنائی گئی نئی پالسیی کی روشنی میں وائٹ ہاؤس نے 20 دہشت گرد تنظیموں کی فہرست مرتب کرکے پاکستان کے حوالے کر دی ہے، جن کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ تنظیمیں پاکستان اور افغانستان سے اپنی دہشت گرد کارروائیاں کرتی ہیں۔ سفارتی ذرائع نے تردید کی کہ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے اپنے دورہ اسلام آباد کے دوران پاکستانی قیادت کو 75 دہشت گردوں کی کوئی فہرست نہیں دی۔ امریکہ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ نے سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی یا (غیر ملکی تعلقات کی کمیٹی) کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ پاکستانیوں نے اشارہ دیا ہے کہ اگر ہم انہیں دہشت گردوں کی معلومات فراہم کریں تو وہ ان کے خلاف کارروائی کے لئے تیار ہیں، لہٰذا ہم تجربہ کے طور پر مخصوص خفیہ معلومات فراہم کرکے انہیں ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں۔ ایک علیحدہ بریفنگ کے دوران ریکس ٹلرسن کا کہنا تھا کہ امریکہ اور پاکستان دہشت گردوں کی معلومات کے تبادلے کے حوالے سے رابطے میں ہیں، جس کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیغام کو واضح کرنا ہے کہ پاکستان کو حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف کارروائی کرنی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ جو معلومات امریکہ نے پاکستان کو فراہم کی ہیں، وہ انفرادی ناموں سے آگے ہیں، جبکہ امریکہ بھی پاکستان سے اسی طرح کی معلومات چاہتا ہے جو دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لئے فائدہ مند ہوں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مستقبل میں دہشت گردوں کے معلومات کی فراہمی ان کی موجودگی سے بھی زیادہ آگے کی ہوں گی۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ فہرست کے مطابق ان تنظیموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جن میں سے ایک افغانستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث، دوسرے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث اور تیسرے وہ ہیں جن کی توجہ کشمیر پر مرکوز ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے تیار کردہ فہرست میں صف اول حقانی نیٹ ورک ہے، جس کے حوالے سے امریکہ الزام عائد کرتا ہے کہ اس گروپ کی پاکستان میں مبینہ محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں، جہاں سے وہ افغانستان میں اتحادی افواج کو نشانہ بنانے اور افغانستان میں دہشت گردی کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان نے متعدد مرتبہ امریکہ کے ان الزامات کی تردید کی ہے اور واضح کیا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ان کی سرزمین پر کوئی ٹھکانے موجود نہیں ہیں۔

امریکی فہرست میں جن تنظیموں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں حقانی نیٹ ورک، حرکت الجماہدین، جیشِ محمد، تحریک طالبان پاکستان، جنداللہ، لشکرِ طیبہ، لشکرِ جھنگوی، حرکت الجہادِ اسلامی، جماعت الاحرار، جماعت الدعوۃ القرآن، طارق گدر گروپ، اسلامی انقلابی گارڈ گروپ، کمانڈر نظیر گروپ، بھارتی مجاہدین، اسلامی جہاد یونین، اسلامی موومنٹ ازبکستان، داعش خراساں گروپ، القاعدہ برِصغیر اور ترکستان اسلامک پارٹی موومنٹ شامل ہیں۔ حرکت المجاہدین کے حوالے سے امریکہ کہتا تھا کہ اس گروپ کا اسامہ بن لادن اور عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے رابطہ تھا، جو کشمیر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ کے مطابق حافظ سعید کی جماعت لشکرِ طیبہ اس وقت برِصغیر کی سب سے بڑی، فعال اور منظم جماعت ہے، جو مبینہ طور پر 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر حملے اور 2008ء میں ممبئی میں دہشت گردی کے واقعے کی ذمہ دار ہے۔ لشکرِ جھنگوی کے بارے میں امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ دہشت گرد گروپ پاکستان میں فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث ہے، جس میں زیادہ تر شیعہ برادری کے افراد مارے گئے۔

تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بارے میں امریکہ کا کہنا تھا کہ یہ گروپ اپنے سائے تلے خطے میں موجود دیگر دہشت گرد گروپوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے، جو پہلے پاکستان میں موجود تھا، تاہم اب یہ افغانستان منتقل ہوگیا ہے، جبکہ امریکہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنی مرضی سے اس خطے میں جبراً شریعت نافذ کرنا چاہتی ہے اور امریکہ اور اتحادی افواج کے خلاف لڑنے کے لئے دیگر دہشت گرد گروپوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہی ہے، جبکہ پاکستان کا دیرینہ موقف ہے کہ افغانستان میں موجود کالعدم دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ جماعت الاحرار افغانستان کی محفوظ پناہ گاہوں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ متعدد بار مطالبہ کرنے کے باوجود افغان حکومت نے دہشت گرد تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ امریکہ کی طرف سے بھارت اور افغانستان کیساتھ مل کر پاکستان کیخلاف دباؤ بڑھایا جا رہا ہے، لیکن ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردی کی حالیہ لہر میں افغانستان سے آنے والے دہشت گردوں اور وہاں موجود ان کی قیادت کے ملوث قرار دیا ہے۔

جیسا کہ سال کے شروع میں افغان سفارت خانے کے حکام کو جی ایچ کیو طلب کرکے انہیں 76 دہشت گردوں کی فہرست دی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ یا تو ان دہشت گردوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے یا پھر انہیں پاکستان کے حوالے کر دیا جائے۔ پاکستان ہر عالمی فورم پر اس کا اظہار کرچکا ہے کہ ہمیں اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیم جماعت الاحرار کی کارروائیوں پر تشویش ہے، جو کہ افغانستان میں موجود اپنی پناہ گاہوں سے آپریٹ کر رہی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی خبردار کرچکے ہیں کہ دہشت گرد ایک بار پھر افغانستان میں منظم ہو رہے ہیں اور وہاں سے پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جس وجہ سے پاک افغان سرحد پر طورخم گیٹ کو بھی سکیورٹی وجوہات کی بناء پر غیر معینہ مدت کیلئے بند کر دیا گیا، اسی طرح پاکستان کے مختلف علاقوں میں دھماکے ہوچکے ہیں، جن میں لاہور، پشاور، سیہون، آواران اور فاٹا شامل ہیں، ان حملوں کے نتیجے میں درجنوں افراد جاں بحق اور زخمی ہوچکے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ٹرمپ کی جنوبی ایشیاء کیلئے نئی حکمت عملی کو محور قرار دیا گیا ہے، لیکن پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی میں ملوث ان تنظیموں کا ذکر نہیں، جنہیں بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے اور نہ ہی کشمیر میں بھارتی مظالم پر بات کی جا رہی ہے۔ اس کا مطلب صاف طور پر واضح ہے کہ ایسی پالسیی کا مقصد صرف پاکستان کو سی پیک سمیت خطے میں موجود طاقتوں کیساتھ تعلقات پر نظرثانی پر مجبور کرنا ہے، جو پاکستان کیلئے کسی طور پر قابل قبول نہیں۔
خبر کا کوڈ : 680910
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش