0
Saturday 16 Dec 2017 17:32

سانحہ آرمی پبلک سکول کسی قیامت سے کم نہیں!

سانحہ آرمی پبلک سکول کسی قیامت سے کم نہیں!
رپورٹ: ایس علی حیدر

16 دسمبر 2014ء صبح 10 بجے پاکستان پر قیامت صغریٰ گزر گئی۔ آرمی پبلک سکول پشاور میں دشمن کی طرف سے خون کی ہولی کھیلی گئی اور مادر علمی کو معصوم بچوں کے خون سے نہلا دیا گیا۔ 7 مسلح دہشت گرد سکول کی بیرونی دیوار سے سکول کے اندر داخل ہوئے اور مرکزی ہال میں پہنچے، جہاں نویں اور دسویں کلاس کے بچوں کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جا رہی تھی۔ سفاک دہشت گردوں نے معصوم طلباء پر اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ مرکزی ہال میں نویں اور دسویں کلاس کے بچوں کو نشانہ بنانے کے بعد ان درندوں نے کلاس رومز کا رخ کیا اور مختلف کلاس رومز میں جا کر طلباء و طالبات پر گولیاں برسائیں۔ جملے کے چند منٹ بعد ہی پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کی کوئیک رسپانس یونٹ آرمی پبلک سکول پہنچ گئی اور دہشت گردوں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچایا۔ ایس ایس جی کمانڈوز نے 6 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا اور ایک نے خود کو دھماکہ سے اڑا لیا۔ تاہم اس وقت تک ملک و ملت پر سوگ طاری کرنے اور قوم کو ایک نیا ولولہ اور جوش دینے کیلئے کافی نقصان پہنچایا جا چکا تھا۔ حملہ کے نتیجے میں 132 معصوم بچوں، 9 اساتذہ اور 3 فوجی اہلکاروں سمیت 144 افراد شہید اور 113 زخمی ہوئے۔ شہید ہونے والے بچوں کی عمریں 9 سے 18 سال کے درمیاں تھیں۔

یہ ایک ناقابل تلافی نقصان تھا اور ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور ہولناک دہشت گردی کا واقعہ تھا۔ اس حادثے کی خبر ملک بھر میں جنگل کی آگی کی طرح پھیل گئی اور پورا ملک سکتہ میں آگیا۔ اس اندوہناک کارروائی کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی۔ ٹی ٹی پی کے جن کارندوں نے اے پی ایس کے معصوم بچوں کو شہید کیا، ان کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ ابو شامل، اسے عبدالرحمٰن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک چیچن جنگجو تھا، جس کے متعلق خیال تھا کہ ون ان کا سرغنہ تھا۔ نعمان شاہ ہلمند، یہ ایک افغانی تھا، جو صوبہ ہلمند سے تعلق رکھتا تھا، امریکی حکومت نے اس پر 5 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ وسیم عالم ہرات، یہ ایک افغانی جو ہرات سے تھا۔ خطیب الزبیدی، عربی بولنے والا، جو مصری شہری تھا، محمد زاہدی عربی بولنے والا جو مراکشی شہری تھا۔ جبران السعیدی، ایک عرب جس کی شہریت نامعلوم ہے۔ ان تمام درندوں کو پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز نے حملہ کے دوران ہی جہنم واصل کر دیا تھا۔ سم کارڈ جو اس کارروائی میں استعمال کیا گیا، وہ دیہی علاقے حاصل پور، پنجاب کی ایک خاتون کے نام پر تھا۔ اس واقعہ میں ملوث دیگر سہولت کاروں کو بھی دسمبر 2015ء میں پھانسی دی جاچکی ہے۔

آرمی پبلک سکول پشاور کا حملہ ملکی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے ایک ٹرننگ پوائنٹ سمجھا جاتا ہے اور یہ بات بالکل درست ہے۔ ماں کی اجڑی گودوں سے نکلنے والی صدا اور فریادوں نے قوم کو ایک نیا ولولہ اور ایک نئی ہمت دی۔ ننھے بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ تو دیا لیکن وہ سیاسی، فرقہ، نسلی اور لسانی بنیادوں پر بکھری ہوئی قوم کو کچھ عرصہ لئے متحد کر گئے۔ سیاست دان بھی وقتی طور پر اپنے سیاسی مفاد ترک کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ پاک فوج نے اس سانحہ کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن لائحہ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور دہشت گردوں کی لعنت کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہت سے انقلابی اور ناگزیر اقدامات اٹھائے گئے، جن میں سرفہرست فوجی عدالتوں کا قیام اور ملک میں سزائے موت کی سزا کی بحالی تھی۔ اس مقصد کیلئے آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی، مختلف ناموں سے کام کرنے والے مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ قومی ادارہ برائے انسداد دہشت گردی کو فعال بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ نفرت انگیز تقاریر اور مواد شائع کرنے پر پابندی عائد کی گئی۔ دہشت گرد تنظیموں کے فنڈنگ کے ذرائع روکنے کیلئے خاطر خواہ اقدامات کئے گئے۔ شناختی کارڈز اور موبائل سموں کی نئے سرے سے بائیو میٹرک تصدیق کی گئی۔ ملک بھر میں بہت سی جعلی این جی اوز کام کر رہی تھیں، جو ایک طرف تو ملک سے پیسہ بٹور رہی تھیں اور دوسری طرف دہشت گردوں کو مالی و تکنیکی معاونت فراہم کر رہی تھیں۔

پاک فوج کے ریٹائرڈ سپہ سالار راحیل شریف نے دشمن کی ان شاطر چالوں کو سمجھتے ہوئے این جی اوز کی کڑی نگرانی کی اور دہشت گردوں کے ساتھ ان کا گٹھ جوڑ توڑنے میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں تیز کی گئیں اور ضرب عضب کے تحت بھاگنے والے دہشت گردوں کو چن چن کر مارا گیا۔ سب سے اہم مسئلہ جس کیوجہ سے دہشت گردی کنٹرول نہیں ہو رہی تھی، وہ پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کا نہ ہونا تھا۔ پاکستان نے بارہا افغانستان کے ساتھ بارڈر منجمنٹ کے مسئلہ پر گفت و شنید کی ہے، لیکن افغانستان بھارت کہ شہہ پر پاکستان کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ جنرل راحیل نے پاکستان کی طرف سے افغانستان سے آمدو رفت کنٹرول کرنے کا یکطرفہ انتظام کر دیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوئی بھی افغانی پاکستان میں بغیر سفری دستاویزات داخل نہیں ہوسکتا۔ نیشنل ایکشن پلان کا اگر جائزہ لیا جائے تو کڑے حقائق سامنے آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر صحیح معنوں میں عمل ہوا ہی نہیں، یا پھر یوں کہہ لیں کہ سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد ہونے نہیں دیا۔ اس پلان کی کچھ شقیں تو صرف فیصلہ کی حد تک محدود رہیں۔ انہی ناکامیوں کیوجہ سے دہشت گردی کی لعنت اب بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے اور وقفے وقفے سے ہمیں اس کا احساس ہوتا رہتا ہے۔ دشمن کی خفیہ ایجنسیاں اب بھی ارض پاک میں متحرک ہیں اور پینترے بدل بدل کر وار کر رہی ہیں۔ ملک کے اندر مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اندر اب بھی مسلح گروہ موجود اور فعال ہیں۔

این جی اوز کی آڑ میں اب بھی دہشت گردی کی سرپرستی کی جا رہی ہے۔ جعلی شناحتی کارڈز اور موبائل سموں کا دھندا اب بھی جاری ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں اب بھی کسی نہ کسی طرح چندہ اکٹھا کر رہی ہیں۔ اگر ہمیں محفوظ رہنا ہے تو نیشنل ایکشن پلان پر مکمل اور بلاتفریق عمل کرنا ہوگا۔ ان تمام عناصر کو شکست دینا ہوگی جو پُرامن اور خوشحال پاکستان کے دشمن ہیں۔ ماں کی اجڑی گودوں سے نکلنے والی صدا اور فریادوں نے قوم کو ایک نیا ولولہ اور ایک نئی ہمت دی۔ ننھے بچوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ تو دیا، لیکن وہ سیاسی، فرقی، نسلی اور لسانی بنیادوں پر بکھری ہوئی قوم کو کچھ عرصہ لئے متحد کرگئے۔ سیاستدان بھی وقتی طور پر اپنے سیاسی مفاد ترک کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ پاک فوج نے اس سانحہ کیبعد دہشتگردوں کیخلاف فیصلہ کن لائحہ عمل اپنانے کا فیصلہ کیا۔ سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور دہشتگردوں کی لعنت کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے نیشنل ایکشن پلان وجود میں آیا۔ اس نیشنل ایکشن پلان کو تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت بہت سے انقلابی اور ناگزیر اقدامات اٹھائے گئے، جن میں سر فہرست فوجی عدالتوں کا قیام اور ملک میں سزائے موت کی سزا کی بحالی تھی۔
خبر کا کوڈ : 690393
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش