0
Thursday 29 Mar 2018 10:15

پشتون تحفظ تحریک انڈیا، اسرائیل اور افغانستان کی زبان بول رہی ہے

پشتون تحفظ تحریک انڈیا، اسرائیل اور افغانستان کی زبان بول رہی ہے
رپورٹ: ایس علی حیدر

پشتون تحفظ موومنٹ اور ریٹائرڈ فوجی آفیسرز کے درمیان الفاظ کی جنگ چھڑ گئی ہے۔ ریٹائرڈ آرمی بیوروکریٹس کا موقف ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، جس میں سپاہی سے لیکر میجر جنرل تک کے افسران شہید ہوئے۔ اس کے مقابلے میں بھی شہریوں نے جام شہادت نوش کیا مگر اس کے باوجود پشتون تحفظ موومنٹ پختونوں کے حقوق کے نام پر دشمن کی زبان پولنے لگی ہے۔ موومنٹ کے جلسوں میں فوج اور انٹیلی جینس اداروں کے خلاف زہر اگلا جا رہا ہے۔ جو زبان انڈیا، اسرائیل اور انڈیا کا غلام ملک افغانستان استعمال کر رہے ہیں، وہی زبان پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتون اور ان کے ساتھی استعمال کر رہے ہیں۔ سابق ہوم سیکرٹری خیبر پختونخوا، سابقہ سیکرٹری لاء اینڈ آرڈر، فاٹا سیکرٹریٹ اور پاک فوج سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر محمود شاہ، پشتون تحفظ موومنٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر خاموش نہ رہ سکے اور سوشل میڈیا پر موومنٹ کے خلاف صفا آراء ہوگئے۔ بریگیڈیئر (ر) محمود شاہ کا تعلق مردان سے ہے۔ ان کا ایک بیٹا بلال پاک فوج میں لیفٹننٹ کرنل ہے اور وہ خود بھی فوج سے ریٹائرڈ بریگیڈیئر ہیں۔

محمود شاہ کا موقف ہے کہ منظور پشتون کا تعلق محسود قبیلے سے ہے، وہ گومل یونیورسٹی ڈی آئی خان میں طالب علمی کے زمانے میں طلباء کے حقوق کے نام پر متحرک نظر آتے تھے۔ معصوم چہرے کا حامل سیاسی شعور رکھنے والا نوجوان جب پشتون تحفظ موومنٹ کے نام پر تحریک چلانے کا اعلان کرتا ہے تو ان کو قبائلی نوجوانوں کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملتی ہے، مگر جب وہی نوجوان منظور پشتون کے نام سے عوامی اجتماعات میں پاکستان کے اضلی دشمن بھارت کی زبان بولتے ہوئے پاکستان اداروں کے خلاف بات کرتا ہے تو سوائے جذباتی نوجوانوں اور سادہ لوح قبائل کے سمجھدار پشتون اس سے کنارہ کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ موومنٹ میں شامل افراد کی ایک بڑی تعداد تحفظ موومنٹ کو تباہی موومنٹ کا نام دینے پر مجبور ہوگئی ہے۔ ایک قبائلی نوجوان جو کہ اسلام آباد میں نقیب محسود قتل کیس کے بعد ہونے والے دھرنے میں اہم کردار ادا کر رہا تھا، جب اس سے پوچھا گیا کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی کیا پوزیشن ہے؟ تو وہ سرد آہ بھرنے کے بعد یوں بولنا شروع ہوا ہے کہ جیسے اس نے سانس ہی نہیں لینی، کہنے لگا بھائی کیا بتاوں اسلام آباد دھرنے میں جب افغانستان کے پرچم تقسیم ہونا شروع ہوئے تو ہم سمجھ گئے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

محمود شاہ لکھتے ہیں کہ جب پشتونوں کی اکثریت دہشت گردی کی آگ میں تباہ ہو رہی تھی تو افواج پاکستان آپریشن کیلئے میدان میں آئی، سپاہی، کپتان، میجر سے لیکر بریگیڈیئر اور 4 جنرل سمیت 5 ہزار جوانوں کی قربانیاں دیں۔ قبائل نے ہزاروں بچے قربان کئے، ہم قبائل اور افواج کے بچوں کو پاکستان کے بچے ہی گردانتے ہیں، مگر آج جب آپریشن کی کامیابی کے بعد قبائل میں ترقی اور خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوچکا ہے، تباہ حال پشتون علاقوں میں کیڈٹ کالجوں کے ذریعے علم کی شمع ان کی دہلیز پر روشن کی جا رہی ہے، بندوبستی علاقوں کے بچے وزیرستان میں قائم کیڈت کالج میں داخلوں کیلئے بے تاب نظر آرہے ہیں، ایف ڈبلیو او کی زیرِ نگرانی اعلٰی کوالٹی کی سڑکیں وسط ایشائی ممالک تک تجارت کے فروغ اور سی پیک سے لنک کیلئے تیار ہیں، تو پشتون تحفظ موومنٹ کا نام لیکر محافظانِ پاکستان کے خلاف اسرائیل، بھارت اور بھارت کے تربیت یافتہ افغانستان کی پاکستان دشمن قیادت کی زبان بولنا اور اس پشتون تحفظ موومنٹ کا لبادہ پہننا دراصل پشتونوں کی تباہی ہے، جو کہ پلان بی کے سوا کچھ نہیں۔ بریگیڈیئر محمود شاہ کا کہنا ہے کہ پہلے جن قوموں نے جہاد کے نام پر پشتونوں کے بچوں کو مساجد میں نمازیوں کو شہید کرنے اور بے گناہوں کا خون کرنے کیلئے استعمال کیا، اب وہی عناصر پلان بی کے تحت قومیت کا نعرہ لگا رہے ہیں، مگر اب یہ کھیل نہیں چلنے دیں گے۔

پشتونوں کے حقیقی تحفظ کیلئے آج بھی جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں۔ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے طرز عمل کے خلاف پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر کل بھی احتجاج کیا جاسکتا ہے، اپنی ہی افواج کے سامنے قومی پرچم زیب تن کرکے انہیں سختی کی بجائے محبت برے سلوک پر آمادہ کیا جاسکتا ہے، مگر سبز ہلالی پرچم کی بجائے افغانستان کے جھنڈے اٹھانا دشمن ممالک کی زبان بولنا ہے۔ اپنوں کو دشمن بنانے اور دشمنوں کو پش کرنے کی ہی پالیسی ہے۔ منظور پشتون ہو یا کوئی اجتماعی مسائل کے حل کے نعرے کا ہم بھی خیر مقدم کرتے ہیں، مگر افواج پاکستان کے خلاف باتیں کرنے والوں کو اپنا لیڈر نہیں مانتے۔ منظور احمد طرزِ عمل تبدیل کرے، انڈیا، افغانستان اور اسرائیل جیسے پاکستان دشمنوں کا منظور نظر بننے کی بجائے پاکستان کا منظور نظر بنے۔ قبائل کو مذہب کے نام پر استعمال کرنے والے سوداگروں سے بچانے کیلئے کام کرے، ہم قبائل ان کا ساتھ دینگے، اس ملک کے فوجی، پولیس اہلکار، خاصہ دار اور کونے کونے میں بسنے والا ہر محب وطن پاکستانی اور قبائل ایک دوسرے کے منظور نظر ہیں۔ منظور پشتون، کلمے کے نام پر بننے والے ملک کے دفاعی اداروں کی پشت پر کلمے کی طاقت ہے۔

ایک (ر) بریگیڈیئر کے دل کی آواز سامنے آئی ہے تو دوسری جانب پشتون تحفظ موومنٹ سے وابستہ رہنماوں کا موقف ہے کہ ان کی تحریک کے نتیجے میں انٹیلی جنس اداروں اور فوج کی تحویل بے گناہ افراد میں سے 300 کے قریب افراد رہا ہوچکے ہیں۔ موومنٹ کے ایک اہم رہنماء علی وزیر کا موقف ہے کہ جب موومنٹ بنی تو اس کے بعد گرفتار بے گناہ افراد کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ علاوہ ازیں چیک پوسٹوں پر قبائلیوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک میں نرمی آئی ہے۔ 18 مارچ 2018ء کو موومنٹ کے زیرِ اہتمام باڑہ بازار میں ایک جلسے کا اہتمام ہوا، جس سے پاکستان تحریک انصاف کے اقبال آفریدی، اے این پی کے عمران آفریدی، موومنٹ کے سرکردہ رہنماء ڈاکٹر سید عالم محسود، علی وزیر اور دوسرے قائدیں نے بھی خطاب کیا۔ ایک جانب جلسہ ہو رہا تھا تو دوسری طرف مسلح افواج کے جوان سکیورٹی پر معمور تھے، اس دوران حکومت مخالف نعرے بلند ہوتے رہے۔ موومنٹ کے رہنماوں کا موقف تھا کہ 32 ہزار پختونوں کو لاپتہ کیا گیا ہے، ان کی فوری طور پر رہائی عمل میں لائی جائے۔ اسی طرح قائدین کا یہ بھی موقف تھا کہ قبائلی علاقوں میں قائم فوج کی چیک پوسٹیں ختم کی جائیں اور ان چیک پوسٹوں پر لیویز اور خاصہ دار فورس کے اہلکار تعینات کئے جائیں۔

اجتماع میں موقف اختیار کیا گیا کہ جو فوجی جوان قبائلی علاقوں میں تعینات ہیں، ان کو انڈیا کے ساتھ سرحدوں پر تعینات کیا جائے اور ماورائے عدالت اقدامات کا سلسلہ بند کیا جائے۔ عسکری قوت کے زیرِ قبضہ پبلک پراپرٹی، دینی مراکز اور مساجد کو عوام کے حوالے کیا جائے۔ اجتماع سے خطاب کے دوران پی ٹی ایم کے کنونیئر رحیم شاہ ایڈووکیٹ طور گل چمکنی، اے این پی صوبائی رہنماء عمران آفریدی، پی ٹی آئی خیبر ایجنسی کے صدر اقبال آفریدی، عبدالغنی آفریدی، خیبر یونین کے صدر بازار گل آفریدی، ثوبت خان آفریدی، شاہ حسین شنواری، کریم محسود ایڈووکیٹ، جماعت اسلامی کے شاہ فیصل آفریدی، شاہ جہاں آفریدی اور پی ٹی ایم کے دیگر رہنماوں نے پہلی بار عسکری قیادت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ پشتون قوم کے ساتھ ہونے والی زیادتی مزید برداشت نہیں کریں گے۔ باڑہ میں ہونے والے جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں موومنٹ کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے قائدین بھی شریک ہوئے اور وہ بھی پشتون تحفظ موومنٹ کی زبان بولنے لگے۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں چیک پوسٹوں اور بے گناہ افراد کے لاپتہ ہونے پر قبائلی علاقوں میں سیاسی جماعتیں اور پشتون تحفظ موومنٹ کے قائدین ایک صفحے پر ہیں۔
خبر کا کوڈ : 714359
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش