1
0
Sunday 1 Apr 2018 22:19

پاراچنار، دلخراش سانحات کی داستان(2)

پاراچنار، دلخراش سانحات کی داستان(2)
تحریر: ایس این حسینی

گذشتہ سے پیوستہ
ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن سید رضی شاہ کاظمی کا اغوا اور شہادت:
سید رضی شاہ کاظمی ایک نہایت قابل ایجوکیشن آفیسر ہونے کے علاوہ ایک جید اور متدین عالم دین بھی تھے۔ پشاور بورڈ کے کنٹرولر، فاٹا کے محکمہ تعلیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر، مہمند، باجوڑ اور خیبر میں ایجنسی کے ایجوکیشن آفیسر، ڈی آئی خان میں ریجنل ڈائریکٹر اور ایلیمنٹری کالج جمرود کے پرنسپل کے عہدوں پر اپنے فرائض منصبی انجام دینے کے دوران اپنی دیانتداری کی داستانیں رقم کی تھیں۔ انکی دینداری اور دیانتداری کی صوبہ بھر میں مثالیں دی جاتی تھیں۔ عمر کے آخری ایام 2008ء میں جمرود ایلیمنٹری کالج کے پرنسپل تھے کہ ہفتہ 29 نومبر 2008ء کو حیات آباد میں موجود اپنے گھر سے کالج آتے ہوئے راستے میں طالبان نے انہیں روک کر بندوق کی نوک پر اغوا کرلیا اور 6 دن اپنی حراست میں رکھتے ہوئے انتہائی بربریت کا نشانہ بنانے کے بعد جمعہ 5 دسمبر 2008ء کو ان کی سر بریدہ اور تشدد زدہ لاش حیات آباد کی ایک سڑک پر پھینک دی۔

یوسف حسین ساکن پیواڑ:
یوسف حسین واپڈا میں اے سی کے عہدے پر فائز تھے، جنہیں دو سال قبل ایبٹ آباد میں قتل کر دیا گیا۔ قاتل کے تانے بانے سنٹرل کرم کے علی شیر زئی قبائل سے ملتے ہیں۔ تمام قاتلوں کا حکومت کو بخوبی علم ہے، تاہم کسی مصلحت کے تحت انہیں منظر عام پر لانے سے کتراتی ہے۔
امجد حسین:

امجد حسین ولد حاجی خادم حسین کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے آگرہ سے تھا، تاہم وہ اپنے والد کے زمانے سے پاراچنار میں مقیم تھے۔ موصوف ایک تاجر پیشہ نیز ایک سماجی کارکن تھے، جو 2007ء میں فسادات کے دوران شدید زخمی ہوگئے تھے، جنہیں علاج کی غرض سے پشاور لے جایا گیا۔ پشاور میں علاج کے بعد صحت کافی حد تک بہتر ہوگئی تھی کہ اسی دوران پاراچنار سے تعلق رکھنے والے ایک مخصوص دہشتگرد گروپ نے انہیں گولی مار کر اس وقت شہید کر دیا، جب وہ ڈاکٹر کی ہدایت پر ہسپتال سے باہر سڑک پر ورزش کرتے ہوئے ٹہل رہے تھے۔

ڈاکٹر سید ریاض حسین:
سید ریاض امراض معدہ کے ایک ماہر اور قابل ڈاکٹر ہونے کے علاوہ ایک سماجی اور سیاسی شخصیت تھے۔ انہیں کئی بار نشانہ بنایا گیا۔ چنانچہ ایک مرتبہ انہیں 2008ء میں الیکشن مہم کے دوران اپنے الیکشن آفس کے سامنے نشانہ بنایا گیا۔ جس میں وہ بذات خود تو محفوظ رہے، تاہم ان کے حامیوں میں سے 70 کے قریب لوگ جاں بحق جبکہ دو سو سے زیادہ لوگ زخمی ہوگئے۔ اسکے چند سال بعد 9 جنوری 2013ء کو انہیں اس وقت قتل کر دیا گیا، جب وہ پشاور میں اپنے کلینک سے گھر جا رہے تھے۔ ان کے قاتل کوئی اور نہیں، کرم ایجنسی ہی سے تعلق رکھتے تھے۔

ڈاکٹر سید جمال حسین:
ڈاکٹر سید جمال حسین مشہور ماہر امراض قلب تھے۔ انہیں بھی پشاور میں اپنے کلینک سے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا، ان سے پانچ کروڑ تاوان کا مطالبہ کیا گیا، جسے بروقت ادا نہ کرسکنے کے باعث دوران حراست خیبر ایجنسی میں انہیں انتہائی بیدردی سے قتل کر دیا گیا۔
ڈاکٹر سید ممتاز حسین:
ڈاکٹر سید ممتاز حسین کو بھی پشاور ہی میں ان کی رہائش گاہ سے کلینک جاتے ہوئے اغوا کیا گیا، جنہیں ایک ماہ تک حراست میں رکھنے کے بعد بالآخر ڈیڑھ کروڑ روپے تاوان کے عوض رہائی نصیب ہوئی۔

ڈاکٹر شاکر حسین:
ایک قابل کہنہ مشق آرتھو پیڈک سرجن ہیں، انہیں بھی ایک مرتبہ اپنے کلینک اور گھر کے درمیان راستے میں نشانہ بنایا گیا، جس میں ان کا محافظ تو شہید ہوگیا، تاہم وہ بذات خود بال بال بچ گئے۔
حاجی گلاب حسین چار دیوال:

حاجی گلاب حسین ایک معروف سیاسی اور سماجی شخصیت تھے۔ پشاور قصہ خوانی میں پلاسٹک کی دوکان تھی اور چرچ کے قریب واقع محلہ مروی ہا میں رہائش پذیر تھے۔ انہیں دن دیہاڑے پاک ہوٹل کی طرف آتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ ان کے قاتل نے حاجی گلاب کے گھر والوں پر رحم کھاتے ہوئے پشاور سے ہجرت کرنے کا مشورہ دیا، تاکہ انہیں مزید نقصان سے دوچار نہ ہونا پڑے، چنانچہ وہ تو اپنی جان بچاکر اسلام آباد چلے گئے، جبکہ قاتل آج بھی پشاور میں مزے اڑاتے ہوئے سرعام پھیر رہا ہے۔
 
اسکے علاوہ کئی دیگر ڈاکٹرز اور انجنیئرز کو اغوا یا قتل کر دیا گیا، جن میں صدارہ سے تعلق رکھنے والے مشہور خاندان (گاشا خاندان) کے ایک ٹھیکدار ابرار حسین بھی شامل ہیں، جو شب اربعین بمطابق 3 جنوری 2013ء کو لاہور سے پشاور آئے تھے اور اربعین اپنے گاؤں پاراچنار میں گزارنے کی نیت سے پشاور سے پاراچنار جا رہے تھے، شب اربعین ہونے کی وجہ سے گاڑیوں کا مسئلہ تھا، چنانچہ پاک ہوٹل سے پیدل روانہ ہوکر کوہاٹ اڈہ جا رہے تھے کہ راستے میں کوہاٹ اڈہ کے قریب سوری پل کے قریب دہشتگردوں نے فائرنگ کرکے انہیں قتل کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 714704
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

جعفر علی اورکزئی
Pakistan
یا اللہ، تو ہی ظالموں سے انتقام لینے والا ہے۔ بیشک پاراچنار والوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ہیں۔ انکی مثال شاید ہی کہیں مل جائے۔ اللہ ان ظالموں پر لعنت کرے۔
ہماری پیشکش