0
Tuesday 3 Apr 2018 23:54

مشرقی غوطہ میں تکفیری دہشت گردوں کی شکست کی وجوہات

مشرقی غوطہ میں تکفیری دہشت گردوں کی شکست کی وجوہات
تحریر: علی اوحدی

شام کی مسلح افواج نے 25 فروری کو دمشق کے نواح مشرقی غوطہ میں تکفیری دہشت گرد عناصر کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا۔ اس آپریشن میں شام آرمی کو روس ایئرفورس کی حمایت حاصل تھی۔ چار ہفتے کی شدید جھڑپوں کے بعد اب تک نوے فیصد علاقہ تکفیری دہشت گرد عناصر سے آزاد کروا لیا گیا ہے۔ شام آرمی اور صدارتی گارڈز نے اس آپریشن میں مغربی عربی صہیونی محاذ کی جانب سے بے پناہ پروپیگنڈے کے باوجود النصرہ فرنٹ، فیلق الرحمان اور احرار الشام جیسے گروہوں سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر پر کاری ضرب لگائی اور انہیں گھیرے میں لے کر مشرقی غوطہ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس شدید شکست کے بعد تکفیری کمانڈرز مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو گئے۔ مشرقی غوطہ میں شام کی مسلح افواج کی برق رفتاری سے پیشقدمی کے نتیجے میں تکفیری دہشت گرد اس نتیجے پر پہنچے کہ مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں اور ان کے پاس شام آرمی کی تعیین کردہ شرائط قبول کر لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ شام آرمی نے انہیں ہتھیار پھینک کر صوبہ ادلب چلے جانے کی شرط پیش کی تھی۔

دوسری طرف شام آرمی کی جانب سے مشرقی غوطہ میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے ساتھ ہی دسیوں ہزار شہریوں نے دہشت گردوں کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے جس کے باعث شام آرمی کی پیشقدمی مزید آسان ہو گئی۔ تکفیری دہشت گرد گروہ احرار الشام نے سب سے پہلے ہتھیار پھینک کر علاقہ چھوڑ جانے کا اعلان کر دیا لہذا روس کی ثالثی کے ذریعے اس گروہ سے وابستہ دہشت گرد عناصر اور ان کے اہلخانہ کو صوبہ ادلب بھیج دیا گیا۔ مشرقی غوطہ میں واقع "حرستا" قصبے سے احرار الشام گروہ کے نکل جانے کے بعد دیگر قصبوں جیسے عربین، حزہ، زملکا اور جوبر سے بھی النصرہ فرنٹ اور فیلق الرحمان نام تکفیری دہشت گرد گروہوں سے وابستہ عناصر نے بھی ہتھیار پھینکنے کا اعلان کر دیا۔ دہشت گردوں کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کی ایک وجہ شام آرمی کی وہ فوجی کاروائی بھی تھی جس کے نتیجے میں عین ترما نامی قصبہ آزاد ہوا اور جوبر نامی قصبہ گھیرے میں آ گیا جس کے نتیجے میں ان کا رابطہ زملکا، عربین اور حزہ سے منقطع ہو گیا۔

ایک باخبر ذریعے کے بقول احرار الشام، النصرہ فرنٹ اور فیلق الرحمان کے صوبہ ادلب میں اتحادی ہیں جس کی وجہ سے ان گروہوں سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر نے مشرقہ غوطہ سے نکلنے کی درخواست دی تھی۔ شام آرمی سے طے پانے والے سمجھوتے کے نتیجے میں النصرہ فرنٹ اور فیلق الرحمان نے بھاری اسلحہ ان کے حوالے کر دیا اور اپنی قید میں موجود ہزاروں عام شہریوں اور فوجیوں کو بھی آزاد کر دیا۔ اسی طرح دہشت گرد عناصر کو اس بات پر بھی مجبور کیا گیا کہ وہ شہر میں لگائے گئے دھماکہ خیز ٹریپس کا نقشہ بھی آرمی کو فراہم کریں۔ کہا جاتا ہے کہ فیلق الرحمان اور النصرہ فرنٹ سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر مشرقی غوطہ سے نکل کر صوبہ ادلب میں ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں احرار الشام اور تحریر شام سے ملحق ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تازہ ترین رپورٹس کے مطابق دوما کے علاقے میں موجود تکفیری دہشت گرد گروہ جیش الاسلام نے بھی شام آرمی سے سمجھوتہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے اور اس طرح تقریباً تمام علاقہ دہشت گرد عناصر سے کلیئر کروا دیا گیا ہے۔ جیش الاسلام نامی تکفیری گروہ کو سعودی عرب کی براہ راست حمایت حاصل ہے۔ یہ گروہ شام کے جنوبی حصے کی جانب جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ایک باخبر ذریعے نے جیش الاسلام کی جانب سے شام آرمی کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا: اس دہشت گرد گروہ کا صوبہ ادلب میں کوئی اتحادی نہیں لہذا وہ ترکی کے حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کو مراعات دینے پر تیار نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تکفیری گروہ جیش الاسلام شام کے جنوب میں واقع صوبہ درعا جانا چاہتا ہے کیونکہ وہاں سرگرم دہشت گرد عناصر سعودی عرب کے حمایت یافتہ ہیں۔
خبر کا کوڈ : 715473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش