5
Thursday 31 May 2018 03:19

خطے کی صورتحال امریکی بساط کے تناظر میں

خطے کی صورتحال امریکی بساط کے تناظر میں
تحریر: عرفان علی

جس خطے میں پاکستان، افغانستان و ایران واقع ہیں، یہاں کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کے لئے ایک زاویہ نظر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں کے حالات کو امریکی پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے۔ دوسرا زاویہ نظر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہاں رونما ہونے والے واقعات کو ان ممالک کے موقف کے تناظر میں بھی دیکھا جائے، جو امریکہ کے مخالف ہیں یا جن کا امریکہ مخالف ہے۔ ماہ رواں میں دو خبروں کی طرف نگاہ فرمائیں کہ 3 مئی 2018ء کو طلوع نیوز کی خبر کے مطابق افغانستان میں تعینات ایرانی سفیر رضا بہرامی نے ایک تھنک ٹینک سے خطاب کرتے ہوئے کابل میں یہ انکشاف کیا کہ ایران نے افغانستان کے قومی سلامتی اداروں کو ایران کے اداروں کی حاصل کردہ خفیہ معلومات سے آگاہ کیا گیا ہے کہ کس طرح داعش دہشت گرد گروہ کے افراد افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔ دوسری خبر 27 مئی 2018ء کی ہے، جو پاکستان کے سرکاری ذرائع نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتائی کہ ایک ایرانی عہدیدار نے اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کی زیر قیادت پاکستانی وفد کو خبردار کیا ہے کہ امریکہ نے داعش کے دہشت گردوں بشمول اسکے سربراہ ابوبکر البغدادی کے افغانستان منتقل کر دیا ہے اور اس ضمن میں ایران کے پاس ٹھوس انٹیلی جنس شواہد موجود ہیں۔ اگر اس موضوع پر افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے نومبر 2017ء کے بیان کو بھی شامل کرلیں تو انہوں نے بھی یہی الزام لگایا تھا کہ افغانستان میں داعش کے ظہور کے پیچھے امریکہ ہے۔

چلئے دیگر خبریں بھی ذہن میں رکھتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے ایک بیان جاری کیا تھا کہ ایران سے نمٹنے کے لئے امریکی، سعودی و اماراتی مشیران برائے امور قومی سلامتی کا اجلاس وائٹ ہاؤس میں ہوا۔ اس کی خبر وائٹ ہاؤس نے بھی جاری کی جبکہ چین کے سرکاری خبر رساں ادارے نے 27 مارچ 2018ء کو یہی خبر جاری کی۔ لیکن ایک اور خبر جو بہت آسانی سے گوگل سرچ انجن پر تلاش کرنے سے مل جائے گی، جو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور خاص طور پر افغان خبر رساں اداروں نے جاری بھی کی کہ افغانستان کے مشیر برائے قومی سلامتی حنیف اتمر نے بھی امریکی، سعودی، اماراتی مشیران کے ساتھ چار روزہ، چار ملکی اجلاس میں شرکت کی۔ اسی حنیف اتمر نے فروری 2018ء میں سعودی ولی عہد سلطنت کی دعوت پر سعودی عرب کا دورہ کیا، جہاں دیگر کے علاوہ سینیئر سعودی انٹیلی جنس حکام اور وزیر داخلہ عبدالعزیز بن سعود سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ حنیف اتمر کو سابق صدر حامد کرزئی نے وزیر داخلہ کے عہدے سے معزول کر دیا تھا، کیونکہ ان کی تقرری کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی شدت سے جاری تھی اور ان سمیت حامد کرزئی کے دیگر مخالفین و متاثرین نے ایک نئی جماعت قائم کرلی تھی۔ اتمر صاحب پر امریکی، سعودی و اماراتی بہت مہربان دکھائی دیتے ہیں جبکہ پاکستان کو یہ شکایت رہی کہ افغانستان کے سکیورٹی ادارے پاکستان میں دہشت گردی میں افغان اداروں کو ملوث قرار دیتے رہے ہیں۔ یہی اتمر 17 مارچ کو اپنے پاکستانی ہم منصب سابق جرنیل ناصر جنجوعہ سے ملاقات میں مفاہمت کی بات کر رہے تھے، لیکن چند دنوں بعد جب واشنگٹن میں امریکی، سعودی و اماراتی حکام کے ساتھ اجلاس میں شرکت کر رہے تھے تو وہاں وائس آف امریکہ کی پشتو سروس ریڈیو آشنا سے گفتگو میں 24 مارچ 2018ء کو پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے تھے۔ یہ اس صورتحال کا وہ پہلو ہے جو پاکستان سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔

اس صورتحال کو آپ نائن الیون تک لے جائیں یا نائن الیون سے پہلے طالبان دور حکومت تک اور پھر وہاں سے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کے بہانے امریکی جہاد تک اور اس درمیان میں یا اس سے قبل امریکی حکام و اہم نظریہ سازوں کے موقف سے آگاہی حاصل کریں تو اتمر کے دورہ امریکہ و سعودی عرب اور ایران کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے پس منظر یا سیاق و سباق سے بھی خود بخود آگاہ ہو جائیں گے اور پھر یہ امریکی کھیل جو یہاں کے تین چار ممالک تک محدود نہیں ہے بلکہ پورے مشرق وسطیٰ، جنوب مشرقی ایشیاء ہی نہیں بلکہ پورے یوریشیاء تک پھیلا ہوا ہے، اس سے بھی اس صورتحال کا براہ راست تعلق سمجھ آجائے گا۔ آپ کی آسانی کے لئے امریکی ہیئت مقتدرہ کے دو بڑے نظریہ ساز یا دو بڑے دماغوں کے الفاظ من و عن پیش خدمت ہیں۔ امریکہ کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برزنسکی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہFor America, the chief geopolitical prize is in Eurasia......America's global primacy is directly depenedent on how long and how effectively its preponderance on the Eurasian continent is sustained ......About 75 per cent of the world's people live in Eurasia, and most of the world's physical wealth is there as well..... Eurasia accountsa for about three-fourths of the world's known energy resources....The most immediate task (for America) is to make certain that no state or combination of states gains the capacity to expel the United States from Eurasia or even to diminish significantly its decisive arbitration role
(حوالہThe Grand Chessboard by Zbigniew Brzezinski)۔

ہنری الفریڈ کسنجر جو قومی سلامتی کے مشیر اور وزیر خارجہ دونوں عہدوں پر امریکی حکومت کے لئے خدمات انجام دے چکے ہیں، انکا نکتہ نظر ملاحظہ فرمائیے:The southern rim of Asia - Iran, Pakistan and Afghanistan - is a region of the world that may seem remote and strange to Americans, and yet it is pivot of the world's security. Within a few years of my 1973 journey, it became an area of upheaval. From the Iranian revolution to Soveit invasion of Afghanistan to the Iran-Iraq war, events dramatised the vulnerability of the Persian Gulf - the lifeline of the West's oil supply. The vital importance of that region had long been one of the themes of the shrewd strategic analysts I was to visit next: Mao Zedong and Zhou Enlai. We had much to talk.
(حوالہ: Years of Upheaval by Henry Kissinger)
بین الاقوامی تعلقات کے اسکالرز اور طلباء کے لئے برزنسکی اور کسنجر صاحبان کے یہ جملے موجودہ صورتحال کو اس کے درست تناظر میں درست طور سمجھنے کے لئے کافی مددگار ہوں گے۔ کسنجر صاحب نے پچھلے سال امریکی و مغربی حکومتوں کو خبردار کیا تھا کہ داعش کو تباہ کرنے سے یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ یہاں ایران کی ریڈیکل سلطنت بن جائے۔If the Isis territory is occupied by Iran's Revolutionary Guards or Shia forces trained and directed by it, the result could be a territorial belt reaching from Tehran to Beirut, which could mark the emergence of an Iranian radical empire.

اگر یہاں پیش کردہ ان نکات کو ذہن میں رکھ کر شمالی کوریا اور چین کے ساتھ امریکہ کی ٹرمپ سرکار کی پل میں تولہ پل میں ماشہ پالیسی کو دیکھیں تو ٹرمپ ایک طرف سربراہی ملاقات کے لئے تاریخ کا اعلان کرتے ہیں، پھر مکر جاتے ہیں اور پھر دوبارہ تیاریوں کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔ چین و یورپی ممالک کے ساتھ تجارتی جنگ کا طبل بجاتے ہیں، پھر ایران نیوکلیئر ڈیل سے دستبردار ہونے کے بعد پھر چین سے تجارتی جنگ ختم کرنے کا اشارہ دیتے ہیں اور پھر چند روز بعد دوبارہ 50 بلین ڈالر مالیت کی چینی اشیاء پر درآمدی ٹیکس (ٹیرف) کا اعلان کرکے محاذ گرم کر دیتے ہیں۔ لبنان کی فوج کو امریکی امداد و معاونت کے وعدے کرتے ہیں اور جب حزب اللہ کا انتخابی اتحاد جیت جاتا ہے تو وزیر خارجہ مائیک پومپیو اس پورے عمل پر نظرثانی کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ جارج بش جونیئر کے آٹھ سالہ دور صدارت کی داستان انکی حکومت میں ہنری کسنجر کی مانند دو عہدوں پر خدمات انجام دینے والی کونڈولیزا رائس نے بھی بیان کی ہے اور باراک اوبامہ دور کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے بھی۔ چین، روس و بھارت و یورپی ممالک سمیت پوری دنیا کو ایران پر پابندیاں لگانے پر امریکی حکام ہی نے اکسایا اور انہیں ایرانی تیل کا متبادل فراہم کیا۔ بقول ہیلری کلنٹن ایران کو 80 بلین ڈالر کا مالی نقصان پہنچایا۔ جب انقلاب ایران نہیں آیا تھا، تب بھی کسنجر چینی حکمرانوں سے مشرق وسطیٰ کے ایشوز پر گفتگو کیا کرتا تھا!

حاصل مطلب یہ کہ اس ساری صورتحال کے پیچھے امریکہ ہی ہے، کیونکہ اس کی یہ سوچ ہے کہ وہ پورے خطہ یوریشیاء میں رہے اور یہاں کے وسائل کی بندر بانٹ کرے اور دیگر ممالک کو ایک دوسرے سے الجھا کر اپنا الو سیدھا کرے اور اس کی نظر میں خطے میں ایران، افغانستان و پاکستان سمیت پورے مشرق وسطیٰ کی اہمیت ہے۔ اس لئے داعش جیسا گروہ تخلیق کرنا (جیسا کہ موجودہ صدر ٹرمپ نے خود 2016ء میں کہا تھا کہ اوبامہ داعش کا بانی اور ہیلری شریک بانی ہیں) یا ایران یا اسکے اتحادیوں کے خلاف کوئی جھوٹا الزام لگاکر اقدامات کرنا (جیسا کہ کیوبا میزائل بحران کے وقت آپریشن نارتھ ووڈز یا آپریشن منگوز کے ذریعے جھوٹا بہانہ گھڑنے کا خفیہ منصوبہ کافی عرصے پہلے ڈی کلاسیفائیڈ ہوچکا ہے)، یہ سب امریکہ کی بچھائی ہوئی اسی بساط کا حصہ ہیں، جو امریکی سامراجی اہداف کے حصول کے لئے بچھائی گئی ہے۔ برزنسکی کی کتاب کا عنوان بھی بساط ہی ہے۔ تکفیری دہشت گردی ایجاد ہی امریکہ کی ہے۔ کاش کہ پاکستان کی مقتدر شخصیات سعودی و اماراتی دوست نما دشمنوں کے بارے میں بھی اپنی رائے کو بدلیں، تاکہ پاکستان بھی امریکیوں کے ان جوائنٹ وینچرز سے محفوظ رہے، جس میں سعودی و اماراتی بھی شریک ہیں۔ کیا ہم بھول گئے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں بھی یہی دو اتحادی پیش پیش تھے اور نائن الیون کے بعد افغانستان کو قبرستان میں تبدیل کرنے والی امریکی جنگ میں بھی اس کے ساتھ تھے۔ یہ وکٹ کے ہر طرف کھیلنے والے کھلاڑی ہیں، ان سے بھی ہشیار رہنے کی ضرورت ہے۔

دیگر حوالہ جات:
۱)
https://www.independent.co.uk/news/world/americas/henry-kissinger-isis-iranian-radical-empire-middle-east-a7881541.html 
Henry Kissinger warns destroying Isis could lead to 'Iranian radical empire'
۲) ہنری کسنجر کا لندن میں مارگریٹ تھیچر سکیورٹی کانفرنس سے خطاب
Chaos and order in a changing world 2... August 2017
۳) دی فرسٹ ان، سی آئی اے کے سابق افسر گیری اسکروئن کی کتاب 
۴) اسلام آباد میں متعین سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف کی کتاب
88 Days to Kandahar by Robert Granier
خبر کا کوڈ : 728521
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش